• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئی بھی انتہا پسندی یا تنگ نظری چاہے وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی کسی بھی معاشرے میں عدم برداشت کی سب سے بڑی وجہ ہوتی ہے۔ جو معاشرے کے امن و سکون اور ترقی کو غارت کر دیتی ہے۔کیونکہ برداشت کسی بھی معاشرے کا وہ ستون ہوتا ہے جس پر اس کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ قدرت کے نظام میں بھی ہمیں ہر جگہ بقائے باہمی کے لئے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا عمل دکھائی دیتا ہے۔نظام ِ شمسی میں بھی ہر سیارہ اپنی اور دوسرے سیاروں کی مرکز گریز اور مرکز مائل کشش کیوجہ سے ہی اپنے اپنے مدار میں حرکت کرتا ہے اور دوسرے سیاروں سے ٹکرانے سے محفوظ رہتا ہے تاکہ نظام ِ کائنات عالمِ بقا میں رہے۔ اگریہ مرکز مائل اورمرکز گریزقوتیں درہم برہم ہوجائیں تو اس کائنات کا وجود باقی نہیں رہ سکتا سورہ یٰسین میں ارشادِ خداوندی ہے ’’ نہ تو سورج ہی سے ہو سکتا ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے آسکتی ہے اور سب اپنے اپنے دائرے میں تیر رہے ہیں‘‘(40)۔ گویا اعتدال ، توازن اور باہمی برداشت کا عمل ہی کسی سوسائٹی کی بقا کا ضامن بن سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوںکو بار بار اعتدال پر کاربند رہنے اورانتہا پسندی سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔تنگ نظری ہی انتہا پسندی کو جنم دیتی ہے جو بالآخر معاشرے میں اعتدال اور توازن کو ختم کر کے فساد کا باعث بنتی ہے۔ علم نفسیات کی رو سے تنگ نظری کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ اوّل کم علمی اور دوم کم علمی کے باوجود احساسِ برتری یعنی جب انسان ہمہ گیر علم حاصل کرنے کی جستجو چھوڑ دیتا ہےاور جو کچھ تھوڑا بہت ، صحیح یا غلط جانتا ہے اس کی بنیاد پر احساس ِ برتری میں مبتلا ہو جاتاہے تو وہ دوسرے انسانوں کو کم تر سمجھتے ہوئے اُن سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ حالانکہ تمام انسان ایک ہی خدا کی مخلوق ہیں جو اپنی تخلیق سے بے پناہ محبت کرتا ہے دنیا کے تمام مذاہب کے انتہا پسند افراد کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے سِوا دوسروں کوبے دین قرار دیتے ہیں۔ یہ انسانی المیہ اُس وقت اور شدّت اختیار کر لیتا ہے جب کسی ایک ہی مذہب کے مختلف مسالک بھی ایک دوسرے کو اپنے اپنے دین سے خارج کر کے معاشرے میں نفرت اور جدال کا ماحول پیدا کر دیتے ہیں۔ چنانچہ ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ ہندوئوں جیسے قدیم مذہب سے لیکر سکھّوں جیسے جدید ترین مذہب کے انتہا پسند افراد برہمن و شودر اور کیس دھاری وغیرکیس دھاری سکھّوں کے درمیان تنازعات اور فرقہ وارانہ قتل و غارت میں سرگرم رہے ہیں۔ بدھ مت کے ماننے والوں ، یہودیوں ، عیسائیوں اور مسلمانوں کے انتہا پسندوں کا بھی یہی وطیرہ رہاہے۔ جو مذہبی بقا اور حرمت کے نام پر نہ صرف دیگر مذاہب بلکہ اپنے ہی مذہب کے ماننے والوں کے خلاف بھی عدم برداشت کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔’’انسان کی کہانی‘‘ کے مصنف نیڈرک وان لون اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ’’ آج سے ایک ہزار سال پہلے عیسائی پادری اگر کسی کی داڑھ میں درد ہوتا تو اس پر منتر پڑھ کر پھونکتے اور طبیب اور اسکی و طبابت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے کیونکہ اس وقت علم اور حکمت بے دینوں یعنی مسلمانوں سے آئی تھی اس لئے اس سے کوئی فائدہ نہ ہو سکتا تھا اور اس پر یقین کرنا کفر تھا‘‘
اس تنگ نظری کی بڑی وجہ اس وقت بھی اور آج بھی چند مذہبی اصطلاحات کی غلط تشریح ہے۔ہر مذہب کے انتہا پسند افراد علاوہ ہردوسرے مذہب والے کو بے دین ، کافر، گمراہ یا ملحد قرار دے دیتے ہیں اور نجات کے لئے اُن کی واحد شرط یہ ہوتی ہے کہ پہلے وہ شخص اُس مذہب میں با ضابطہ طور پر داخل ہو۔جیسے بدھ مت اور ہندومت کے انتہا پسندوں کا عقیدہ ہے کہ مہاتما بدھ اور رام چندر جی نے جو شاہی گھرانے کے افراد تھے محض اس لئے بن باس کاٹا کہ ان کے ماننے والوں کو دنیا اور آخرت میں نجات حاصل ہو سکے،عیسائیت کے انتہا پسند مبلغ کہتے ہیں کہ یسوع مسیح نے ہمارے گناہوں کا کفّارہ ادا کرنے کے لئے صلیب پر اپنی جان قربان کی اور حضرت عیسٰی کو مصلوب کرنے والے یہودی انتہا پسند فریسیوں نے انہیں اس لئے مصلوب کرا دیا کہ اُن کے نزدیک صرف حضرت موسیٰؑ ہی نجات دہندہ تھے جنہوں نے بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلائی تھی۔سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ تمام انتہا پسند جو نجات کے تصّور کو محض اپنے مذہب میں باضابطہ شمولیت کے ساتھ منسلک کرتے ہیں ۔ اُن کے نزدیک عمل کی کوئی حیثیت نہیں جو کامیابی کی بنیادی کلید ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ ثانوی بات ہے نجات کیلئے ضروری کہ پہلے ان کے مذہب کا زبانی یا ظاہری اظہار کیا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ خالقِ کائنات نے جو کہ تمام کائنات اور مذاہب کا منبع ہے ۔ اپنے نظامِ کو چلانے کے لئے کچھ اصول و ضوابط وضع کئے ہیں۔ جنہیں آجکل ہم آفاقی سچائیوں کے نام سے جانتے ہیں۔ جنکی صداقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا اور جن کا پرچار تمام مذاہب کرتے ہیں اور جو آج کل اقوامِ متحدہ کا چارٹر بھی ہے ان میں دوسرے انسانوں سے محبت کرنا، انہیں سماجی اور معاشی انصاف مہّیا کرنا ، سچ بولنا ، پورا تولنا، کسی کا حق نہ مارنا، دوسروں کے لئے جذبہ ء ایثار وقربانی رکھنا، معاف کرنا، انسانی معاشرے کو بیماریوں اور قدرتی آفات سے محفوظ رکھنے کی کوششیں کرنا اور علم کے ذریعے قدرت کے پوشیدہ خزانوں اور طاقتوں کو انسانی مفادات کے لئے ڈھونڈھنا غرض ہر وہ چیز اور عمل جو انسانی مفاد میں ہو اسے کرنا اور کرنے کی تلقین یا تبلیغ کرنا شامل ہے۔یہاں تک کہ تمام مذاہب میں عبادات کا انتہائی مقصود بھی انسانوں کی اجتماعی فلاح و بہبود ہی ہے۔جیسا کہ مسلمانوں میں حج نماز ، روزے اور زکوٰۃ کی دائیگی کی تلقین بھی انسانی معاشرے کے معاشی اور سماجی مسائل کو حل کرنے کا درس دیتی ہے۔ اس کے لئے شرطِ اوّل عمل ہے۔ ۔ جہاں تک جنّت اور دوزخ میں جانے کا سوال ہے تو اس کو بھی عمل کے ساتھ منسلک کردیا گیا ہے۔ گویا اصل مسلم وہ ہے جو اچھے اعمال کرتا ہے ۔ جہاں تک کفر کا تعلق ہے توجو حقائق کو چھپائے گا یا خدائی اصولوں کو جنہیں ہم آفاقی سچائیاں بھی کہہ سکتے ہیں کو جھٹلائے گا وہ کافر ہوگا۔ اور سزا کا مستحق ٹھہرے گا۔ ان خدائی احکامات کی روشنی میں اسلام ، کفر اور جنّت کے حقدار کی تشریح میں اچھے یا نیک اعمال کا بنیادی تصّور پیش کیا گیا ہے کیونکہ تمام انسان خدا کو پیارے ہیں ۔ اگر ہم اپنے اپنے مذاہب کی تعلیمات کو خدائی نقطہ ٔ نظر سے سمجھنے کی کوشش کریں تو ہمارے سارے تصّورات ہی بدل جاتے ہیں اور ہم مذہب کے نام پر نفرت یا جنگ و جدل کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتے۔
تازہ ترین