• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے متعدد سیاسی قائدین بار بار متنبہ کر رہے ہیں کہ 18 ویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں ۔ اس انتباہ کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے ۔ عوامی نیشنل پارٹی ( اے این پی ) کے سربراہ اسفندیار ولی خان نے اگلے روز نوشہرہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتےہوئے اس خدشے کا اظہار کیا کہ بعض قوتیں 18 ویں آئینی ترمیم ختم کرنا چاہتی ہیں ۔ انہوں نے یہ واضح کیا کہ اگر 18 ویں آئینی ترمیم کو چھیڑا گیا تو آئین بھی نہیں بچے گا اور اگر آئین نہ رہا تو وفاق بھی نہیں رہے گا ۔ صرف اسفند یار ولی خان ہی نہیں بلکہ چھوٹے صوبوں کے دیگر سیاست دان بھی اسی خدشے کا اظہار کر رہے ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل سینیٹر میاں رضا ربانی مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ 18 ویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں ۔ وہ اس ترمیم کو ختم کرنے کے منفی اثرات سے بھی پاکستانی قوم کو آگاہ کر رہے ہیں اور دو ٹوک الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ18 ویں آئینی ترمیم نہ رہی تو وفاق بھی نہیں رہے گا۔ بلوچستان کے ممتاز سیاست دان اور نیشنل پارٹی کے رہنما میر حاصل خان بزنجو نے کچھ عرصہ قبل کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 18ویں آئینی ترمیم پاکستان کی وفاقی اکائیوں کے درمیان ایک واحد رشتہ ہے۔اگر یہ رشتہ ٹوٹ گیا تو وفاق بھی نہیں رہیگا ۔ بلوچستان کے لوگوں نے آئین میں یہ ترمیم کرانے کیلئے نہ صرف طویل جدوجہد کی ہے بلکہ بے شمار قربانیاں بھی دی ہیں ۔ کچھ لوگوں کو یہ احساس ہی نہیں ہے کہ 18ویں ترمیم پر پاکستان خصوصاً چھوٹے صوبوں کے عوام نے اپنا بہت کچھ قربان کیا ہے۔18 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سازشیں کرنے والے اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اب وفاق پاکستان کو اس ترمیم کے بغیر چلا سکتے ہیں تو وہ غلط فہمی کا شکار ہیں ۔ اسی طرح سندھ ، بلوچستان ، خیبر پختونخوا اور جنوبی پنجاب کے دیگر سیاست دان بھی 18ویں آئینی ترمیم کیخلاف سازشوں کا مل کر مقابلہ کرنے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سی قوتیں اس18 ویں ترمیم کو ختم کرنا چاہتی ہیں،جس نے پاکستان کی وفاقی اکائیوں یعنی صوبوں کو تاریخ میں پہلی مرتبہ وفاق سے مطمئن کردیاہے ۔ چھوٹے صوبوں کے لوگوں میں اس ترمیم کو رول بیک کرنے کا خدشہ اس لئے پیدا ہوا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی موجودہ وفاقی حکومت صوبوں کو وہ امور منتقل کرنے میں پس و پیش سے کام لے رہی ہے ، جو امور اس ترمیم کے تحت صوبوں کو منتقل کرنا ضروری ہیں ۔ ابھی تک بہت سی وفاقی وزارتیں اور ادارے صوبوں کو منتقل نہیں کئے گئے ہیں ۔ ان وزارتوں اور اداروں کے اثاثہ جات اور بجٹ بھی ابھی تک صوبوں کے حوالے نہیں کئے گئے ہیں حالانکہ 18 ویں آئینی ترمیم کو منظور ہوئے 4 سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے ۔ قدرتی وسائل پر ابھی تک صوبوں کا وہ حق تسلیم نہیں کیا گیا ہے ، جو 18 ویں آئینی ترمیم میں انہیں دیا گیا ہے۔صوبوں کوئلے اور دیگر متبادل ذرائع سے بجلی پیدا کرنیوالے منصوبوں کیلئے حاصل اختیارات بھی استعمال نہیں کرنے دیئے جا رہے۔ وفاقی حکومت کے اس رویئے سے چھوٹے صوبوں میں شکوک و شبہات پیدا ہو ئے ہیں ۔ اس کے علاوہ چھوٹے صوبوں میں یہ احساس بھی پیدا ہو رہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک جیسی سیاسی جماعتوں کی کچھ قوتیں در پردہ حمایت کر رہی ہیں اور انہیں پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جگہ ایک سیاسی قوت کے طور پر ابھار رہی ہیں ۔ یہ دونوں سیاسی جماعتیں جس منشور اور جس سیاسی ایجنڈے کے ساتھ سامنے آئی ہیں ، اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ وہ اقتدار میں آتے ہی 18 ویں آئینی ترمیم کو رول بیک کر دیں گی ۔ چھوٹے صوبوں کے لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو سیاسی طور پر اس لئے کمزور کیا جا رہا ہے کہ اس نے 18 ویں آئینی ترمیم کی حمایت کی تھی اور وہ اب بعض نادیدہ قوتوں کی طرف سے اس ترمیم کو رول بیک کرنے کیلئے دباؤ کو قبول نہیں کررہی۔ وفاق سے صوبوں کو مختلف امور کی منتقلی میں تاخیر کا سبب بھی یہی ہے کہ یہ نادیدہ قوتیں نہ صرف وفاقی حکومت بلکہ وفاقی بیورو کریسی پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ یہ قوتیں چاہتی ہیں کہ پنجاب میں اپنی من پسند سیاسی جماعتوں کو عام انتخابات میں زیادہ سے زیادہ نشستیں دلا کر پارلیمنٹ میں ایسی پوزیشن حاصل کر لی جائے کہ 18ویں ترمیم کی مخالف قوتیں اکثریت میں ہوں اور اس ترمیم کو برقرار رکھنے والی سیاسی جماعتیں کمزور ہوں۔اس خدشے کی وجہ سے چھوٹے صوبوں میں زیادہ بے چینی پیدا ہو رہی ہے کہ آبادی کے تناسب سے قومی اسمبلی میں زیادہ نشستیں رکھنے والے صوبے پنجاب میں اتنی تیزی سے 18 ویں آئینی ترمیم کی مخالف سیاسی جماعتوں کو آگے لایا جا رہا ہے ۔
سیاست کرنا ہر ایک کا بنیادی حق ہے لیکن ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو یہ بات ضرور پیش نظر رکھنا چاہئے کہ پاکستان ایک وفاق ہے اور پاکستان کے متفقہ دستور اور اس میں کی جانے والی متفقہ 18 ویں آئینی ترمیم کو چھیڑا گیا تو پھر پاکستان میں متفقہ آئین کا بننا بہت مشکل ہو گا۔ پاکستان تحریک انصاف یا اس طرح کی دائیں بازو کی کسی سیاسی جماعت کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کیلئے 18 ویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنے کے حق میں ہو سکتے ہیں لیکن چھوٹے صوبوں کے لوگ ان کا ساتھ نہیں دیں گے ۔ یہاں تک کہ خیبر پختونخوا کے تحریک انصاف کے لوگ بھی اس میں ساتھ نہیں دیں گے ۔ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ پنجاب میں زیادہ اثر ورسوخ رکھنے والی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) ، پاکستان مسلم لیگ (ق) اور پاکستان مسلم لیگ (ہم خیال ) کی قیادت نے بہت عرصے کے بعد یہ محسوس کیا کہ وفاق پاکستان کو بچانے کیلئے صوبوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دینا ہوگی۔اب اس قیادت کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ پنجاب خصوصاً وسطی پنجاب کے عوام کا یہ حق ہے کہ وہ جس سیاسی جماعت کو چاہیں ووٹ دیں لیکن وہ اس بات کا بھی ضرور خیال رکھیں کہ کسی جماعت کو وفاق کی سلامتی سے نہ کھیلنے دیں ۔ چھوٹے صوبوں کے عوام یہ بات ہر گز برداشت نہیں کرینگے کہ 18 ویں ترمیم رول بیک ہو ۔
تازہ ترین