SMS: #HRC (space) message & send to 8001
تحریک طالبان پاکستان کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ پاکستان شدت پسندوں کے شر سے آزاد ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ٹی ٹی پی میں شکست و ریخت اور دھڑے بندی نے مولوی فضل اللہ کی تنظیم کی رہی سہی حیثیت بھی ختم کردی ہے۔آپریشن ضرب عضب کے کامیاب اہداف نے تحریک طالبان پاکستان کی کمرتوڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے مگراس کے رہنماؤں کی اپنی غلطیوں نے بھی تنظیم کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔گزشتہ سال نومبر میں حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد نئے سربراہ کے لئے حقانی نیٹ ورک سمیت تحریک کے مضبوط دھڑوں نے من پسند امیر لانے کے لئے خوب منصوبہ بندی کی تھی۔مذاکراتی عمل شروع ہونے کی وجہ سے پاکستانی اداروں کی خواہش تھی کہ مولوی فضل اللہ جیسا ضدی شخص ٹی ٹی پی کا نیا سربراہ مقرر نہ ہو اور اس کے لئے اچھے اور برے طالبان کی اصطلاح متعارف کرانے والے دوستوں نے ’’اچھےـ طالبان‘‘کی مدد بھی حاصل کرنے کی کوشش کی مگر ملا عمر کی فضل اللہ کےلئے واضح حمایت کی وجہ سے تحریک کے دیگر دھڑوں نے بھی اپنا وزن ملا ریڈیو کے پلڑے میں ڈال دیا اوریوں’’اچھے طالبان‘‘اور ریاستی اداروں کی شدید مخالفت کے باوجود سوات سے بھاگے ہوئے مولوی فضل اللہ المعروف ملا ریڈیو تحریک طالبان پاکستان کا نیا امیر مقرر ہوگیا۔اس سارے معاملے کے دوران’’اچھے طالبان‘‘کے حوالے سے ریاستی اداروں کی پالیسی نہ صرف تبدیل ہوئی بلکہ حقانی نیٹ ورک سے بھی شدید اختلافات کھل کر سامنے آئے۔اسی دوران اسلام آباد کے ریڈزون سے صرف چند کلومیٹر دور بار ہ کہوہ کے علاقے میں حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی کے بیٹے نصیر الدین حقانی المعروف ڈاکٹر کو نامعلوم افرادنے گولیاں مار کر قتل کردیا۔نصیر الدین حقانی نہ صرف ملاعمر کے سرکاری ترجمان تھے بلکہ امریکہ سے طالبان کے مذاکرات اور مصر میں تحریک کے دفتر کے حوالے سے بھی اہم ذمہ داریاں ادا کررہے تھے۔اپنی موت سے دو روز قبل انہوں نے اس عاجز کو بتایا تھا کہ دوحہ میں طالبان کے دفتر کی بحالی سے قبل ان کی حکمت عملی ہے کہ امریکہ،برطانیہ اور فرانس کی ٹرائیکا کو ختم کرایا جائے تاکہ امریکہ تنہا ہوکر کمزور ہوجائے اور مذاکرات میں آسانی ہو۔اسی طرح نصیر الدین حقانی کی موت کے چند روز بعد خیبر پختونخوا کے بندو بستی علاقے میں ایک ڈرون حملہ کیا گیا جس کا ہدف جلال الدین حقانی کے بڑے بیٹے سراج الدین اوران کے چچا حاجی خلیل حقانی تھے ۔مگر حملے سے چند منٹ قبل حقانی نیٹ ورک کے دو اہم روح رواں کسی دوسری جگہ منتقل ہوگئے تھے۔مولوی فضل اللہ کو امیر بنوانے کے معاملے پر حقانی نیٹ ورک سے اختلافات اس قدر سنگین اور شدید ہوگئے تھے کہ راولپنڈی کی ایک کالونی میں کئی سال سے رہائش پذیر بیمار جلال الدین حقانی کو کسی دوسری جگہ منتقل ہونا پڑا۔ریاستی اداروںکا اس حوالے سے موقف رہا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے ملاعمر سے ذاتی تعلقات تھے اور اسی وجہ سے فضل اللہ کو امیر نامزد کرانے میں اس گروپ کا اہم کردار ہے۔
مولوی فض اللہ کے امیر بننے کے بعد تنظیم کو شدید دھچکا اس وقت لگا جب ایک مضبوط محسود قبیلے نے ٹی ٹی پی سے علیحدگی کا اعلان کیا،جس سے شمالی وزیرستان میں طالبان کو شدید مشکلات سے دوچار ہونا پڑا۔آپریشن ضرب عضب میں کامیاب منصوبہ بندی کی وجہ سے جہاں طالبان کی صفوں میں انتشار پیدا ہوا وہیں تنظیم کو بڑا نقصان اس وقت اٹھانا پڑا جب فضل اللہ کے قریبی ساتھی مہمند ایجنسی کے امیر عمر خالد خراسانی نے جماعت الحرار کے نام سے نئی تنظیم کی بنیا د ڈال دی۔تنظیم مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار اس وقت ہوئی جب گزشتہ ہفتے ٹی ٹی پی کے ترجمان شاہد اللہ شاہد و دیگر نے دولت اسلامیہ کے امیر ابو بکر البغدادی کی بیعت کا اعلان کیا۔تحریک طالبان کے دوست سمجھے جانے والے ذمہ دار افراد کا کہنا ہے کہ تحریک کے ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر ہونے کی جو چند وجوہات ہیں ان میں فضل اللہ کا امیر بننا بنیادی وجہ تھی ۔جنہوں نے تنظیم کی مستقبل کی جو حکمت عملی تیار کی اس سے تحریک کے مضبوط اور بااثر دھڑوں کو شدید اختلافات تھے۔اسی لئے تحریک طالبان کے جو نئے دھڑے وجود میں آئے اور ان کی حکمت عملی بھی ٹی ٹی پی سے بالکل مختلف ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اندرونی اختلافات ہی نہیں بلکہ ضرب عضب آپریشن کے باعث تنظیم کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم تہس نہس ہوگیا ہے۔جس سے تنظیم کافی کمزور ہوئی ہے۔اسی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں خاطر خواہ کمی دیکھی گئی۔حتیٰ کہ سیکورٹی کے معقول انتظامات نہ ہونے کے باوجود شاہراہ دستو ر پر 67روز تک دھرنا جاری رہا مگر معمولی سا بھی کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔میر ی اطلاعات کے مطابق تحریک طالبان سے علیحدہ ہونے والے افراد کا تنظیم سے نظریاتی اختلاف بھی زور پکڑ گیا تھا اور اسی وجہ سے پاکستان سے کچھ حد تک شدت پسندوں کی نظر ہٹ رہی ہے اور ترجیحات بدل رہی ہیں۔شدت پسند اب ہندوستان،افغانستان اور ایران کی جانب اپنی توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔دولت اسلامیہ کے نزول کی وجہ سے شدت پسندوں کی توجہ اس خطے سے ہٹی ہے اور اب وہ مشرقی وسطیٰ کی طرف جانے پر بھی غور کررہے ہیں۔اس لئے امکانات یہی ہیں کہ پاکستان میں آنے والے دنوں میں دہشت گردی کے کم امکانا ت ہیںمگر ایسے حالات میں جب اچانک مولانا فضل الرحمٰن پر کوئٹہ میں خودکش حملہ کیا جاتا ہے تو بہت سے سوالات ایک مرتبہ پھر کھڑے ہوجاتے ہیں کہ اگر سیکورٹی فورسز نے طالبان کا نیٹ ورک بالکل تباہ کردیا ہے تو مولانا پر حملہ کس نے کرایا؟
جمعیت علمائے اسلام کے امیر پر ہونے والے حملے کی دلچسپ و حیران کن بات یہ ہے کہ حملے سے قبل کسی سیکورٹی یا انٹیلی جنس ایجنسی نے کوئٹہ تو کیا پورے بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعے کے خطرے سے آگاہ نہیں کیا تھا۔اتنا بڑا انٹیلی جنس کولیپس اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔کیا ادارے بے خبر سورہے تھے؟
تھی شب تاریک چور آئے جو کچھ تھا لے گئے
کر ہی کیا سکتا تھا بندہ کھانس لینے کے سوا
تو ایسے حالات ہیں۔گزشتہ رات برادرم میاں ناصر کے گھر مولانہ عطاالرحمٰن بتارہے تھے کہ بم پروف گاڑی جو کوئٹہ کے ایک ایس ایس پی نے فراہم کی تھی وہ بھی جمعیت علمائے اسلام کے بار بار کہنے پر دی گئی ۔مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہے لیکن اگر بم پروف گاڑی نہ ہوتی تو ہم شاید آج ایک قومی سانحے سے دوچار ہوتے۔اس سارے معاملے کی تہہ تک پہنچنا سکیورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ہمیں اپنے داخلی معاملات کو درست کرنے کی اشد ضرورت ہے۔بھارت سے سرحد پر کشیدگی کا پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا۔تاریخ گواہ ہے کہ پاک بھارت معاملے میں جس نے بھی شروعات کی ہیں اس فریق نے نقصان اٹھا یا ہے۔ہماری بدقسمتی ہے کہ اس وقت چین کے سوا کسی ہمسایہ ملک سے ہمارے تعلقات ٹھیک نہیں ہیں۔بھارت تو روائتی حریف سہی مگر افغانستان اور ایران کے ساتھ کیا ماجرا ہے؟ہمیں صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے ہر طرح کے اقدام سے اجتناب کرنا چاہئے اور اسی میں وطن عزیز کی بہتری ہے وگرنہ پاکستان کا بہت بڑا نقصان ہوسکتا ہے۔