دوستو عزت اور شہرت میں زمین آسمان کا فرق حائل ہے اور شہرت وہی اچھی اور خوشی نصیبی کی علامت سمجھی جاتی ہے جس کے سوتے عزت سے پھوٹیں، پھر عزت کمانے کے لئے مشہور یا شہرت یافتہ ہونا بھی ضروری نہیں، کیونکہ شہرت اور عزت مقدر کے دو الگ الگ خانے ہیں۔ مشہور اور شہرت یافتہ تو استاد امام دین بھی ہیں، لیکن عزت علامہ اقبال جیسے شعراء کے حصے میں آئی۔ یہی وہ عزت ہے جو مستقل شہرت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ہر شہرت یافتہ شخص باعزت نہیں ہوتا اور ہر باعزت شخص شہرت یافتہ نہیں ہوتا، اس لئے مجھے ان دوستوں پر حیرت ہوتی ہے جو اس لئے شہرت کے پیچھے بھاگتے ہیں کہ اس سے عزت ملتی ہے۔ میں شاید اس موضوع پر لکھنے کی ضرورت نہ سمجھتا لیکن چند روز قبل میں نے ایک دوست کو مغموم پایا۔ وجہ پوچھی تو راز کھلا کہ وہ خود کو شہرت یافتہ بھی سمجھتے ہیں اور باعزت بھی لیکن انہیں غم اس بات کا ہے کہ وہ سرکاری تقریبات اور حکمرانوں کی محفلوں میں بلائے نہیں جاتے۔ مجھے بہرحال ان حضرات سے ہمدردی ہوتی ہے جو سرکاری تقریبات میں بلائے نہ جانے پر مغموم ہو جاتے ہیں، حالانکہ اس سے نہ صرف ان کی شہرت کو کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ ہی ان کی عزت متاثر ہوتی ہے۔
شاید زندگی کے فلسفے، بے ثباتی اور انجام پر نظر رکھی جائے تو انسان ایسے سطحی جذبوں اور وقتی غموں سے نجات حاصل کر لیتا ہے۔ ہر دور اور ہر معاشرے میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگ کسی نہ کسی وجہ سے شہرت یافتہ بھی رہے ہیں اور عزت یافتہ بھی، لیکن آج بے رحم وقت کے ہاتھوں ان کا نام و نشان یعنی نام اور نشان دونوں مٹ چکے ہیں۔ مطلب یہ کہ آج ان کا کوئی نام بھی نہیں جانتا۔ تاریخ اور زندگی میں صرف وہ لوگ زندہ رہے اور باعزت ٹھہرے جن کے کارنامے اس قابل تھے کہ انسانی حافظہ اور تاریخ انہیں یاد رکھتی۔ گویا انسان شہرت اور عزت اپنے کام اور کارنامے سے کماتا ہے اور جو کارنامے کسی بھی حوالے سے صدقہ جاریہ ہوں وہ جاری و ساری رہتے ہیں اور تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ایسے کارناموں میں سیاسی، سائنسی، معاشرتی، خدمتی، ادبی وغیرہ وغیرہ ہر قسم کے کارنامے شامل ہیں لیکن ان سب کی بنیاد جذبہ خدمت پر ہوتی ہے اور خدمت ہی کے سبب کوئی کارنامہ صدقہ جاریہ بنتا ہے اور مستقل جگہ پاتا ہے۔ کارنامے بڑے اور چھوٹے ہوسکتے ہیں، ان کی نوعیت مختلف ہوسکتی ہے، لیکن بنیاد خدمت اور پائیداری ہونی چاہئے۔ ہوسکتا ہے آپ میرا مفہوم نہ سمجھے ہوں اور یہ بھی ہوسکتاہے کہ آپ کارناموں کی اقسام پر حیرت کا شکار ہوں، اس لئے وضاحت لازم ہے۔ سیاسی کارناموں کے حوالے سے اگر قائداعظم اور علامہ اقبال کا زندہ حصہ ہے تو تعلیمی اور معاشرتی حوالے سے سرسید اور علی گڑھ تاریخ کے زندہ کردار ہیں۔ شاعری کے حوالے سے اگر غالب و اقبال کا نام زندہ ہے اور باعزت ہے تو ادبی حوالے سے پطرس، مشتاق یوسفی مزاحیہ اور ادب کے صدقہ جاریہ ہیں، افسانے کی سلطنت اور صوفیانہ اظہار کے حوالے سے اگر اشفاق احمد ایک زندہ استعارہ بن چکے ہیں تو احمد ندیم قاسمی اور فیض بھی ادب کی سلطنت کے تخت نشینوں میںشامل ہیں۔ سائنسی خدمات کے حوالے سے اگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان زندہ نام ہیں تو انسانی خدمت کے حوالے سے ایدھی تاریخ میں جگہ پا چکے ہیں۔ بات کو اختصار کے سانچے میں ڈھالتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ہر دور میں ہر زمانے میں لوگ مشہور بھی ہوتے ہیں لیکن یہ شہرت انتہائی وقتی ہوتی ہے، جسے پبلسٹی کے ہتھکنڈے استعمال کر کے حاصل کیا جاتا ہے۔ اپنی اپنی قدر وقیمت کے حساب سے ایسے شہرت یافتہ کرداروں کو تھوڑی بہت عزت بھی ملتی ہے لیکن یہ شہرت اور عزت ہوا کے جھونکے کے مانند ہوتی ہے، بس تھوڑی دیر کے لئے ٹھنڈک، راحت اور آسودگی دے کر غائب ہو جاتی ہے۔ آنکھیں بند ہونے کے بعد تو نام و نشان دونوں مٹ جاتے ہیں۔ عقل مند اور دنیاداری کے ماہرین اس وقتی شہرت سے خوب فائدہ اٹھاتے اور حسرتیں آرزوئیں پوری کرتے ہیں لیکن یہ سب کچھ وقت کے بہائو میں بہہ کر زندگی کے سمندر میں گم ہو جاتا ہے۔ زندہ شہرت اور عزت صدقہ جاریہ ہوتی ہیں اور اس کی بنیاد بھی ایسے کارناموں پر ہوتی ہے جو مستقل نوعیت رکھتے ہوں اور جن سے اولاد آدم یا قوم کسی نہ کسی حوالے سے فیض یاب ہوتی ہو۔ جتنا بڑا کارنامہ ہوگا جتنا وسیع اس کا فیض ہوگا اسی قدر وسیع عزت و شہرت ہوتی ہے اور اسی قدر اس کی پائیداری ہوتی ہے۔
یہ بھی ایک قابل غور پہلو ہے کہ کیا شہرت ہمیشہ عزت لاتی ہے؟ شہرت اور عزت کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ جو لوگ عزت کمانے کے لئے شہرت کے پیچھے بھاگتے ہیں کیا وہ کامیاب ہوتے ہیں؟ انسانی زندگی کا مطالعہ یہ حقیقت واضح کردیتا ہے کہ شہرت اور عزت کا آپس میں کوئی خاص رشتہ نہیں۔ ایک عزت کسی کے خوف، مرتبے، ایذا رسانی کی صلاحیت، دولت کی چمک اور حکمرانوں کے دربار سے وابستگی سے ملتی ہے، لیکن یاد رکھیے ایسی عزت مصنوعی ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ نہ دل سے نکلتی اور نہ ہی دل میں جگہ پاتی ہے۔ وہ وقتی مفادات یا وقت کے تقاضوں سے جنم لیتی ہے اور حالات و ضروریات بدلتے ہی دم توڑ دیتی ہے۔ ہر زمانے میں کچھ غنڈے، سلطانہ ڈاکو، امرا، سمگلر اور وارداتیے مشہور رہے ہیں۔ لوگ خوف یا ضرورت کے مارے انہیں عزت کے گمان میں بھی مبتلا رکھتے رہے ہیں لیکن زندگی کا ورق الٹتے ہی ان کی شہرت ان کی یاد کے لئے عذاب بن جاتی ہے۔ تاریخ میں تو شہرت اور جگہ میرصادق و جعفر کو بھی حاصل ہے لیکن کس حیثیت میں اور کس حیثیت سے؟ وقت نے انہیں قومی غداری کی علامت بنا دیا ہے جب کہ ان کے مقابلے میں ٹیپو سلطان شہید جرات و بہادری اور قومی حمیت کی علامت بن چکا ہے۔
قرآن حکیم کا فرمان ہے کہ عزت و ذلت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی دین ہے۔ عزت و ذلت منشائے الٰہی کے تابع ہیں۔ موٹی سی بات ہے کہ جو چیز منجانب اللہ ہو، منشائے الٰہی کے تابع ہو وہ یقیناً مقدر کا حصہ ہوتی ہے۔ مقدر کیا ہے؟ مقدر منشائے الٰہی ہے، لیکن قدرت نے خاصی حد تک مقدر انسانی کارناموں، جدوجہد، محنت اور خلوص منسلک کردیا ہے۔ خلوص سے مراد خدمت ہے، کیونکہ منشائے الٰہی خدمت کے جذبات سے ملتی ہے، نیت سے حاصل ہوتی ہے، کامیابی چھوٹی یا بڑی یا بہت بڑی مقدر سے جنم لیتی ہے۔ خدمت کی کئی قسمیں ہیں۔ خدمت سیاسی، ادبی، معاشرتی، تعلیمی، فلاحی، سائنسی، دینی، انسانی وغیرہ وغیرہ شعبوں میں تقسیم ہو کر انسانی زندگی پر محیط ہو جاتی ہے۔ قوم کو آزادی دلانے والی سیاست ہو یا خوشحال بنانے والی معاشی تحریک، اندھیروں میں روشنی پھیلانے والی سائنسی ایجادات ہوں یا موذی امراض سے شفا دینے والی ایجادیں، قومی جذبات اور فوری بیدار کرنے والی شاعری ہو یا ادب، قوم کو جہالت کی تاریکی سے نکالنے والی علمی و تعلیمی تحریک ہو یا غربت و محرومی کے زخموں پر مرہم رکھنے والے ادارے یہ سب صدقہ جاریہ ہیں اور مقدر کا حصہ ہوتے ہیں۔ مختصر یہ کہ جو شہرت یا کسی خدمت کے جذبے سے جنم لیتی اور پھیلتی ہے وہ پائیدار اور ابدی عزت کا ذریعہ بنتی ہے اور جو عزت ابدی روپ دھارتی ہے وہ منجانب اللہ ہوتی ہے۔ باقی ہوا کا جھونکا، آیا اور گزر گیا۔
مصنف کی تازہ کتاب ’’حکمت‘‘ سے اقتباس