• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ ہفتے جرمنی کا دورہ کیا ۔ یہ دورہ کئی حوالوں سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان اپنی داخلی اور خارجہ پالیسی کی وجہ سے گمبھیر مسائل میں الجھا ہوا ہےاور داخلی سطح پر وہ تشویشناک حد تک معاشی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ان مسائل سے نکالنے کے ایک نئے راستے کی نشاندہی ہو گی۔ وزیر اعظم کے حالیہ دورہ جرمنی سے ہمیں بہت زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے۔ میرے خیال میں جرمنی کی تاریخ، موجودہ عالمی حالات میں جرمنی کے کردار اور پاکستان کی معروضیت سے ابھرتی ہوئی نئی قومی سوچ کا مختصر جائزہ لینا ضروری ہے ۔ جرمنی کی عظیم الشان تاریخ ہے ۔ دیگر مغربی اور یورپی اقوام کے مقابلے میں جرمن قو م کو اپنی تاریخ پر فخر زیادہ اور ندامت کم ہے ۔ جرمنی15ویں اور 16 ویں صدی کے عظیم پروٹسٹنٹ ریفارمر ( اصلاح کار ) مارٹن لوتھر اور 19 ویں صدی کے عظیم انقلابی فلسفی کارل مارکس کی سرزمین ہے۔ صرف ان دو شخصیات کو سامنے رکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ جرمن قوم بحیثیت مجموعی اپنے جوہر میں استعمار اور استبداد کو پسند نہیں کرتی۔ جرمنی میں کسانوں کی بیشمار بغاوتیں ہوئی ہیں ۔ 1476ء میں کسانوں کے ایک انقلابی لیڈر ہانس بوہم نے اعلان کیا کہ ’’ خدا کی ماں نے اس پر آشکار کیا ہے کہ خدا کی بادشاہت آنے والی ہے ، اب کوئی شہنشاہ ، پوپ ، شہزادے یا جاگیردار نہیں رہیں گے۔ تمام انسان بھائی بنیں گے اور تمام عورتیں بہنیں ۔ دھرتی کے ثمرات میں سب برابر کے حصہ دار ہونگے ۔ جنگل ، زمین ، چراگاہیں اور پانی سب کیلئے مشترک اور مفت ہو گا ۔ ‘‘ 1502ء میں اسپیئر ( Speyer ) کے بشپ کسانوں نے 7 ہزار آدمیوں کا انقلابی گروپ تشکیل دیا ، جنہوں نے جاگیرداروں اور پادریوں کے تسلط کو ختم کرنے اور اپنے اجداد کا ’’ کمیونزم ‘‘ بحال کرنے کا حلف لیا ۔ یہی مارٹن لوتھر کا دور ہے ، جب 19 ویں صدی میں پوری دنیا میں سرمایہ داری نے اپنے خونی پنجے گاڑھ لئے تھے ، اس وقت جرمنی کے کارل مارکس نے سرمایہ داری کے خلاف سب سے زیادہ آواز بلند کی تھی ۔ اس سے جرمن قوم کے مزاج اور جوہر کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ اسی قوم نے ایسے فلسفی ، ادیب ، شاعر اور سائنس دان پیدا کئے ، جنہوں نے تاریخ کے دھارے بدل کر رکھ دیئے ۔ ان میں لائبنز ، کانت ، شوپنہائر ، نطشے ، گوئٹے اور دیگر بے شمار لوگ شامل ہیں۔ اس اجمالی جائزے سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ جرمن قوم کی اپروچ دیگر مغربی اقوام سے مختلف ہے اور جرمنی کا کردار بھی دیگر عالمی طاقتوں سے مختلف ہے ۔ جرمن قوم کے تاریخی جوہر اور موجودہ عالمی اپروچ کے پیش نظر پاکستان کو جرمنی سے اپنے دوستانہ تعلقات پر پہلے سے زیادہ خصوصی توجہ دینا چاہئے ۔ جرمنی صرف ایک ملک ہی نہیں ہے بلکہ یورپی یونین کا لیڈر ہے ۔ 2008ء کے معاشی بحران میں جرمنی نے کئی یورپی ممالک کو سہارا دیا ۔ جرمنی ہی وہ پہلا ملک تھا ، جس نے یہ اعلان کیا تھا کہ ’’اب دنیا یک قطبی ( یونی پولر ) نہیں رہی‘‘۔ جرمنی سیاسی اور معاشی استحکام کے حوالے سے یورپ کا مضبوط قلعہ ہے ۔ دورہ جرمنی کے دوران وزیر اعظم پاکستان نے جرمن چانسلر انجیلا مرکل سے ملاقات کی ۔ انجیلا مرکل نہ صرف جرمنی بلکہ یورپی یونین کی انتہائی محترم اور غیر متنازع لیڈر ہیں ۔ انہوں نے مشترکہ پریس کانفرنس میں انجیلا مرکل نے یہ واضح کیا کہ جرمنی کی کمپنیاں پاکستان کے توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی خواہش مند ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جرمنی کا کے ایف ڈبلیو اسٹیٹ ڈیولپمنٹ بینک پہلے ہی پاکستان میں تعاون کے کئی منصوبوں پر کام کر رہا ہے ۔ وزیر اعظم نےجرمن سرمایہ کاروں اور پاکستانی کمیونٹی کے لوگوں سے بھی خطاب کیا اور پاکستان میں انہیں سرمایہ کاری کی دعوت دی ۔ وزیر اعظم کی اس دعوت پر بہت مثبت ردعمل کا اظہار کیا گیا ۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہے ۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس میں اس وقت ہم پھنسے ہوئے ہیں ۔ دنیا میں بہت سرمایہ موجود ہے اور سرمایہ کار بے چین ہیں کہ وہ کہاں سرمایہ کاری کریں ۔ پاکستان 22 کروڑ لوگوں کا ملک ہے اور یہ ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ یہاں سرمایہ کاری کے بڑے مواقع ہیں لیکن بیرونی سرمایہ کاری کے حصول کیلئے بیرونی دوروں اور کانفرنسوں کے انعقاد سے زیادہ اہم دیگر عوامل ہیں ۔سرمایہ کار وہاں سرمایہ لگاتے ہیں ، جہاں منافع اور تحفظ ہو ۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام ممالک اپنے قومی مفادات کو بھی مد نظر رکھتے ہیں ۔ جرمن چانسلر محترمہ انجیلا مرکل نےمشترکہ پریس کانفرنس میں ایک ایسی بات کہی، جس پر ہمیں بحیثیت قوم انتہائی سنجیدگی سے بار بار سوچنا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ جرمن کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں لیکن انہیں پاکستان میں سکیورٹی کی صورت حال کے بارے میں دوبارہ یقین دہانی کرائی جائے ۔ جرمن چانسلر نے بھی یہ باور کرا دیا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ امن وامان کا ہے ۔ ہمیں اگر معاشی طور پر ترقی کرنا ہے اور آزاد خارجہ پالیسی تشکیل دینی ہے تو ہمیں امن وامان کو لازماً ٹھیک کرنا ہو گا ۔ہمارے دیگر بھی مسائل ہیں جو بیرونی سرمایہ کاری کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔ میں ایک زمانے میں ملائیشیا کی کئی کمپنیوں کا وکیل تھا ، جو پاکستانی تاجروں اور حکومتی لوگوں کے بارے میں شکایات کرتی رہتی تھیں۔ کچھ ایسی بھی شکایات ہیں ، جن کا میں یہاں حوالہ دینا مناسب نہیں سمجھتا ۔ ہم نے چین اور ترکی کی کمپنیوں کے ساتھ کئی معاہدے کیے لیکن یہ شفاف نہیں ہیں ۔ ایسی ’’ پریکٹس ‘‘ کو دنیا کے اکثر لوگ پسند نہیں کرتے ہیں ۔ بجلی ،گیس اورانفراسٹرکچر کے مسائل کی وجہ سے بھی بیرونی سرمایہ کاریہاں آنے سے ہچکچاتے ہیں۔ ہمارے لوگوں کو باہمی تجارت میں دنیا کا اعتماد بحال کرناہوگا۔ بیرونی سرمایہ کاروں کو یہاں کی حکومتی پالیسیوں ، کرپشن ، سرخ فیتہ اور بیڈ گورننس کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ہماری خارجہ پالیسی بھی بیرونی سرمایہ کاروں کے لئے مسائل پیدا کرتی ہے ۔ ہماری خارجہ پالیسی ’’ پینڈولم ‘‘ کی طرح ہے ۔ کبھی ہمارا مکمل جھکاؤ امریکہ کی طرف ہوتا ہے اور کبھی مکمل جھکاؤ چین کی طرف ہوتا ہے۔ہمارے ہاں ترقی کی منصوبہ بندی کرنے والے ادارے بھی قومی تقاضوں کو مدنظر نہیں رکھتے ، جن کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کارپاکستان کے ان شعبوں میں سرمایہ کاری نہیں کرسکتے،جہاں سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ہماری سیاسی قیادت اورپالیسی سازوں کوان سارے مسائل پر توجہ دینا ہوگی اورسرمایہ کاری دوست ماحول پیداکرنا ہوگا۔ پاکستان کوچاہئے کہ جرمن سرمایہ کاروں کی دلچسپی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے۔اس وقت پاکستان اور جرمنی کے درمیان تقریباً دو ارب ڈالر کی باہمی تجارت ہورہی ہے۔ اس میں یک دم کئی گنا اضافہ کیاجاسکتا ہے۔کیونکہ دونوں ملکوں کی باہمی تجارت میں بڑی گنجائش موجودہے۔جرمنی انتہائی درجے کا صنعتی ملک ہے۔جس کے پاس انتہائی جدید ٹیکنالوجی ہے۔جرمنی کی پاکستان میں دلچسپی بہت زیادہ ہے۔ حال ہی میں جرمنی پاکستان ٹریڈاینڈانویسٹمنٹ ( جی پی ٹی آئی ) کے نام سے ایک فورم بنایا گیا ہے جو پاکستان جرمن بزنس فورم کا Extensionہے ، جس کا مقصد پاکستان اور جرمنی کی باہمی تجارت کو فروغ دینا ہے ۔ دراصل سرمایہ کاروں کے مسائل حل کرنے میں مدد گار ہے ۔ جی پی ٹی آئی نے آٹو موبائل انڈسٹری،زراعت،متبادل توانائی، فارماسیوٹیکلز اینڈ کیمیکلز ، انجینئرنگ ، کمپیوٹر اور دیگر شعبوں میں ماہرین کے گروپ بھی تشکیل دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے ۔ دراصل جی پی ٹی آئی ، جرمن ایسوسی ایشن ٹریڈ اینڈ اکنامکس ( گیٹ ) اور پی جی بی ایف ( پاک جرمن بزنس فورم ) کے اشتراک سے بنی ہے۔ پاکستان میں GPTI نے آئندہ سال بڑی سرمایہ کاری کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، جس میں جرمن کمپنیوں کی بڑی تعداد شرکت کریگی اور پاکستان کے بڑے صنعتکار‘ تجارتی گروپ‘ فیڈریشن‘ چیمبر‘ APTMAوغیرہ شریک ہونگی۔ ان تینوں تنظیموں کی یہ کوشش ہے کہ جرمن پاکستان چیمبر آف کامرس قائم کیا جائے۔ اگر یہ چیمبر قائم ہو جاتا ہے تو نہ صرف پاکستان میں جرمنی کی بلکہ جرمنی میں پاکستان کی سرمایہ کاری بھی ہوگی یورپ سے ٹریڈ میں بھی اضافہ ہوگا۔ جی پی ٹی آئی سے پاکستانی سرمایہ کاروں کے لئے جرمنی میں ترغیبات پیدا ہو گی۔ اس طرح پاکستان کو جرمنی کے ذریعے یورپی یونین میں داخل ہونے کا اچھا موقع ملے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اس نئے وژن کے ساتھ جرمنی سے اپنے باہمی تعلقات کو فروغ دے، پاکستان کو جرمنی کے سرمایہ کاروں کو آگے بڑھ کر خوش آمدید کہنا چاہئے۔
تازہ ترین