سیاست اور ریاست میں دین کا کردار ایک ایسا موضوع ہے جو دور حاضر میں بدقسمتی سے افراط و تفریط اور دو طرفہ شدت پسندی کا شکار ہے۔ ایک طرف وہ مذہبی طبقہ ہے جس کی ذہنی پرورش اور بلوغت ایسے تنگ نظر مذہبی ماحول میں ہوئی ہے جہاں دنیوی علوم اور عصر حاضر کے مسائل شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مزید برآں مذکورہ مذہبی ماحول میں تدریس کا مرکزی نقطہ اسلام کم اور اپنے مسلک کی حقانیت اور دوسرے مسلک کی گمراہی و ضلالت زیادہ رہتا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ اس مذہبی طبقہ کو گزشتہ چار دہائیوں سے عالمی طاقتوں اور ملکی اداروں نے بالترتیب اپنی عالمی سرد جنگ اور سٹرٹیجک مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ دوسری طرف وہ جدت پسند طبقہ فکر ہے جس کی نظر میں اہل مذہب کی تنگ نظری، کردار کی عدم پختگی، ان کے ہاں مسائل جدیدہ سے عدم آگہی اور اکیسویں صدی کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کی عدم صلاحیت واضح تھی۔ اس طبقہ نے مغرب میں مذہب کو ریاست و سیاست سے الگ کرنے کے انقلابی نتائج و ترقی کا واضح مشاہدہ یا مطالعہ کیا تھا۔ لہٰذاوہ اس بات کا داعی بن گیا کہ اسلام یا اہل مذہب کا ریاست و سیاست سے کوئی تعلق و واسطہ نہیں ہونا چاہیے۔ مذہب صرف فرد کے پروردگار سے تعلق سے عبارت ہے اس دائرہ سے باہر مذہب کا کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے۔ ان دو انتہائی افکار کے درمیان عامۃ الناس کی اکثریت ہے جو confused ہے اور وہ کسی نہ کسی طرح دونوں انتہائوں میں سے کسی ایک طرف راغب نظر آتے ہیں۔
اس تناظر میں ایک اور حقیقت جس کو سمجھنا ضروری ہے کہ اسلام کا تصور ریاست و سیاست پاپائیت (theocracy) سے مکمل طور پر پاک ہے۔ انسانی زندگی کا مذہبی پہلو اس کے دیگر بہت سے پہلووں میں سے ایک ہے۔ اسلام اور سیرت مصطفیٰﷺ نے زندگی کے ہر پہلو کو develop کرنے کے لیے رہنمائی ہی نہیں دی بلکہ زندگی کے ہر گوشے و پہلو کے حوالے سے بہترین شخصی نمونے بھی پیدا کئے ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں صحابہ کرامؓ کو ذمہ داریاں سورۃ النساء کی آیت نمبر ۵۸ کے حکم الٰہی کے تحت اُن کی صلاحیت، قابلیت، طبعی رجحان اور تخصص (specialization) کے بنیاد پر دی گئیں۔ اسلام میں سرکاری عہدہ تفویض کرنے سے قبل مطلوبہ شرائط و اہلیت کا کس حد تک التزام کیا جاتا ہے، اس کا اندازہ حضرت ابو ذر غفاری ؓ جیسے زہد و ورع کے پیکر، تقوی و طہارت کے مظہر اور اسلام کی مذہبی تعلیمات کے نمونہ احسن سے مروی اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے خود بارگاہِ رسالت مآب ا میں عرض کیا: ’یا رسول اﷲ! کیا آپ مجھے عامل نہیں بنائیں گے؟‘ اس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’اے ابوذر! تم کمزور ہو! اور یہ امارت امانت ہے اور یہ قیامت کے دن رسوائی اور شرمندگی کا باعث ہوگی، البتہ جو امارت کے حقوق ادا کرے اور اس کی ذمہ داریاں پوری کرے (وہ مستثنیٰ ہوگا)۔(صحیح مسلم1457:3، رقم1825:)
حضور نبی اکرم ﷺ کا یہ جواب اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اسلام کے تصورِ سیاست میں محض عبادت و ریاضت اور زہد و ورع اِستحقاقِ اَمارت اور حصولِ سلطنت و اقتدار کی دلیل نہیں بلکہ اس کے لیے مطلوبہ تقاضے پورے کرنا ہوں گے ۔اب تک کی بحث سے یہ امر واضح کرنا مقصود تھا کہ دین اسلام کا مذہبی پہلو ریاستی و سیاسی معاملات سے آزاد ایک الگ subject ہے۔ اہل مذہب کی اُمور سیاست میں شرکت پر نہ پابندی ہے اور نہ ہی یہ لازمی ہے۔ چودہ سو سالہ تاریخ اسلام سے واضح ہوتا ہے کہ کبار اَئمہ و اَسلاف نے عموماً سیاسی و ریاستی معاملات سے الگ تھلگ رہ کر ہی مذہب کی خدمت کی اور اہل مذہب کے لیے یہی اسوہ بہترین راستہ ہے، لیکن اس کےیہ معنی لے لینا کہ دین اسلام ریاستی و سیاسی معاملات میں کوئی رہنمائی نہیں دیتا یا ریاست و سیاست کے باب میں اسلام کا کوئی تعلق و واسطہ نہیں دوسری انتہا اور اسلامی تعلیمات سے عدم واقفیت ہے۔ اسلام کے سیاسی و ریاستی احکام و ہدایات کے حوالے سے اہم مسئلہ ’تصورِ قومیت‘ ہے۔ یہ تصور بھی علمی زوال و انحطاط کے دور میں التباس کا شکار ہے۔ اسلام یقیناً ریاستی و سیاسی امور میں دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو برابر شہری کی حیثیت دیتا ہے بلکہ میثاق مدینہ میں حضور اکرم ﷺ نے یہود و نصاریٰ اور مسلمانوں کے لیے ریاستِ مدینہ کے تناظر میں ’ملۃ واحدہ‘ یعنی ایک قوم کا عنوان دیا۔ لہٰذا اسلامی تعلیمات کے مطابق کسی خاص جغرافیائی اکائی کے لوگ مل کر اسلامی اصولوں کے مطابق ریاستی نظم و نسق قائم کر کے کسی عمرانی و آئینی دستاویز پر متفق ہوجائیں تو اس ریاست کے تمام شہری بلا تفریق مذہب و نسل ایک قوم تشکیل دیتے ہیں۔ لیکن اس جغرافیائی یا ریاستی قومیت کے جواز کا یہ معنی نہیں کہ پوری دنیا میں رہنے والے مسلمان ایک قوم نہیں ہیں۔ مسلم قومیت کا مکمل انکار قرآن حدیث کے واضح احکامات سے صرف نظر کرنا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں مسلمانوں کے ’اُمّۃ واحدہ‘ اور ’خیر اُمۃ‘ کے الفاظ کے ذریعے مسلمانوں کو ایک ملت و قوم قرار دیا ہے جو آپس میں انّما المؤمنون إخوۃ کے تحت رشتہ مواخات میں جڑے ہوئے ہیں۔ لہٰذا اسلام کا یہ تقاضا ہے کہ افراد معاشرہ مل کر ریاست قائم کریں، اس کا آئین و دستور اسلام اصولوں کی بنیاد پر تشکیل دیا جائے، ریاست اپنے بنیادی فرائض ادا کرنے کے لیے جمہوری انداز میں حکمران منتخب کرے، حکومتی امور مشاورت کے بنیاد پر طے کیے جائیں اور حکومتی عہدیداران بنیادی ذمہ داریاں ادا کریں۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسلام ایک ریاست کے مختلف اداروں کے لیے قوانین اور بنیادی اصول بھی بیان کرتا ہے۔ انہیں اصولوں کی روشنی میں اسلام ریاست کیلئے نظامِ قضا (judicial system) کا قیام چاہتا ہے جو حکومتی اثر و رسوخ سے بالکل آزاد، شہریوں کو عدل و انصاف کی فراہمی اور صرف قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کی ذمہ دار ہو۔ نظام قانون اُس الوہی ہدایت کی روشنی میں تشکیل دیا جانا لازمی ہے جن کو قرآن، حضور اکرم ﷺ کی سنت و سیرت اور خلفاء راشدینؓ نے قائم کیا۔ البتہ اس کا ڈھانچہ و تفاصیل ہر دور میں وقت اور معاشرے کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اہل شوری (پارلیمنٹ) کی ذمہ داری لگائی گئی ہے۔
اسلام ریاست کے باسیوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کا انتخاب کریں اور اس کے لیے نظام انتخابات کا شفاف، مساوات اور برابر مواقع پر مشتمل ہونا اور اہل اقتدار مطلوبہ معیار کے مطابق ہوں۔ اگر ریاست کا نظام ایسا نہیں تو نظام کی اصلاح کے لیے پر امن غیر مسلح جدوجہد بھی افرادِ معاشرے کے فرائض میں سے ہے۔ ریاست کی جغرافیائی حدود کے تحفظ اورکسی بھی جارحیت کے خلاف اسلام جہاد بالقتال یعنی جنگ کی اجازت بھی صرف اسلامی ریاست کو دیتا ہے۔ اور اس کے لیے کڑی شرائط قائم کرتا ہے تاکہ کوئی ریاست اپنے سے بہت بڑی طاقت اور مضبوط دشمن سے جنگ کر کے اپنے ہی شہریوں کے جان و مال کو تباہ کرنے کا باعث نہ بن جائے۔