بیگم نصرت بھٹو جمہوری جدوجہد کی ناقابل فراموش علامت ہیں۔ جنرل ایوب کی آمریت میں جب بھٹو صاحب کو گرفتار کیا گیا تو بیگم نصرت بھٹو نے شہید بھٹو کی رہائی کے لئے عوامی تحریک کی قیادت کی۔ لاہور میں آمریت کے کارندوں نے ان پر اس قدر لاٹھیاں برسائیں کہ ان کا سر پھٹ گیا۔ 5جولائی 1977ء کو جب ضیاء الحق کا مارشل لاء مسلط ہوا تو یہ بیگم نصرت بھٹو ہی تھیں جنہوں نے ایک بار پھر آمر کے خلاف عوام کو متحرک اور منظم کیا۔ یہ بیگم نصرت بھٹو کی قیادت, محنت اور جدوجہد کا نتیجہ تھا کہ بھٹو صاحب کی قید اور پھر ان کی شہادت کے بعد بھی پیپلزپارٹی مستحکم رہی اور کارکنوں میں جذبہ برقراررہا۔ انہوں نےآمریت کا بھرپور مقابلہ کیا۔ محترمہ بینظیربھٹو نے جو قیادت فراہم کی وہ بیگم صاحبہ کی تربیت اور محنت کی بدولت ہی تھی۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے بارے میں ہمیں یہ اطلاعات مسلسل مل رہی تھیں کہ انہیں بیماری کے باوجود انتہائی تکلیف دہ صورتحال میںرکھاجارہا ہے۔ سابق وزیراعظم اوراسلامی سربراہی کانفرنس کے سربراہ کی بیوہ کوکراچی سنٹرل جیل کی سی کلاس میں اور آکسفورڈ کی تعلیم یافتہ26 سالہ بیٹی کو سندھ کے سخت ترین قید خانے سکھر سنٹرل جیل میں رکھا گیا تھا۔ جون 1981ء میں مجھے بغداد میں ہونے والی اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ یہاں مجھے یہ موقع بھی ملا کہ میں عرب وزرائے خارجہ کے ساتھ آئے مندوبین اور صحافیوں کو ضیاء کے مظالم اور بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا کے بارے میں آگاہ کروں۔ میں اپنے ساتھ بھٹوصاحب کی کتاب My Pakistan بھی لے گیا تھا جوعراق میں ہاتھوں ہاتھ لی جا رہی تھی۔ یہاں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے گدی نشین بھی ملے۔ انہیں بھٹو صاحب کی شہادت کا بڑا افسوس تھا۔ انہوں نے بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی نظربندی و قید پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔مسلسل نظربندی کے سبب بیگم نصرت بھٹو کو وسط 1982ء میں خون کی قے آئی۔ تجزیاتی رپورٹ سے ان کے بائیں پھیپھڑے میں کینسر تشخیص ہوا۔ بتایا گیا کہ اگر علاج میں تاخیر کی گئی تو ان کی جان بچانا مشکل ہو جائے گا۔ ضیا کی حکومت ان کی رہائی میں اس لئے تاخیری حربے استعمال کررہی تھی کہ ان کا مرض لاعلاج ہوجائے۔ اس موقع پر لندن میں ’’بیگم بھٹو بچائو مہم‘‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی گئی جس کے چیئرمین لارڈ ایوبری تھے۔ اس تنظیم کی سب سے زیادہ سرگرم رکن بیگم نصرت بھٹو کی بہن مسز بہجت حریری تھیں۔ان کے ساتھ ڈاکٹر ظفر نیازی بھی شامل تھے۔ مسزبہجت حریری نے ہائوس آف لارڈز کی ڈاکٹر تھلما بیٹس کے ہمراہ عالمی میڈیا کو بیگم صاحبہ کی بیماری سے آگاہ کیا۔ سنڈے ٹائمز نے بیگم صاحبہ کے حق میں زبردست اداریہ لکھا۔ ضیاء الحق نے عالمی رائے عامہ کے باوجود علاج کے لئے بیگم صاحبہ کو بیرون ملک علاج کیلئے بھیجنے میں ٹال مٹول اور حیلہ بازی سے کام لیا۔ دوسرے سیاسی رہنمائوں کے بارے میں ضیاء حکومت نے کبھی میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت نہیں کی تھی۔ میاں محمود علی قصوری‘ عبدالولی خان‘ مشیر پیش امام‘ سردار عطاء اللہ مینگل‘ غلام مصطفی جتوئی‘ ممتاز بھٹو‘ میاں طفیل محمد وغیرہ ماسکو، امریکہ اور برطانیہ آچکے تھے۔ خود ضیاء کی بیگم اور بیٹی کئی بار لندن سے طبی معائنہ کراچکی تھیں۔ آخر آمر کو عالمی رائے عامہ کے سامنے جھکنا پڑا اور بیگم صاحبہ کو نومبر 1982ء میں بیرون ملک علاج کی اجازت دیدی گئی۔ میونخ کے فور سیزن ہوٹل میں کئی سال بعد بیگم صاحبہ کو دیکھ کر مجھے شدید دھچکا لگا۔ شدید علالت اور اپنے عظیم شوہر کے ناقابل برداشت صدمہ کے باوجود ان کی شخصیت میں ایک وقار, عظمت اور استقلال جھلک رہا تھا۔
بیگم نصرت بھٹو نے علالت کے باوجود یورپ کے مختلف ملکوں سے آئے ہوئے پارٹی کارکنوں کے ایک اجتماع سے خطاب کیا۔ اس خطاب میں انہوں نے کہا کہ ’’ایک مطلق العنان آمر من مانی کررہا ہے۔ اس غیرآئینی حکومت کے خاتمے میں ہی ملک کی بقاء ہے۔ اس لئے پاکستانی عوام کو چاہئے کہ وہ اندرون اور بیرون ملک حکومت کے خلاف صف آراء ہوکر اپنی جدوجہد کو آگے بڑھائیں۔‘‘
بیگم نصرت بھٹو سخت قوت ارادی کی مالک تھیں اور اسی قوت سے حکمراں خائف تھے۔ بیگم صاحبہ نے تمام مصروفیات ترک کرکے علاج کرایا۔ اس عرصے میں ایسے مرحلے بھی آئے جب خطرات کے اندھیرے بڑھ گئے لیکن ان کی حوصلہ مندی نے قدم قدم پرخطرات کا مقابلہ کیا۔ 1979ء سے بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بینظیربھٹو قید و نظربندی کے باعث بھٹوصاحب کی برسی کا اہتمام نہ کرسکی تھیں۔ جنوری 1984ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اپنے کان کے علاج کیلئے لندن آئیں۔ جہاں دونوں ماں بیٹی نے پارٹی کارکنوں اور عام پاکستانیوں کے ہمراہ بھٹو صاحب کا پانچواں یوم شہادت منایا۔ 8اپریل کو لندن میں ایک جلسہ عام ہوا جس میں برطانیہ کے علاوہ یورپ سے بھی کارکن شریک ہوئے۔18جولائی 1985ء کو جب شاہنواز بھٹو کی پراسرار موت کی خبر ملی تو بیگم نصرت بھٹو کے لئے یہ صدمہ ناقابل برداشت تھا۔ وہ خوداوران کاساراخاندان جمہوریت کی خاطر ہر روز نئی مشکلات اور صدمات کا سامنا کررہا تھا۔ انہوں نے کمال ضبط کا مظاہرہ کیا اور ضیاء سے مشتعل کارکنوں کی جمہوری تربیت کی۔
بیگم نصرت بھٹو نہایت شفیق, ہمدرد غمگسار, اعلیٰ ہمت اور بہادرخاتون تھیں۔ وہ کارکنوں کا بے حد احترام کرتی تھیں۔ جو لوگ بحرانی دور میں پارٹی کے وفادار رہے ان کے لئے بیگم صاحبہ کے دل میں بڑی قدرومنزلت تھی۔ انہوں نے پاکستان میں پہلی بار خواتین کو سیاسی عمل میں حصہ لینے پر آمادہ کیا۔ اس سے پہلے خواتین عموماً سماجی و فلاحی کاموں تک محدود رہتی تھیں۔ بیگم نصرت بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلزپارٹی شعبہ خواتین کی بنیاد رکھی گئی۔ پورے ملک سے پڑھی لکھی خواتین کو ذمہ داریاں دی گئیں۔ بیگم صاحبہ نے پارٹی کو منظم رکھنے اورسازشوں سے بچانے کے لئے کارکنوں سے رابطہ برقرار رکھا۔ مزدور, دانشور, خواتین اور نوجوان اپنے حوصلوں کی مضبوطی کیلئے بیگم نصرت بھٹو سے رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ بیگم نصرت بھٹو نے اپنی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کی صورت میں پاکستان اور عالم اسلام کو ایک عظیم قائد عطا کی۔ انہوں نے اپنے عظیم شوہر کی شہادت ہی نہیں دونوں پیارے بیٹوں کی موت کا دکھ بھی سہا۔ ان کی بیٹی ان کی زندگی میں شہید ہوئیں۔ ان کی زندگی کے دکھ جمہوریت کے سایہ دار پیڑ بن کر ابھرے۔ وہ مادر جمہوریت تھیں۔ یہ قابل غور حقیقت ہے کہ 23اکتوبر بیگم نصرت بھٹو کی زندگی کا آخری دن تھا اور 23مارچ زندگی کا آغاز, کبھی کبھی تاریخ اس طرح بھی خود کو دہراتی ہے۔
بیگم نصرت بھٹو کو ہم سے جدا ہوئے تین برس ہو چکے ہیں۔ کارکنوں کے دلوں میں ان کی یاد آج بھی تازہ ہے اور وہ بیگم صاحبہ کے سیاسی کردار اور جرأت مندانہ قیادت کو ہمیشہ خراج تحسین پیش کرتے رہیں گے۔