کئی ہفتوں سے کچھ نہ لکھ سکا کیونکہ محترم مُنیر نیازی کی پیروی کرتے ہوئے میں بھی حکومت کی طرح ہر کام میں دیر کر دیتا ہوں۔ پشاور اسکول کے سانحے کے بعد اپنی قوم کو کروٹ لیے بغیر نیند سے بیدار ہوتے دیکھ کر نیم بیہوشی سی ہونے لگی۔ سیاسی اور فوجی قیادت کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوتے دیکھا تو اُمید بندھی کہ اِس مرتبہ ہم بھی شاید منزل پر پہنچنے کے لئے خوش بخت ریل میں سوار ہو جائیں گے۔ قیادت کے طویل اجلاس منعقد ہوئے، تیل سے رسیوں کی مالش ہوئی اور موت کے منتظر قیدی پھانسی چڑھا دیئے گئے۔ قومی ایکشن پلان کے تحت متعدد سفارشات مرتب کی گئیں اور فوجی عدالتوں کے قیام پر دس بارہ گھنٹے خوب بحث مباحثہ ہوا اور طے کیا گیا کہ اس عمل کو آئینی تحفظ دینے کے لئے آئین میں اِکیسوِیں ترمیم کی جائے گی۔ اس فیصلے پر وُکلا بَرادری اور کئی دانشوروں نے خاصا شور مچایااور تاثر یہ پھیلا جیسے یہ فوجی عدالتیں سپہ سالار کے ایما پر قائم کی جا رہی ہیں۔ اس کے برعکس تمام سیاسی قائدین نے اپنی اپنی جماعت کے ممبران کو کھینچ کھانچ کر مجوزہ تعداد دونوں ایوانوں میں لاکھڑی کی اور کچھ ہی گھنٹوں میں آئین میں ترمیم دے ماری۔ اجلاس کی کارروائی کچھ یوںتھی کہ حکومتی ممبران نے صُمم بُکم ووٹ ڈالا، اتحادی جماعت نے کچھ چُوںوچرا کی،دوسری بڑی قومی جماعت نے ووٹ تو ڈالا مگر آنسوئوں کے ساتھ ضمیر کا رونا بھی رویا،تیسری قوت رکھنے والی جماعت نے حمایت تو کی مگر ووٹ دھرنے کی نذر کر ڈالا۔ان حالات میں چونکہ مزید دیر نہیں کی جا سکتی تھی اس لئے آج اس موضوع پر کچھ لکھنے کو جی چاہا۔امریکہ میں 9/11 کے بعد صدر کو ایمرجنسی کے نفاذ اور بعد ازاں عراق پر چڑھائی کا اِختیاردینے پر کانگریس میں خوب بحث ہوئی اور اختیار دے دیاگیا۔ اکثریت نے اتفاق کیا مگر اِختلاف بھی نظر آیا لیکن ایسا نہ ہوا کہ کسی رُکن نے ووٹ ڈالا ہو اور بعد میں یہ کہا ہو کہ یہ حرکت اُس کے ضمیر کے خِلاف سرزد ہوئی۔ یہ صرف ہمارے ہاں کی سوغات ہے کیونکہ ہمارے ہاں ممبران کی بجائے فیصلے پارٹی کے قائد کرتے ہیں، جبکہ ارکان بس لبیک کہتے ہیں۔ ہمارے کئی معزز ممبران کا یہ کہنا کہ حمایت ٹیلی فون آنے پر نہیں بلکہ اس لئے کی گئی کہ کوئی یہ نہ کہے کہ ہماری جماعت نے ملک کی تقدیر کے اہم موڑ پر رخنہ ڈالا۔ وزیرِاعظم نے اسمبلی میں تمام معزز ممبران کی حمایت کا شکریہ ادا کیااور اس سنہری دن کو ملک کے لئے مبارک قرار دیا۔ ایسے ہی فراخ دِلی سے ادا کیے ہوئے جملے ہماری جڑوں میں بیٹھے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ 25مارچ1971ء کو جب مشرقی پاکستان میں آپریشن سرچ لائٹ نامی تاریخی کریک ڈائون کا اعلان ہوا تھا، اُسی روز ہمارے ہر دل عزیز قائدعوام نے قوم کو خوشخبری دیتے ہوئے فخریہ انداز میں کہاتھا"مبارک ہو پاکستان بچ گیا!ـ"کچھ ہی ماہ بعد پتا چلا کہ فقط آدھا ہی بچ سکا۔ آج کا پاکستان یقیناً اُنھی کا مرہونِ منت ہے!میرے نزدیک جذبات سے زیادہ ہمیں دور اندیشی اور تدبر کی ضرورت ہے۔ ہم کبھی بھی سیاسی پختگی کے قریب جانے کا تصوّر نہیں کر سکتے جب تک ارکانِ اسمبلی اپنے فہم وفراست اور ضمیر کے مطابق ووٹ نہ دیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ ووٹ اپنے ضمیر کی بجائے اپنے قائد کی گود میں ڈالیں اور پھر کہیں کہ پاکستان کھپے! مشرقی پاکستان میں ہماری سیاسی اور فوجی حکمت عملی کو اکثریت نے سراہا لیکن دو اشخاص جنھوں نے مخالفت کرتے ہوئے استعفٰی دیا وہ جنرل صاحبزادہ یعقوب خان اور ایڈمرل احسن تھے، جنھیں آج بھی اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے۔قارئینِ کرام ! یہ کیسی سیاسی یک جہتی اور یہ کیسا اِتحادہے کہ ایک قومی جماعت اپنے بزرگ قائد کے کہنے پر ضمیر کے خِلاف ووٹ ڈالے اور جب ووٹ ڈل جائے ، دن ڈھل جائے تو اُس کا طفلِ سیاست چیئرمین ناک کٹ جانے کا اعلان کر دے۔ ایسے عمل سے ہمیں یہی سبق مِلتا ہے کہ آئندہ جب بھی ایسی مشکل آن پڑے ممبران ناک پر رومال رکھ کر ووٹ ڈالیں، کیونکہ ضمیر فقط ملامت ہی کرتا ہے کٹتا نہیں۔ ذاتی طور پر میرے لئے بھی چُپ سادھنے میں عافیت ہے مگر میں پھر بھی کہتا چلوں کہ فوجی عدالتوں کا قیام اِس سارے عمل میں ایک جُز کی حیثیت رکھتاہے اِسے کُل سمجھنا محض حماقت ہوگی۔ فوجی عدالتوں کو بنیادی طور پر دہشت گردوں کے ساتھ جلد انصاف کرنا ہے مگر خدا را، ذرا یہ تو سوچئے کہ اِن کی نشاندہی کس نے کرنی ہے؟ان کو گرفت میں کس نے لانا ہے ؟ اِن کا استغاثہ کون پیش کرے گا؟ اور اگر یہ سب کچھ فوج ہی کو کرنا ہے توپھر باقی سب موج کریں!اس سارے تجزیہ میں، آپ اور میں غلط ہو سکتے ہیں اوریہ بھی ہو سکتا ہے کہ آنے والی تاریخ ثابت کرے کہ طفلِ مکتب کی سوچ ہم سب بزرگوں سے بہتر ثابت ہو!آخر میں سید ضمیر جعفری کا لِکھا ہوا انتباہ پیش ِخدمت ہے-:
لوگو سُن لو!
سوئے ،کھوئے ،روئے لوگو
اِس پاگل سفاک سمے میں
ساری دنیا
ہاتھ میں ڈال کے ہاتھ چلے
ساری دنیا کو اِک فرد بھی غارت کر سکتا ہے آج
جَگ کو جُگ جُگ رکھنا ہے تو مِل کر سارے ساتھ چلو
ہاتھ میں ڈال کے ہاتھ چلو