• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میڈیا کی ایک خوشگوار خبر نے ہمیں مسرت سے سرشار کردیا ہے ۔بتایا گیا ہے کہ کفار کے بد نام زمانہ شہر بنکاک میں مسلمانوں کے لئے پہلے حلا ل ہوٹل کا افتتاح ہو گیا ہے ۔ اس فور اسٹار ہوٹل کی عمارت ہلال طرز پر بنائی گئی ہے ، جہاں نماز کے لئے دو کمرے مختص کئے گئے ہیں۔ توقع ظاہر کی گئی ہے کہ اس پیش رفت سے سیاحت کے شعبے میں مسلمانوں کی توجہ حاصل کی جا سکے گی ۔ خبر میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس تیس لاکھ سیاحوں نے تھائی لینڈ کا رخ کیا، جن میں مسلمانوں کی تعدا د صرف ساڑھے چھ لاکھ تھی ۔ اھلاً و سہلاً مرحبا ، تھائی حکام کا کہنا ہے کہ ان مسلم سیاحوں کی اکثریت کا تعلق مشرق وسطیٰ سے ہوتا ہے ، جن کی اس تعدادمیں اب اضافے کی قوی امید ہے ۔ اگرچہ خبر میں تو ذکر نہیں لیکن یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہوٹل میں کھانے کے علاوہ بھی ہر چیز حلال ہو گی اور شراب اور لہوولعب جیسی خرافات اور دیگر حرام اشیاء کا وہاں سے گزربھی نہیں کر ہوگا۔
اس سے قبل تھائی لینڈ جانے والے مسلم سیاحوں کو حلال فوڈ ڈھونڈنے کے لئے سڑکیں ماپنا پڑتی تھیں ۔ اس سلسلے میں بحیثیت قوم بڑے حساس واقع ہوئے ہیں۔ وہ کھانے کی حلال اشیاء پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے ، چاہے انہیں بھوکا ہی کیوں نہ سونا پڑے ۔ ہمارا ایک کزن کوریا کی ایک فیکٹری میں ملازم تھا ۔عید کے دن فیکٹری کے کورین مالک نے اپنے مسلم ورکرز کی دعوت کی اور طے پایا کہ وہ شام کو کھانا لے کر فیکٹری کے اندر ورکرز کی رہائش گاہ پر پہنچ جائے گا۔ رات کو وہ بھنا ہوا چکن، ام الخبائث کی بوتلیں اور اپنی گرل فرینڈ لے کر وہاں آ دھمکا۔ یار لوگوں نے بوتلوں کے سلسلے میں تو کافی بے تکلفی برتی مگر ایک دوسرے کو نظروں ہی نظروں میں چکن کھانے سے منع کردیا کہ جھٹکے کا ہے ۔ فیکٹری مالک بڑا کایا ں تھا ، سو کچھ ہی دیر میں سارا معاملہ سمجھ گیا۔ وہ کھانے کا بائیکاٹ کرتے ہوئے گرل فرینڈ کا ہاتھ پکڑ کر کھڑا ہو گیا اور ناراضی سے کہا کہ میں کتنے کلومیٹر کا سفر کر کے تمہارے لئے حلال گوشت بنوا کر لایا تھا مگر تم لوگوں نے اسے بلا تحقیق مسترد کردیا ، جبکہ جو چیز تمہارے لئے کنفرم حرام ہے ، اس پر تم نے خوب ہاتھ صاف کئے ۔ ناہنجار نے جاتے جاتے اپنی فیکٹری کے مسلم ورکرز کی شان میں منافق یا اس مفہوم کے چند الفاظ ادا کر کے ان کے جذبا ت کو شدید ٹھیس پہنچائی اور جہنم میں اپنے درجات مزید بلند کئے ۔
تھائی لینڈ میںاکثر چیزیں اس ناپاک جانور کی چربی میں پکائی جاتی ہے جس کا نام لینے سے چالیس دن تک ایمان نزدیک نہیں آتا۔ اگرچہ اس دارالکفار میں گدھے کا گوشت بکرے کا بتاکر نہیں بیچا جاتا، اینٹیں پیس کر مرچوں میں نہیں ملائی جاتیں ، ہلدی میں کپڑے رنگنے والا رنگ نہیں ڈالا جاتا ، کیمیکل ملا ادرک دستیاب نہیں ، کتوں کی انتڑیوں سے بنا کوکنگ آئل بھی نہیں ملتا، گٹروں اور چھپڑوں کے پانی سے آلودہ دودھ بھی نہیں بکتا،حتیٰ کہ جعلی ادویات تک نہیں بنتیں ۔ تاہم کھانے کے لئے حلال چیز ذرا مشکل ہی سے دستیاب ہوتی ہے ۔ مختلف جگہوں پر ایسے چھوٹے موٹے ریستوران موجود ہیں لیکن سالم حلال ہوٹل کا قیام پہلی دفعہ عمل میں آیا ہے جو کسی نعمت سے کم نہیں ۔
تھائی لینڈخصوصاًبنکاک بے راہ روی اور اخلاقی لغزشوں سے معمور معاشرہ ہے ۔آزادی اور آزاد خیالی کے بپھرے سمندر میں غوطے لگاتے اور حیا سوز انداز میں تھرکتے ، زبردستی کپڑوں میں سمائے جہنمی اجسام میں کردار کا بحران نمایاں ہے ۔ یہ وہ سر زمین ہے جہاں اخلاقی محاسن فنا ہوتے ہیں اور جگہ جگہ ایمان اور اخلاق شدید قسم کے خطرات سے دوچار ہوتے ہیں ۔ ’’مشاق لٹیرے ‘‘ اتنے قرینے اور بے باکی سے ’’تیز اندازی‘‘ کرتے ہیں کہ سرمائے کسی خو د کار طریقے سے لٹنے لگتے ہیں ۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے ،ہم نے بنکاک میں ایسے ایسے ہوشربا مناظر کا تماشا کیا کہ جنہیں دیکھ کر نکاح سلامت نہیں رہتا۔ ایسے مناظر کو احاطہ تحریر میں تو نہیں لایا جا سکتا ، تاہم آپ کی ضیافت طبع کی خاطر ہم نسبتاً ایک ہلکا پھلکا اور بے ضرر سا واقعہ عرض کر دیتے ہیں ۔ ویک اینڈ کی شام اخلاق باختہ مگر سیمیں بدن اور رشک چمن پری پیکروں کا ایک گروہ چھٹی کی خوشی میں اس شان سے نٹ کھٹکیاں کرتا آ رہا تھا کہ گروہ کی سرغنہ حرام مشروب کی بوتل کو ہوا میں اچھالتی اور کوئی دوسری رکن جتھہ اسے کمال مہارت سے کیچ کر لیتی ۔ ہم تا دیربوتل کے گر کر ٹوٹنے کے منتظر رہے مگر افسوس کہ وہ لچ لفنگ لڑکیوں کا ٹولہ تھا ، ہماری کرکٹ ٹیم نہ تھی ، سو تماشا نہ ہوا۔ ایک جگہ بدھ کا بت نصب تھا ۔یہ بت جو بت کے روبر و ہوئے تو قافلہ سالار کی مذہبی عقیدت نے جوش مارا اور اس نے ایک ادائے دلربا کے ساتھ بوتل کو دور فضا میں اچھال کر رخ زیبا بت کی طرف کرلیا۔ پھر اس بت کافر نے کما ل فن سے بوتل کو کیچ کر کے اپنی کمر کو ایک ایمان شکن قسم کا خم دیا اور بوتل ہاتھوں کے درمیان رکھ کر دونوں ہاتھ بدھا کے سامنے جوڑ دیئے ۔ باقی گروہ بھی اس کی تکمیل میں با جماعت یہ عبادت بجا لایا۔ تاہم براہِ کرم یہ نہ سمجھا جائے کہ بنکاک ان سرزمینوں میں سے ہے جو مسافروں کے پائوں پکڑ لیتی ہیںاور آسانی سے واپسی کا رستہ نہیں دیتیں۔ یہاں جب تک بندے کے اقتصادی حالات تسلی بخش ہوں ، اس زمین کی ’’کشش ثقل‘‘ برقرار رہتی ہے لیکن مسافر کی معاشی حالت پتلی ہوتے ہی یہ سر زمین خود اسے واپسی کا راستہ دکھا دیتی ہے ۔
یہی وہ اخلاقی بحران ہے جس کا قریب سے مشاہدہ کرنے کے لئے ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں لوگ سیاحت کے نام پر تھائی لینڈ کا رخ کرتے ہیں ۔ اگرچہ ان میں مسلم سیاح بھی ہوتے ہیں مگر ان کا بنکاک کی بد نام زمانہ لذت پرستی اور عیش کوشی سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا، بلکہ مطمع نظر ان کی اصلاح اور خصوصاً صندلیں بدنوں کو مشرف بہ اسلام کرنا ہوتا ہے ۔ البتہ چونکہ گندم کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے ،لہٰذا نہ چاہتے ہوئے بھی اس اخلاق سوز ماحول میں کبھی کبھار ان سے بھی کوئی لغزش سر زد ہو ہی جاتی ہے ۔ تاہم قوی امید ہے کہ اس حلا ل ہوٹل کے افتتاح کے بعد اب ایسی کوئی مثال سامنے نہیں آئے گی ۔
اب مسلم سیاح دن بھر اصلاح معاشر ہ کے لئے اپنی خداداد صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے اور شام ہوتے ہی ’’اپنے‘‘ ہوٹل پہنچ جائیں گے ، جہاں وہ نماز ادا کریں گے اور حلا ل کھانا کھا کر سو جائیں گے ۔’’ مشاق لٹیرے ‘‘دندان آز تیز کرتے رہ جائیں گے مگر وہاں ان کا داخلہ ممنوع ہوگا۔ انہیں ہمارا حلال فوڈ تو میسر نہ ہوگا البتہ وہ منہ کی کھا کر واپس اپنی کمین گاہوں کو لوٹ جائیں گے ۔ اللہ نے چاہا تو ہوٹل ہذا میں حدود آرڈیننس برانڈ ’’گھر کا ماحول ‘‘ میسر ہوگا اور اس کے درودیوار ایسے کسی واہیات منظر کو ترس جائیں گے کہ ’’ایک ہاتھ میں تسبیح ، دوسرے میں جام‘‘ یا ’’ہاتھ میں جام ، بغل میں نا محرم ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ ہم یہ حلا ل ہوٹل بنانے والے کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جس نے مسلمانوں کا بہت بڑا مسئلہ حل کردیا ہے ۔ ایک دفعہ پھر اھلاً و سہلاً ، مرحبا مرحبا ۔


.
تازہ ترین