• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارا کل خوبصورت ہو گا۔۔امن کی جانب کٹھن لیکن پر عزم سفر کا آغاز ہو چکا ہے۔اس سال کے اوائل میں امن کے قیام کے لیے مختلف زاویوں پر کئے جانے والے اقداما ت کے ثمرات سامنے آنے لگے ہیں۔کراچی، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے علاوہ ملک کے تمام متاثرہ علاقوں سے آنے والی خبریں خوش کن اور امید افزا ہیں جو اچھے دنوں کی نوید ہیں۔
حکومت کی جانب سے دہشت گردی کے بعد فرقہ واریت کے خلاف اعلان جنگ امن کے قیام کے لئے حکومت کی سنجیدگی کا پتہ دیتی ہے۔لیکن فرقہ واریت کے خلاف تنہا جنگ لڑنا قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت کے لئے ممکن نہیں ہو سکتا کیونکہ فرقہ وارانہ نفرت گلی کوچوں اور محلوں تک پھیلی ہوئی ہے اور ممکن ہے اس کی تپش ہمارے گھروں کے اندر بھی محسوس کی جاسکے۔اس کی کامیابی کے لئے منافرت پھیلانے والے اندرونی مفاد پرست عناصر کے علاوہ ہماری مذہبی تقسیم سے فائدہ اٹھانے والی سرحد پار قوتوں کا قلعہ قمع کرنے کے ساتھ ساتھ اس منافرت کی شکار عوام کے ذہنوں کی تطہیر ضروری عمل ہو گا۔اگرچہ یہ ایک طویل اور دشوار مشق ہے لیکن اس عمل کے بغیر مکمل امن کا قیام ممکن نہیں ہو گا۔حکومت نے فرقہ واریت پھیلانے والوں کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔جس کے تحت کسی کلمہ گو کو کافر قرار دینے والے انتہائی سزا کے مستحق ہوں گے۔اس کے لئے قانون سازی تجویز کی گئی ہے۔وفاقی وزیر داخلہ کا اس بارے میں خیال ہے کہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر کی جانے والی دہشت گردی اور معصوم لوگوں کے قتل عام کے خاتمے کے بغیر امن کا قیام ممکن نہیں۔بھارت ہماری ان کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے ہی گمراہ لوگوں کے ذریعے ہمارے ملک میں قتل وغارتگری میں ملوث پایا گیا ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کے خلاف بھی ضرب عضب کے انداز میں بھرپور آپریشن ہونا چاہیے لیکن یہ آپریشن سرحدوں یا پہاڑوں میں نہیں بلکہ گلی کوچوں اور گھروں میں بھی ہوسکتا ہے۔جس کی کامیابی کے لئے ٹارگٹڈ اورIntellence based operationsکا فیصلہ کیا گیا ہے۔جس کے لئے ماضی کی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے انٹیلی جینس بیورو کو جامع ذمہ داریاں سونپی جائیں گی۔
اسلحہ کی نمائش پر پابندی کا فیصلہ نیشنل سیکورٹی پلان کا دوسرا بڑا فیصلہ ہے جس کے تحت شہروں کو مرحلہ وار اسلحہ سے پاک کیا جائے گا۔ایک مربوط نظام کے تحت صرف قانون نافذ کرنے والے ادارے اور آرمڈ فورسز ہی اسلحہ رکھنے اور استعمال کرنے کی مجاز ہوں گی۔اسلحہ لائسنسوں کے اجرا کو انتہائی محدود کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے کیونکہ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ سیکورٹی کمپنیاں اور بااثر افراد ایک ایک لائسنس پر دس دس ہتھیار حاصل کر لیتے ہیں جو ہتھیاروں کے پھیلائو کو روکنے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے شورش زدہ بلوچستان میں امن کے آثار نمایاں ہیں۔جو موجودہ سیکورٹی سیٹ اور سیاسی حکومت کی بڑی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔فراری مسلسل ہتھیار ڈال کر قانون کی حکمرانی تسلیم کرنے پر آمادہ ہوگئے ہیں۔ہتھیار ڈالنے کے عمل سے قانون کی حکمرانی مضبوط اور فراریوں کے حوصلے پست ہو رہے ہیں۔بیرون ملک پناہ لینے والے باغی تنظیموں کے قائدین حکومت کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی ظاہر کر رہے ہیں۔جس کے نتیجے میں ملک سے محبت کرنے والے بلوچ پر امید دکھائی دیتے ہیں۔
اکبر بگٹی قتل کے بعد شروع ہونے والا شورش 2012/2013تک اپنے عروج پر رہا اور مٹھی بھر باغیوں نے بلوچستان کے طول و عرض میں قانون اپنے ہاتھ میں رکھا۔ٹارگٹ کلنگ ، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری عام تھی۔ٹارگٹ کیے جانے والوں میں اکثریت اساتذہ اور ڈاکٹرز کی تھی۔یہ مٹھی بھر لوگ بھارت اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیوں کے اشاروں پر ناچتے رہے۔2013کے بعد امن قائم کرنے والے اداروں نے کوششوں کا آغاز کیا۔سدرن کمانڈ کے ساتھ فرنٹیئر کانسٹیبلری نے انٹیلی جینس ایجنسیوں کی مدد سے بلوچستان میں شورش پھیلانے والوں کے خلاف محدود اور محتاط کارروائیاں شروع کیں۔دوسری طرف حکومت نے بلوچ نوجوانوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فوج میںملازمتیں اختیار کرنے پر آمادہ کیا۔اور دو سال کے قلیل عرصے میں ہزاروں نوجوانوں کو ان اہم قومی اداروں میں شامل کیا جس کے نتیجے میں ان میں پاکستانیت اجاگر ہوئی۔باغی تنظیموں کے جھنڈوں کی جگہ پاکستان کے پر چم لہرانے لگے۔
بلوچستان میں تین باغی تنظیمیں سر گرم عمل رہیں۔بلوچستان لبریشن فرنٹ (BLF)ڈاکٹر اللہ نذر کی سربراہی میں، بلوچ ریپبلک آرمی(BRA)براہمداغ بگٹی اور بلوچستان لبریشن آرمی (BLA)خیر بخش مری کے بیٹے ہربیار مری کی قیادت میں پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرتے رہے۔پنجگور، تربت اور اواران ان کی کارروائیوں کے مراکز رہے۔2010تک ان کی پاکستان کے خلاف کارروائیاں عروج پر رہیں۔لیکن رفتہ رفتہ جب ان کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا تو ان کی قیادت ملک سے فرار ہوگئی اور ان کے کارندوں نے پہاڑوں میں پناہ لے لی اور ان کے حملوں میں کمی واقع ہوگئی۔
اس مہم میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کے Special operation unitکے تربیت یافتہ کمانڈوز نے سدرن کمانڈ کے ساتھ مل کر پاکستان دشمنوں کے خلاف موثر کارروائیاں کیں اور مٹھی بھر باغیوں کو تتر بتر کر دیا۔قانون نافذ کرنے والے ادار وں کا کہنا ہے ان تینوں باغی تنظیموں کے کارندوں کی کل تعداد 1500سے زیادہ نہیں ہے جبکہ 600سے زائد نے قانون کی بالا دستی تسلیم کرتے ہوئے قانون کے آگے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔باقی ماندہ ہتھیار ڈالنے کے لیے اپنی قیادت کے اشارے کے منتظر ہیں۔ان حلقوں کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ ایک دہائی سے جاری لا قانونیت کے مقابلے میں حالات پر 70فیصد سے زائد قابو پایا جا چکا ہے۔باقی 30فیصد باغی افغان بارڈر کے پہاڑی سلسلے میں چھپے ہوئے ہیں لیکن وہ بھی ہتھیارڈالنے پر آمادہ ہیں۔یہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جینس ایجنسیوں کا خدشہ ہے کہ بھارت ان بچے کچھے باغیوں کے ذریعے پاک چین تجارتی روٹ پر حملوں کا سلسلہ تیز کر سکتا ہے۔لیکن اس کے سدباب کے لیے سخت ترین اقدامات کئے جارہے ہیں۔ان حالات میں BRAکے فراری سربراہ براہمداغ بگٹی کی جانب سے مذاکرات کا عندیہ بھارتی منصوبوں کو خاک میں ملانے کے لیے کافی ہے۔کہا جاتا ہے کہ بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بھی حکومت کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہو جائیں گے۔ڈاکٹر اللہ نذر جو پاکستان میں ہی افغان بارڈر پر کسی پہاڑی سلسلے میں روپوش ہے ، باغی رجحان رکھنے والوں میں زیادہ مقبول ہے کیونکہ یہ ایک عام آدمی ہے، سردار یا وڈیرا نہیں ہے۔توقع ہے کہ ڈاکٹر اللہ نذر کی مذاکرات پر آمادگی بلوچستان میں مکمل امن کی نوید ہوگی۔
تازہ ترین