سچ پوچھیں تو تاج محمد کی زندگی سراسر خسارے کی زندگی ہے!
جن دو طبقوں کا پاکستان میں راج ہے ،جن کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے۔ ان دونوں کا تاج محمد سے دور دور کا تعلق نہیں۔
وہ کسی یونیورسٹی میں نہیں پڑھا، وکالت کی نہ سیاست، کسی پارٹی میں شامل نہ ہوا، کوئی وزارت نہ سنبھالی، انسانی حقوق کے نام پر سزائے موت کی مخالفت کی نہ غریبوں کی زندگی بدل ڈالنے کے لئے کوئی این جی او بنائی۔ اس قلاش شخص کا اتنا بخت کہاں کہ یہ بیرون ملک سرمایہ کاری کرتا۔ جدہ میں فیکٹری لگانا تو دور کی بات ہے اس نے جدہ دیکھا تک نہیں۔ فرانس میں چار سو سالہ پرانا محل خریدنا کجا، اسے یہی نہیں معلوم کہ فرانس کس براعظم میں ہے نہ اسے پتہ ہے کہ بر اعظم کیا ہیں اور کتنے ہیں۔ لندن میں پراپرٹی کا کاروبار کرنے یا نیویارک میں بیش بہا اپارٹمنٹ خریدنے کا امکان اس کی آئندہ نسلوں کے بھی دائرہ تصور سے خارج ہے۔ تاج محمد نے برانڈڈ یا ڈیزائنر سوٹ تو کیا پہننا ہے اس نے پتلون اور کوٹ کو کبھی جسم کے قریب تک نہیں کیا۔ اس کی ملکیت میں کوئی جائیداد ہے نہ مربع، زرعی فارم ہے نہ کارخانہ، دارالحکومت کے امیر سیکٹر میں اپارٹمنٹ بنانے کا کاروبار ہے نہ ایفی ڈرین کے ذریعے اس نے دولت کمانے ہی کا کبھی سوچا۔
تاج محمد نے کسی مدرسہ کی شکل بھی نہیں دیکھی۔ آٹھ سال لگا کر اس نے فقہ پڑھی نہ منطق، نہ اسے یہ معلوم ہے کہ فرقے کون کون سے ہیں ،کون کون سے دائرہ اسلام کے اندر ہیں اور کون کون سے باہر ہیں۔ اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ کس امام کے پیچھے نماز ہوتی ہے اور کس کے پیچھے نہیں ہوتی۔ وہ مدرسہ کے لئے مالی وسائل اکٹھا کرنے کی غرض سے کبھی امریکہ گیا نہ برطانیہ نہ ہی امریکی حکومت نے اسے کبھی اپنا مہمان بنایا۔ وہ اتنا سادہ لوح ہے کہ اسے مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنے کا مطلب ہی نہیں معلوم۔ وہ تصور تک نہیں کرسکتا کہ کس طرح ہمیشہ پروٹوکول کے جلو میں رہنا ہے کس طرح وزارتی مراعات لینی ہیں، کس طرح ہر ہفتے وزیر اعظم سے ملنا ہے اور یہ سب کچھ کرتے ہوئے کس طرح اس طبقے کو اپنی اطاعت کے اندررکھنا ہے جس پر انتخابات جیتنے کا دارومدار ہے۔
تاج محمد ان پڑھ شخص ہے، وہ علم سے اورمنطق سے اور خطابت سے نا آشنا ہے، وہ لکڑی کی کھڑائوں پہنے ایڑی پر گھوم ہی نہیں سکتا کہ دہشت گردوں کو دہشت گردی سے بری الذمہ قرار دے کر معصومیت سے پوچھے کہ کیا خبر، ان کی پشت پر کون ہے؟ اس کا چہرہ خضاب زدہ بھی نہیں کہ اس پر اطمینان اور شکم سیری کی لہر دوڑتی پھرے اور وہ مقتولین کے لئے محلات کی خوش خبری دیتا پھرے ،مگر قاتلوں کا ذکر تک نہ کرے۔
تاج محمد ان ساری امتیازی خصوصیات سے محروم ہے۔ کوٹھی،کار، وزارت، امارت، جاگیر، مدرسہ، عمامہ، عبا، تھری پیس سوٹ اس کے خواب و خیال میں بھی کبھی نہیں آئے۔ وحید احمد کی شہرہ آفاق نظم خانہ بدوش کا ایک بند تاج محمد کی غربت اور گمنامی پر صادق آتا ہے؎
نہ الکھ جگا سنسار میں جب ماں کی کھوکھ ہٹی
نہ پستک کھولی باپ نے جب میری ناف کٹی
نہ عمل کیا رمال نے نہ دھن خیرات بٹی
نہ بڑوں نے منتر تان کے کوئی پاک زبان رٹی
نہ مشت میں میری مشتری نہ پائوں میں نیلو فر
نہ زہرہ میری جیب میں نہ ہما اڑے اوپر
لیکن اے اہل وطن! کیا تمہیں معلوم ہے کہ تاج محمد سب سے بازی لے گیا؟اس نے وہ کام کردکھایا جو امراء سے ہوا نہ وزراء سے اور نہ علماء سے۔سانحہ پشاور کے شہید بچوں کی میتیں قبرستان آنے لگیں تو گورکن تاج محمد، جو اس سخت دل پیشے میں کبھی نہ رویا تھا، آنسو ضبط نہ کرسکا اور رونے لگ گیا۔
کیا ستارہ چمکا ہے تاج محمد کی پیشانی پر، کیا کرنیں اتری ہیں اس کے بخت پر، اس نے شہید معصوم بچوں کو وہ نذرانہ پیش کیا جو آصف علی زرداری سے لے کر میاں نواز شریف تک، عاصمہ جہانگیر سے لے کر آصفہ، بختاور اور مریم نواز تک، اسفندر یار ولی سے لے کر مولانا فضل الرحمٰن تک، مولانا عبدالعزیز سے لے کر سید منور حسن تک، مولانا طارق جمیل سے لے کر مولانا سمیع الحق تک کوئی بھی نہ پیش کرسکا، ہوسکتا ہے دلوں میں درد کی لہریں اٹھی ہوں، ہوسکتا ہے روحوں میں کرب کے کانٹے چبھے ہوں مگر پلکوں پر ستارے کسی نے نہ دیکھے، کہ بقول ا حمدندیم قاسمی
مجھے تسلیم ہے تم نے محبت مجھ سے کی ہوگی
زمانے نے مگر اظہار کی مہلت نہ دی ہوگی
تاج محمد خوش قسمت ہے کہ ان غلاموں میں شامل ہوگیا جنہوں نے بچوں پر ظلم ہوتا دیکھا اور سنا تو آقائے نامدارؐ کی سنت پر عمل پیراہوئے۔ ایک شقی القلب شخص آپؐ کو روداد سنا رہا تھا کہ کس طرح اس نے اپنی بیٹی کے لئے قبر کھودی، کس طرح بیٹی قبر کھودنے میں اس کی مدد کرتی رہی، کس طرح بیٹی کو قبر میں پھینکا ،کس طرح وہ اس حال میں بھی کہہ رہی تھی کہ بابا جان! کچھ مٹی آپ کے کپڑوں اور داڑھی میں پڑگئی ہے، کس طرح وہ ہاتھ بڑھا کر اس مٹی کو صاف کرتی تھی اور پھر کس طرح اس نے اسے دفن کردیا، تو آپ ؐ کی مبارک آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
شدید غربت اور سخت ضرور ت کے باوجود تاج محمد نے بچوں کی قبریں کھودنے کا معاوضہ نہیں لیا اس کا کہنا تھا’’مجھے یوں لگا جیسے میں اپنے بچوں کو دفنا رہا ہوں، کیا میں اپنے بچوں کی قبروں کا معاوضہ لے سکتا ہوں؟‘‘
اقتدار اور دولت سے محروم تاج محمد نے سانحہ پشاور پر کوئی کمیٹی قائم کی نہConsultationکے دام میں آیا۔ اس نے وہ دو بہترین کام کئے جن کے سامنے تمام دعوے اور تمام وعدے ہیچ ہیں۔ وہ رویا اور اس نے معاوضہ لینے سے انکار کردیا۔
ہماری اتنی قسمت کہاں کہ ہم صبح سویرے شہر کے دروازے پر جمع ہوجائیں اور یہ فیصلہ کریں کہ پہلا شخص جو شہر میں وارد ہوگا، ہمارا بادشاہ ہوگا اور پہلا شخص جو شہر میں وارد ہو، وہ تاج محمد ہو۔ وہ ہمارا حکمران بنے، ہمارے دکھوں پر روئے، ہمارے حال زار پر آنسو بہائے، ہم سے حکمرانی کا معاوضہ نہ لے ،ہم سے ہمارے خرچ پر محلات اور پروٹوکول کی گاڑیاں اور بیرونی دوروں کے لئے جہاز اور تزک و احتشام کے لئے کروڑوں اربوں روپے نہ ہتھیائے۔ ہماری سڑکوں پر روٹ نہ لگوائے،ہمیں نارسائی کے اچھوت فاصلے پر نہ کھڑا کرے لیکن ہماری اتنی قسمت کہاں!ہم تو بس خواب دیکھ سکتے ہیں، ہم تو بس حسرت کرسکتے ہیں کہ کوئی تاج محمد ہمارے مقدر میں ہو!!