• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں جلسوں کی سیاست شروع ہو گئی ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے جلسوں کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی کراچی میں اپنی سیاسی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے ۔ پاکستان عوامی تحریک بھی لاہور میں جلسہ کرنے جا رہی ہے جبکہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی عوامی رابطہ مہم شروع کرنے پر غور کر رہی ہیں ۔ بعض حلقوں کا خیال یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں اور جلسوں کی وجہ سے دیگر سیاسی جماعتیں دباؤ میں آ گئی ہیں ، اس لیے وہ بھی مذکورہ دونوں سیاسی جماعتوں کی تقلید کرنے پر مجبور ہوئی ہیں جبکہ کچھ دیگر حلقوں کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے یہ محسوس کر لیا ہے کہ آئندہ عام انتخابات قبل از وقت ہو سکتے ہیں ۔ لہذا انہوں نے عوام سے رابطہ تیز کرنے کی حکمت عملی اختیار کی ہے ۔
اگر فرض کر لیا جائے کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں اور جلسوں کی وجہ سے پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتیں سیاسی دباؤ کا شکار ہوئی ہیں تو اس سے ان کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے اور لگتا ہے کہ وہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے نہ صرف خائف ہیں بلکہ دفاعی پوزیشن پر چلی گئی ہیں ۔ ان سیاسی جماعتوں کو یہ سوچنا چاہئے کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے جلسے منعقد کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے ، وہ ان کی مجبوری تھی کیونکہ اسلام آباد میں ان کے دھرنوں کو دو مہینے سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے اور وہ مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکے ہیں ، جن کے لیے دھرنے دیئے گئے تھے ۔ لاہور سے اسلام آباد کے لیے لانگ مارچ شروع کرتے وقت ان دونوں سیاسی جماعتوں کی قیادت کا یہ ہدف تھا کہ لانگ مارچ اسلام آباد میں جا کر دھرنے میں تبدیل ہو جائیں اور دو تین دن کے دھرنوں کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرکزی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا ۔ منصوبے کا ’’ بلیو پرنٹ ‘‘ انہوں نے خود بنایا تھا یا کسی اور نے بنا کر دیا تھا ، اس بات کے قطع نظر یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہوا ۔ دو تین دن تو کیا ، اسلام آباد میں ایک ماہ کے دھرنوں کے بعد بھی ’’ امپائر ‘‘ نے انگلی نہیں اٹھائی اور حکومت ختم نہیں ہوئی ۔ اپنی خفت مٹانے کے لیے دھرنے دینے والی دونوں سیاسی جماعتوں کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ ملک بھر میں عوامی رابطہ مہم چلائیں اور جلسہ ہائے عام کے ذریعہ اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کریں ۔ ان جلسوں کے لیے انہوں نے اپنے سارے مالی اور سیاسی وسائل جھونک دیئے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایسا نہ کرتے تو پھر کیا کرتے ؟ دھرنوں کی ناکامی کے بعد انہیں ایسا ہی کرنا چاہئے تھا ۔ پاکستان پیپلز پارٹی یا دیگر جماعتوں کو اس کی وجہ سے نہ تو سیاسی دباؤ میں آنا چاہئے اور نہ ہی دھرنا دینے والی سیاسی جماعتوں کے طرز سیاست کو اختیار کرنا چاہئے ۔ یہ تصور بھی غلط ہے کہ بڑے جلسے کرنے سے عمران خان یا طاہر القادری کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ دنیا بھر میں بڑے بڑے جلسہ عام منعقد کرنے کا ایک کمرشل طریقہ ایجاد ہو گیا ہے ۔ یہ بھی نہیں سمجھنا چاہئے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری جلسے منعقد کر کے حکومت کا خاتمہ کر دیںگے اور اس کے نتیجے میں وسط مدتی انتخابات منعقد ہوںگے ۔ جن سیاسی جماعتوں کے طویل ترین دھرنوں سے حکومت نہیں گئی ، ان کے جلسوں سے بھی کچھ نہیں ہو گا ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کو اپنی حکومتوں کی کارکردگی بہتر بنانی چاہئے اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرنا چاہئے ۔ جلسوں کی بجائے گڈ گورننس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ عمران خان اور طاہر القادری جلسے کرتے رہیں اور انہیں جلسوں میں ہی ان کا سیاسی ابھار خود بخود ختم ہو جائے گا ۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ ملک میں فوری طور پر عام انتخابات کا انعقاد بھی ممکن نہیں ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے ان معاملات کو حل کرنا ہو گا ، جن کی وجہ سے عام انتخابات ہمیشہ متنازع ہو جاتے ہیں ۔ ان معاملات کی وجہ سے ملک میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہو رہے ہیں ۔ عام انتخابات سے پہلے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں لیکن ان سے بھی پہلے ملک میں مردم شماری کا ہونا انتہائی لازمی ہے ۔ یہ ایک آئینی تقاضا ہے ، جو سیاسی پیچیدگیوں کی وجہ سے پورا نہیں کیا جا سکا ہے ۔ آئین کے مطابق ہر دس سال کے بعد مردم شماری ضروری ہے لیکن 16 سال ہو چکے ہیں اور مردم شماری نہیں ہوئی ہے ۔ کچھ عرصہ قبل ہونے والی خانہ شماری بھی متنازع ہو چکی ہے ۔ جب تک مردم شماری نہیں ہو گی ، پاکستان میں نمائندگی کے قانون کے تقاضے بھی پورے نہیں ہوں گے اور پاکستان کی ترقیاتی منصوبہ بندی بھی نہیں ہو سکتی ۔ یہ اتنا بڑا کام ہے ، جس کے لیے کم از کم ایک سال درکار ہو گا ۔ نئی مردم شماری کی بنیاد پر نئی انتخابی فہرستیں بھی مرتب ہونی چاہئیں تاکہ ان تمام شہریوں کوووٹ دینے کا حق حاصل ہو سکے ، جو آئین کے مطابق ووٹ دینے کے اہل ہیں ۔ اس کام کے لیے بھی کچھ وقت درکار ہو گا ۔ نئی مردم شماری کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں بھی ہونی چاہئیں ۔ یہ کام بھی دنوں میں نہیں بلکہ مہینوں یا سالوں میں ہو گا ۔ اب یہ بات ہر کوئی تسلیم کرتا ہے کہ پاکستان میں تمام انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے ۔ پھر دھاندلی کو روکنے کے لیے انتخابی اصلاحات نا گزیر ہو چکی ہیں ۔ نہ صرف انتخابی اصلاحات کے لیے پارلیمنٹ کا کردار بہت اہم ہے بلکہ جدید بائیو میٹرک سسٹم اور الیکٹرونک وووٹنگ مشینز کی خریداری کے لیے بھی بہت زیادہ مالی وسائل کی ضرورت ہے ۔یہ سارے کام کرنے کے بعد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہونا چاہئے ۔ عدالتی احکامات کے باوجود الیکشن کمیشن آف پاکستان نے خیبر پختونخوا میں آئندہ مارچ سے پہلے بلدیاتی انتخابات کرانے سے معذرت ظاہر کر دی ہے ۔ جب یہ سارے کام نہ ہونے کے باوجود بھی بلدیاتی انتخابات کے لیے 6 ماہ کا عرصہ درکار ہے تو عام انتخابات جلدی میں کیسے ہو سکتے ہیں۔ اگر یہ سارے کام نہیں کیے گئے اور جلد بازی میں وقت سے پہلے عام انتخابات کرا دیئے گئے تو ان انتخابات کو کوئی بھی تسلیم نہیں کرے گا ۔ آج عمران خان دھاندلی کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں کل کوئی دوسری سیاسی جماعت ان کے خلاف تحریک چلا رہی ہو گی ۔ آئندہ عام انتخابات سے پہلے یہ سارے کام کرنا بہت ضروری ہیں ۔ وسط مدتی انتخابات کی رٹ ختم ہو جانی چاہئے ۔ تمام سیاسی جماعتوں کو مردم شماری ، نئی حلقہ بندیوں ، نئی انتخابی فہرستوں ، انتخابی اصلاحات اور تین صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے قومی اتفاق رائے پیدا کرنا چاہئے ۔ اس کیلئے کچھ وقت درکار ہو گا ۔ 2018ء سے پہلے یہ سارے کام ہو جائیں تو عام انتخابات اپنے وقت پر منعقد ہوں تاکہ ان پر کسی کو اعتراض نہ ہو اور پاکستان جمہوری عمل میں آگے بڑھ سکے ۔ اس وقت جلسوں کی سیاست سے گریز کرنا چاہئے ۔
تازہ ترین