• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد شروع ہو گیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہو گیا ہے کہ اگر اس ایکشن پلان سے بھی دہشت گردی کا خاتمہ نہ ہو سکا تو پھر کیا ہو گا اور اس کا ذمہ دار کون ہو گا ؟
پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اس قومی ایکشن پلان کی حمایت کی ہے ۔ اگرچہ 21 ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر کچھ سیاسی و مذہبی جماعتوں اور افراد نے اختلاف رائے کا اظہار کیا ہے لیکن دہشت گردوں کے خلاف بھرپور آپریشن کرنے کی مخالف نہیں ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی اپنی کوئی رائے نہیں ہے اور نہ ہی وہ اپنے کسی موقف پر ’’اسٹینڈ ‘‘ لینے کی پوزیشن میں ہوتی ہیں ۔ اس امر کا ثبوت یہ ہے کہ جو سیاسی جماعتیں طالبان اور دیگر انتہا پسند گروہوں کے ساتھ مذاکرات کی مخالف تھیں ، انہوں نے ایک مرحلے پر مذاکرات کرنے کی حمایت کی تھی ۔ اسی طرح جو مذہبی جماعتیں طالبان اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف آپریشن کرنے کی مخالف تھیں ، وہ آج آپریشن کی حمایت کر رہی ہیں ۔ جب مذاکرات کا فیصلہ ہوا تھا تو کچھ لوگوں نے اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا ۔ بالکل اسی طرح آج کچھ لوگ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے طریقہ کار پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں ۔ سیاسی و مذہبی جماعتیں ان فیصلوں کی صرف توثیق کرتی ہیں ۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو ’’ بنیادی دھارے ‘‘ سے باہر ہو جائیں ۔ آپریشن کی حمایت اور مخالفت کرنے والے دونوں وہی کام کر رہے ہوتے ہیں ، جو انہیں کہا جاتا ہے ۔
اس وقت انتہائی افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں ہے ، جو اپنی بات کرتی ہو ۔ اسے پاکستان کے عوام کی بدقسمتی کا ایک عہد قرار دیا جا سکتا ہے ۔ پاکستان کی سیاسی قوتیں نہ تو اپنے طور پر یہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں کہ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں اور نہ ہی وہ آپریشن کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہیں ۔ اس کے باوجود قومی ایکشن پلان کے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے کی تمام ترذمہ داری ان سیاسی قوتوں پر عائد ہو گی ۔ دہشت گردی کے خلاف آج تک پاکستان میں کوئی آپریشن مکمل طور پر کامیاب قرار نہیں دیا جا سکتا ہے ۔ گزشتہ تین عشروں سے وطن عزیز میں دہشت گردی اور خونریزی ہو رہی ہے ۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی امریکہ کے نائن الیون کے واقعہ کے بعد شروع ہوئی ، وہ حقائق مسخ کر رہے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد دہشت گرد کچھ مخصوص گروہوں کے کھاتے میں ڈالی گئی ہے۔نائن الیون سے پہلے یہ دہشت ’’ نامعلوم ‘‘ تھے ۔ نائن الیون کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ہمیں یہ بتایا کہ دہشت گردی میں فلاں گروہ ملوث ہیں ۔ لہٰذا ہم نے بھی مجبوراً نامعلوم دہشت گردوں کو یہ نام دے دیا اور اس بات سے کوئی انکار بھی نہیں کر سکتا کہ طالبان ، القاعدہ اور دیگر انتہا پسند گروہ دہشت گردی میں ملوث ہیںکیونکہ یہ گروہ خود بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ایسی وارداتیں کرتے ہیں۔ شاید دہشت گردی کرنا اور اسے تسلیم کرنا ان کے فرائض میں شامل ہے ۔ ہمیں دہشت گرد تو معلوم ہو گئے لیکن صورت حال بہت پیچیدہ ہو گئی ۔ نائن الیون سے پہلے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی اس پیچیدہ صورت حال میں مختلف شکلیں اختیار کرتی گئی اور اس دہشت گردی کے پس پردہ مقاصد کے حصول کے لئے ’’ معلوم ‘‘ دہشت گردوں کو پاکستان کے دشمنوں اور نامعلوم دہشت گردوں نے نہ صرف بھرپور طریقے سے استعمال کیا بلکہ صورت حال کا بھرپور طریقے سے فائدہ بھی اٹھایا ۔ قومی ایکشن پلان کی کامیابی کے لئے اس بنیادی بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی نائن الیون کے بعد شروع نہیں ہوئی بلکہ اس سے پہلے ہونے والی دہشت گردی کا تسلسل ہے ۔ اس بات کو بھی سمجھنا ضروری ہے کہ دہشت گردی گزشتہ تین عشروں سے پنپتی رہی اور اسے کچلنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی ۔ جن سیاسی حکومتوں نے اس کے لئے کوشش کی ، انہوں نے اس کا خمیازہ بھگتا ۔
قیام پاکستان سے ہی سیاسی اور جمہوری عمل کو پنپنے نہیں دیا گیا اور سیاسی قوتوں کو کمزور کرنے کے لئے مسلسل کوششیں جاری رہیں ۔ 80 ء کے عشرے میں دہشت گردی نے باقاعدہ طور پر سیاسی قوتوں کی جگہ لینا شروع کی اور سیاسی قوتیں مصلحتاً پسپائی اختیار کرتی گئیں ۔ یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہا اور ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ پاکستان میں یہ فیصلہ بھی انتہا پسند تنظیموں نے کیا کہ ملک میں کس سیاسی جماعت کو ووٹ دیئے جائیں اور کس سیاسی جماعت کو نہ دیئے جائیں ۔ انتخابی عمل سے جمہوری حکومتیں تو قائم ہو گئی ہیں لیکن سیاسی جماعتیں اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتی ہیں کہ معاملات ان کے کنٹرول میں نہیں ہیں ۔ دہشت گردی کے خوف ناک واقعات مسلسل رونما ہوتے رہے اور سیاسی قوتیں مزید کمزور ہوتی رہیں ۔ آج حالات یہ ہیں کہ سیاسی قوتیں کوئی فیصلہ خود کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ اب بھی سیاسی قوتیں حالات کو نہیں سمجھ سکی ہیں تو پھر ان سے یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ معاملات پر کنٹرول حاصل کر سکیں گی ۔ دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان کی ناکامی کی صورت میں سیاسی قوتوں کے کردار کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا ۔ بہتر یہی ہے کہ سیاسی قوتیں تقسیم ہونے کی بجائے یکجہتی کا مظاہرہ کریں اور دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے حقیقی معنوں میں عوام کو متحرک کریں ۔ جمہوری حکومتوں کو اپنی کارکردگی کو بہتر بنانا چاہئے ۔ شفافیت اور میرٹ کا نظام قائم کرنا چاہئے ۔ عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کرنا چاہئیں اور سول فورسز خصوصاً پولیس کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے جدید خطوط پر استوار کرنا چاہئے ۔ پوری قوم کے لئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ناکامی کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن سیاسی قوتوں کے لئے اس جنگ میں کامیابی کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہے کیونکہ سیاسی اور جمہوری عمل کے لئے بہت بڑے خطرات پیدا ہو گئے ہیں ۔
تازہ ترین