• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
معلوم نہیں شاعر نے بتایا تھا یا پوچھا تھا کہ؎
ملیں اسی لئے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں
کہ دختران وطن تار تار کو ترسیں؟
پاکستان ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کرنے والا ایشیا کا آٹھواں ملک ہے۔ چین اور ہندوستان کے بعد دھاگہ تیار کرنے والا تیسرا اور کپاس پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے جس کا ملکی جی ڈی پی میں حصہ ساڑھے آٹھ فیصدی بیان کیا جاتا ہے۔ ہنرمند اور غیر ہنرمند کو روزگار فراہم کرنے والی دوسری بڑی صنعت جس سے کم از کم ڈیڑھ کروڑ محنت کشوں کا روزگار وابستہ ہے جو قومی ورک فورس کا 30 فیصد بنتا ہے۔
پاکستان میں 122 جننگ یونٹس، 124 بڑے اور 425 چھوٹے سپننگ یونٹس ہیں۔ امریکہ اس وقت تین فیصد ٹیکسٹائل مصنوعات پاکستان سے درآمد کرتا ہے۔ برآمدات میں 67 فیصد حصہ ٹیکسٹائل کی صنعت کا تھا جو توانائی کے بحران کی وجہ سے 55 فیصد رہ گیا ہے۔ ٹیکسٹائل کی برآمدات کی سالانہ مالیت دس کروڑ باسٹھ لاکھ ڈالروں کی بتائی جاتی ہے۔
ویدوں لٹریچر کے مطابق چالیس صدیاں پہلے جب دنیا کے موجودہ صنعتی ممالک کے لوگ غاروں میں رہتے تھے ہڑپہ (ہری ہرپوپا) کی قدیم مادرانہ تہذیب کی خواتین تین نباتاتی رنگوں میں سوتی کپڑا دجلہ فرات کے تہذیبی علاقوں کو برآمد کررہی تھیں۔ اگر ہم اس صنعت کے پیداواری عمل پر غور کریں تو ہر سطح پر محنت کشوں کا استحصال ہورہا ہے۔ کپاس کاشت کرنے والے چھوٹے کاشت کاروں، کھیت مزدوروں، کپاس چننے والی جفاکش عورتوں کی جائز کمائی کو ٹھیکہ دار ، جاگیردار، آڑھتی، زرعی ادویات اور بینک اور کھاد کیڑے مار ادویات تیار کرنے والے لوٹ لیتے ہیں۔بارہ سے چودہ گھنٹے محنت کرنے والوں کو محض سانس اور دھڑکن جاری رکھنے کے لئے دس ہزار ماہانہ اجرت ادا کی جاتی ہے جو انہیں غربت کی لکیر سے اوپر آنے کی اجازت نہیں دیتی جب کہ چار ہزار سال پہلے ہڑپہ تہذیب کے ’’لنگر‘‘ کہلانے والے مشترکہ کمیونٹی باورچی خانوں میں آگ کبھی نہیں بجھتی تھی اور ہر وقت گرم اور تازہ کھانا ہر کسی کو مفت فراہم کیا جاتا تھا۔
روئی اور بیج الگ کرنے والی جننگ فیکٹریوں میں جہاں روئی کی گانٹھیں بنائی جاتی ہیں وہاں کے مزدوروں کو سانس برقرار رکھنے کے لئے دس ہزار روپے ماہوار سے زیادہ ادا نہیں کئے جاتے۔ روئی کی گانٹھیں سپننگ یونٹس میں لائی جاتی ہیں جہاں غریب عورتوں اور بچوں سے کم قیمت پر دھاگہ تیار کروایا جاتا ہے۔ اس کے پاور ٹوم پر 24 گھنٹوں میں 65 میٹر کپڑا تیار ہوتا ہے تو مزدور کو صرف دو سو روپے اجرت دی جاتی ہے۔ عیدین کے تہواروں پر بتایا جاتا ہے کہ سینکڑوں میٹر کپڑا تیار کرنے والے جفاکش کے بیوی بچے عید کے موقع پر نئے کپڑے خریدنے کی استطاعت سے محروم رہے۔
چار ہزار سال پرانی ہڑپہ کی قدیم اشتراکی تہذیب گواہ ہے کہ جغرافیائی طور پر گرم علاقے میں کپاس کاشت ہوتی تھی تو سب لوگوں کی ضرورت کا کپڑا تیار ہوتا اور کوئی ننگا دکھائی نہیں دیتا ہوگا۔ آج کروڑوں لوگ اس صنعت سے وابستہ ہیں اور ان کے جسم ننگے ہیں اور صنعت کے مالکان پارچات اور ملبوسات کی نمائش سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ ہمارے موجودہ نظام معیشت میں تدبیر نہیں تخریب چلتی ہے۔ فلاح نہیں بربادی ہے۔ انسانیت نہیں درندگی اور وحشت ہے۔ تہذیب نہیں بدتہذیبی ہے۔ اجتماعیت نہیں انفرادیت اور نفسانفسی ہے ۔امن نہیں جنگ ہے۔ خون پینے والے کیڑوں کی طرح سرمایہ دار اور جاگیردار اور ان کے گماشتے نہ صرف محنت کشوں کے خون پر پلتے ہیں بلکہ حکمرانی بھی کرتے ہیں۔
تازہ ترین