• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا دبئی ایک اسلامی ملک نہیں؟ کیا وہ خوشحال ملک، یا امارت نہیں؟ اگرچہ اس کے پاس تیل کی زیادہ دولت نہیں لیکن اپنے تخیلات کی بدولت کیا وہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کررہا؟اس کی ائیرلائن ہماری بہت سی انٹر پرائزز کی مجموعی آمدنی سے زیادہ دولت کماتی ہے ۔ایسا کیوں ہے ؟اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اس کے حکمران احمق نہیں ہیں۔ اُنھوں نے اپنی ریاست کی از سر ِ نو تخلیق کی، اس کو نئی جہت بخشی ، اور اب دنیا اس کی سیر کرنے آتی ہے ۔
دبئی کے پاس کون سے وسائل ہیں؟ وسیع وعریض ریت کے میدان، سمندر، گرم مرطوب آب وہوارکھنے والی ساحلی پٹی۔ اس میں آپ کو اونٹ یا شکاری پرندے دکھائی دیں گے ۔ تاہم اس کے تخیلات کی دولت سے مالا مال حکمرانوں، جو یقینی طور پر مطلق العنان ہیں، نے دبئی کو ایک فعال اور متحرک ریاست میں تبدیل کردیا ہے ۔ یقینا وہ مسلمان ہیں، اور اسلام کے بارے میں بہت سخت ہیں، کسی عوامی مقام پر بوس وکنار کرنے یا کوئی مخصوص مشروب پینے کی کوشش آپ کو بہت مہنگی پڑے گی۔ تاہم اُنھوں نے اپنی ریاست میں غیر ملکیوں کے لئے انسانی فطرت کے تقاضوں کے مطابق ماحول کی بھی اجازت دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا اُن کی طرف آتی ہے ۔
یہ درست ہے کہ لامتناہی شاپنگ مالز کو کلچر یا ترقی کا تصور قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ میرے دوست ، ملک ریاض کو البتہ ترقی کا یہ پہلو پسند آئے گا، اور اگر اُن کا بس چلے تو وہ تمام پاکستان کو جدید رہائشی کالونیوں اور شاپنگ مالز میں تبدیل کردیں ۔ تاہم دبئی میں غیر ملکیوں کے لئے کشش ہے اوروہ وہاں جائیداد خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا غیر سرکاری دارالحکومت بھی قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ کوئی بھی پاکستانی لیڈردبئی میں رہائش کے بغیر خود کو مکمل تصور نہیں کرتا۔ آپ کسی بھی رہنما کا نام لے لیں، اور اس کا دوسرا، یا پہلا گھر دبئی میں ضرور ہوگا۔ کیا اُنہیں نائٹ کلب یا عشرت گاہیں مرغوب نہیں؟ جب وہ دبئی کی طرف پرواز کرتے ہیں تو اپنا روحانی لبادہ یا اسلامی تشخص ادھر ، وطن میں ہی چھوڑ جاتے ہیں۔ وہاں لینڈ کرتے ہی وہ ایک تبدیل شدہ انسان ہوتے ہیں۔ وہاں قیام کے دوران وہ اپنے جسم اور دماغ کو تازگی فراہم کرتے ہیں اور پھر وہ اس سرسبز سرزمین کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ یاد رہے ، دبئی میں سرعام کچھ نہیں ہوتا، وہ ایک محتاط ، لیکن معقول جگہ ہے ، جو کچھ کرنا ہے ہوٹلوں یا مکانوں کے بند دروازوں کے پیچھے کرلیں۔
لاہورکا نصف کے قریب ثقافتی اسلوب اور اس کے زریں شفق کی شادابی ، جس کے بغیر لاہور، لاہور نہیں ہوتا، باقاعدگی سے دبئی کی طرف عازم ِ سفر دکھائی دیتی ہے ۔ خیال رہے، وہ سب کی سب وہاں شاپنگ کرنے ہی نہیں جاتیں۔ قدیم مصر کے بازار، جہاں جسم بکتے تھے، کی نئی ذیلی شاخ ادھربھی فعال ہے ۔ چنانچہ شفق کی شادابی زربفت میں ڈھل کر واپس آجاتی ہے ، اور یوں کاروبار ِ حیات چلتا رہتا ہے ۔ دبئی میں کچھ احمقانہ چیزیں بھی ہوتی ہیں، جیسا کہ ا سنوپارک۔ اگر اس میں یہ حماقتیں نہ بھی ہوتیں تو بھی اس میں دل ٹھنڈا کرنے کا کافی اہتمام تھا۔ اب اُنھوں نے وہاں اوپیرا ہائوس بھی قائم کردیاہے ، اور اس کی افتتاحی تقریب میں پرنس محمد کو مدعوکیا گیا تھا۔ میں شرط لگا سکتا ہوں کہ ہم اگلے سوسال تک بھی یہاں اوپیرا ہائوس نہیں کھول سکیں گے ۔یہاں پراپرٹی بزنس میں نام رکھنے والے بڑی سے بڑی عبادت گاہیں قائم کررہے ہیں، لیکن میوزیم ، کنسرٹ ہال، اوپیراہائوس ، سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
بھٹوصاحب کو اس کےتیل سے دولت کمانے والوں سے منفعت حاصل کرنے کا احساس ہوگیا تھا، اور اُنھوں نے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ سب سے پہلا کام یہ کیا انھوں نے کہ پاکستانی پاسپورٹ کا حصول آسان کردیا۔ ا س سے پہلے پاسپورٹ حاصل کرنا سات سمندرتیرکر عبور کرنے اور ساحل پر ریت کے تمام ذروں کی گنتی کرنے کے مترادف تھا۔ جب بھٹو صاحب نے اعلان کیا کہ آپ ارجنٹ پاسپورٹ ایک دن میں اور معمول کے مطابق پندرہ دنوں میں حاصل کرسکتے ہیں تو لوگوں کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ اس سہولت نے افرادی قوت اور پروفیشنلز کو خلیجی ریاستوں اور سعودی عرب کام کرنے کے لئے جانے کے قابل بنا دیا۔ کراچی میں بھی غیر ملکی سیاحوں کو متوجہ کرنے کے لئے ایک یا دو کلبوں پر کام شروع ہواتاکہ پیٹروڈالر کی آمدہمارے ہاں بھی شروع ہو۔ آپ بھٹو صاحب پر جتنی مرضی تنقید کرلیں، لیکن آپ کو اتفاق کرناپڑے گا کہ وہ تخیلات رکھتے تھے۔ اُس وقت دبئی ایک ماہی گیروں کی بستی سے بہتر نہ تھا، جبکہ کراچی ایک کاسموپولیٹن شہر تھا، اور اس میں خدا کی دی ہوئی ہر چیز تھی۔ ایسی کوئی فضائی کمپنی نہ تھی جس کی کراچی کے لئے پرواز نہ ہوتی ہو۔ جب میری ملیر میں پوسٹنگ ہوئی تو ہم روشنیاں اور گہما گہمی دیکھنے اور خوبروفضائی میزبانوں کی ایک جھلک دیکھنے ایئرپورٹ پر جاتے ۔ اُس وقت ہم نوجوان، اناڑی اور بس کچھ بھی نہیں تھے ، بس دیکھ لیتے اور ایک اور دن گزر جاتا۔
اگر بھٹو اقتدار میں رہتے تو بہت کچھ ہوسکتا تھا، لیکن پھر ہماری قسمت میں 1977 کا موسم ِ گرما لکھا ہوا تھا۔ دائیں بازو کی جماعتوں کو وہ سب کچھ برداشت نہ ہوا ، اور اسلام کے نعرے لگاتیں، الیکشن میں دھاندلی کاشور مچاتیں چڑھ دوڑیں اور پاکستان کی قسمت کو روند کر رکھ دیا۔ بھٹو صاحب نے انتخابات کے نتائج سے پیدا ہونے والی صورت ِحال کو سنبھالنے کی کوشش کی، لیکن اگر وہ فرشتے بھی ہوتے اور تمام داخلی معاملات کو درست کرلیتے تو بھی جماعت ِاسلامی اور دائیں بازوکی دیگر جماعتیں اُنہیں نہ بخشتیں۔ اس کانتیجہ ہم سب جانتے ہیں۔ قدامت پسندوں نے بھٹو صاحب کواتار کے ہی دم لیا۔ حکومت سنبھالنے والے جنرلوں نے وقت کا پہیہ الٹا گھمانا شروع کردیا۔ پاکستان کا تاریک دور کی طرف سفر شروع ہوگیا، کراچی کی روشنیاں بجھنے لگیں، ایئرپورٹ کی رونق ماند پڑتی گئی، مہمانوں نے اس طرف آناموقوف کردیا۔کراچی میں بہت سے نائٹ کلب تھے ، اور آج یقین نہیں آتا کہ وہ یہی کراچی تھا جہاں میٹروپول اور پیلس ہوٹل میں رقص و موسیقی کے فلور آباد ہوتے تھے ، اور ان کے اشتہارات دواہم انگریزی روزناموں میں شائع ہوتے ۔ لیکن جنرلوں کے آتے ہی نائٹ کلبوں پر تاریکی چھا گئی، بار سنسان ہوگئے، خاص مشروب پینے یا ملکیت میں رکھنے پر سزا دی جانے لگی۔
جنرل ضیا کا جھکائواسلام کی طرف تھا، لیکن اُس وقت اُن کے سامنے ایک عملی مسئلہ بھی تھا۔ پاکستان کا خزانہ خالی تھا۔ چنانچہ ضیا نے عرب بھائیوںکی طرف دیکھا، اور پھر ہم نے یہاں حدود آرڈیننس کو منظور ہوتے اور پوری طاقت سے نافذ ہوتے دیکھا۔ اس سے وہ پاکستان معرض ِوجود میں آیا جو آج ہمارے سامنے ہے ۔ معاملہ صرف یہی تک ہی محدود رہتا تو بھی ایک بات تھی ، لیکن بدقسمتی ہماراگھر دیکھ چکی تھی۔ سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کرلیا اور ہم نے نام نہادجہا دکا نعرہ لگادیا۔ باقی تاریخ ہے ۔ اگر نائٹ کلب کھلے رہتے، کیسینو آباد رہتے اور حلق تر کرنے کے لئے شہری نہ ترستے تو کوئی بات نہیں اگر جنرل کسی مجبوری کے تحت تقدیس کا لبادہ اُوڑھ چکے تھے ، باقی ملک تو معقول راہوں کی طرف گامزن رہتا تو بھی ہم بہت سی پریشانیوں سے بچ سکتے تھے ۔
میری نسل کے لوگ1971 کی جنگ میں نوجوان تھے ۔ بھٹو صاحب نے صدارت سنبھالی اور اعلان کیا کہ تاریک رات اب ختم ہوچکی۔ مجھے جیسے بے شمار نوجوانوں کو اُن کی بات پر یقین آگیا تھا۔ ہم خود کو خوش قسمت تصور کررہے تھے کہ برا وقت جاچکا، اور اب ہم بھی دنیا کے شانہ بشانہ آگے بڑھیں گے ۔ تاہم آنے والے واقعات نے ہمارے خوابوں کی تعبیر الٹا کر رکھ دی۔ اب تو یہی کہنا پڑتا ہے ۔۔۔’’یاد ِ ماضی عذاب ہے یارب‘‘۔ پاکستان آج بھی تعمیر نو کی طرف بڑھ سکتا ہے، لیکن اس کے لئے تخیلات اور دلیر قیادت کی ضرورت ہے ۔ ابھی بھی تاریک راہوں میں اجالا ہوسکتا ہے ، لیکن تصورات کی محفل میں معقولیت کے چراغ روشن کرنے ہوںگے ، فکری پسماندگی کے اندھیرے کو دور بھگانا ہوگا۔ ہم اپنے بدترین چیلنج پر قابو پاچکے۔ دہشت گردی اور تشدد کا پنجہ توڑ دیا گیا ہے ، لیکن خطرہ ابھی مکمل طور پر نہیں ٹلا۔ ہمارا مسئلہ وہ رہنما ہیں جن کی سوچ کامحور اپنے مفاد سے آگے نہیں بڑھتا۔ ان کا کیا علاج کیا جائے ؟


.
تازہ ترین