• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1965کی پاک بھارت جنگ ہماری قومی اور حربی تاریخ کا اہم سنگ میل ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی شکست و ریخت کا عمل تیز تر ہو گیا اور محض 6؍برس کے عرصے میں ملک دولخت ہو گیا۔ 1965 کی جنگ کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ سنجیدہ نوعیت کے پیشہ وارانہ تجزیئے بھی ہوئے ہیں اور جذباتی تحریروں کے انبار بھی موجود ہیں مگر 17؍روزہ یہ جنگ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس دوران افواج پاکستان نے جرأت و شجاعت کی ولولہ انگیز داستانیں رقم کیں اور ہمارے شیر دل افسروں اور جوانوں کے کارناموں نے ایک دنیا کو متّاثر کیا۔ ایسے ایسے محیرالعقل واقعات رو پذیر ہوئے کہ عالمی ماہرین حرب بھی ششدر رہ گئے مگر جس انداز میں اس جنگ کا آغاز ہوا تھا وہ بھی کچھ کم حیران کن نہیں۔ دنیا بھر کے دانشوروں اور ماہرین حرب کی متفقہ رائے ہے کہ جنگ بچّوں کا کھیل نہیں ہوتی، یہ محض فوجوں کا ٹکرائو بھی نہیں ہوتا، جنگیں پوری قوم کی اجتماعی دانش، منصوبہ بندی اور طاقت کے بل بوتے پر لڑی اور جیتی جاتی ہیں۔ عالمی برادری میں اپنوں سے بات ہوتی ہے، غیروں کے تیور دیکھے جاتے ہیں، ملکی مسائل و وسائل کو سامنے رکھا جاتا ہے، باریک سے باریک جزئیات طے کر کے فول پروف منصوبہ بندی کی جاتی ہے لیکن پاکستان نے یہ جنگ کیسے لڑی، پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو تعجّب ہوتا ہے کہ رن آف کچھ اور کشمیر میں کھلی جنگ کے بعد بھی بعض بزرجمہروں کا خیال تھا کہ یہ آگ بین الا قوامی سرحد تک نہیں پھیلے گی۔ یہ فتویٰ دیتے ہوئے کسی نے ہندوستان کے تیور نہ دیکھے کہ رن آف کچھ اور کشمیر میں زچ ہونے کے بعد وہ زخمی اژدھے کی طرح پھنکار رہا ہے۔ کسی نے زمینی حقائق جاننے کی کوشش نہ کی، سب ہی نے آنکھیں موند لیں۔ اس وقت پاک بھارت جنگ کی پیش گوئی کیلئے کسی غیرمعمولی فہم و فراست کی ضرورت نہیں تھی، وہ تو سامنے دیوار پر لکھی تھی مگر کوئی پڑھنے کیلئے تیار نہ تھا، حالانکہ 24؍اگست 1965کو بھارت کے وزیر دفاع یشونت رائو چاون نے پاکستان کو کھلی دھمکی دی تھی اور لوک سبھا میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ہم جب چاہیں گے بین الاقوامی سرحد کو روند ڈالیں گے۔
نفرت اور انتقام کا یہ عالم تھا کہ بہ ظاہر دھیمے اور بے ضرر نظر آنے والے وزیراعظم شاستری کی آنکھوں میں بھی خون اتر آیا تھا۔ لوگوں نے اس سے پہلے انہیں کبھی اتنا آزردہ نہیں دیکھا تھا۔ وہ اپنے مختصر سے بیڈروم میں دھری چھوٹی سی تپائی پر رات دیر تک کچھ لکھتے اور پھر پھاڑ دیتے۔ برف کی سل کی طرح کا انسان اس دن شاید زندگی میں خدمت گار پر پہلی دفعہ برسا تھا جب اس نے بینک کے کچھ کاغذات سامنے رکھے۔ اصل میں ان ہی دنوں شاستری جی نے نئی کار خریدی تھی، آدھی رقم نقد دی آدھی کا بینک سے ادھار لیا۔ ملازم ان کاغذات پر دستخط کروانا چاہتا تھا۔ وزیراعظم چنگھاڑے ’’لے جائو، میں کہیں بھاگا نہیں جا رہا‘‘ اور بالآخر چند سطور ڈرافٹ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ لکھا تھا ’’رن آف کچھ کے بعد اب ہماری باری ہے، اب ہم پاکستان پر حملہ کریں گے، جگہ اور وقت کا تعین بھی خود کریں گے۔‘‘ پھر 3؍ستمبر کو وزیراعظم شاستری نے آل انڈیا ریڈیو پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’یہ شدید پریشانی کا وقت ہے لیکن آنے والے ایّام اس سے بھی زیادہ سخت ہوں گے۔ شاید ایک خوفناک جنگ کا سامنا ہو اور دشمن کے بمبار طیارے ہم پر ٹوٹ پڑیں لہٰذا اپنے فرض کو پہچانو اور اس کٹھن وقت کیلئے تیار ہو جائو‘‘ مگر صد حیف کہ سرحد پار سے آنے والی ان دھمکیوں کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا۔ بعض حلقوں نے تو وزیراعظم شاستری کا یہ کہہ کر بھی مذاق اڑایا کہ بونا (موصوف کوتاہ قامت تھے) اپنے قد سے بڑی باتیں کر رہا ہے۔ یہی نہیں کچھ اسی قسم کا رویّہ نئی دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر میاں ارشد حسین کے ساتھ بھی روا رکھا گیا۔ متحدہ پنجاب کے سرکردہ سیاستدان سر فضل حسین کے صاحبزادے اور منجھے ہوئے سفارت کار جو 1963سے بھارت میں خدمات انجام دے رہے تھے 4؍ستمبر کو موصوف نے اسلام آباد فارن آفس کو ایک سائیفر پیغام بھیجا۔ پاک، بھارت سفارتی مراسم معطل ہونے کی وجہ سے یہ پیغام ترک سفارتخانہ کی وساطت سے موصول ہوا تھا جس میں واضح طور پر بتایا گیا تھا کہ ہندوستان 6؍ستمبر کو پاکستان پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا چکا ہے۔ یہ ایک نہایت اہم اطلاع تھی اور یقیناً مقتدر حلقوں کے نوٹس میں آئی ہو گی لیکن شاستری کی طرح میاں ارشد حسین کا بھی یہ کہہ کر مذاق اڑایا گیا کہ ’’عجیب نروس آدمی ہے، بات کا بتنگڑ بنا دیتا ہے، پریشر ہو تو ہاتھ، پائوں پھول جاتے ہیں، حسب معمول پینک (Panic)ہو گیا ہے۔‘‘
چنانچہ کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور 5؍ستمبر کی شب آن پہنچی۔ سب گھوڑے بیچ کر سو گئے کہ 4؍بجے صبح ریکی ڈیوٹی پر متعین ایئرفورس کے ایک ہواباز نے صدر ایوب کو نیند سے جگا کر خبر دی کہ بھارتی سپاہ پاکستان کی جانب بڑھ رہی ہے۔ صدر نے سپہ سالار موسیٰ خان کو فون کیا تو جواب ملا ’’سنا تو میں نے بھی ہے اور اطلاع کی تصدیق کرائی جا رہی ہے۔‘‘ صدر ایوب کی شہرۂ آفاق تقریر سمیت پھر جو کچھ بھی ہوا وہ تاریخ کا حصّہ ہے۔ جنگ کی تیاری صفر لیکن بڑھک بازی میں یکتا۔ امریکی سفیر نے ایوب خان سے ملاقات میں طنزیہ کہا جناب صدر! ہندوستان نے آپ کو گلے سے دبوچ لیا ہے۔ ایوب خان کا جواب تھا ’’پاکستان کے گلے تک پہنچنے والے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں گے‘‘ ۔ ’’تیاری‘‘ کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ جنگ شروع ہوتے ہی ہر شے کی قلّت پڑ گئی۔ ایمونیشن، نہ فالتو پرزہ جات، تیل ہے نہ راشن ہر جانب ہرکارے دوڑائے گئے کہ کسی طرح مشکل کے یہ دن گزر جائیں۔ پیرس میں سفیر پاکستان کو ہدایت کی گئی کہ فرانس سے لڑاکا طیاروں کی خرید کے معاملے کو تیزی سے آگے بڑھائو۔ ترکی میں متعین پاکستانی سفیر کو خبردار کیا گیا کہ لڑاکا جہازوں کے فالتو پرزہ جات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ ایئر مارشل اصغر خان تازہ تازہ ریٹائر ہوئے تھے، سامان حرب کی فراہمی کے سلسلے میں حکومت کی مدد کرنے کیلئے چین، ایران، انڈونیشیا اور ترکی کے طوفانی دورے پر نکلے اور جو بن پڑا، کیا۔ مگر کچھ زیادہ کامیابی نہ ہوئی۔ اکثر دوستوں نے معذرت کر لی کیونکہ اتنے کم وقت میں سامان حرب کی فراہمی میں عملی دشواریاں تھیں۔ یہ بھی انکشاف ہوا کہ ڈمپوں میں موجود گولہ بارود کی ایک بڑی مقدار ناقص اور ناقابل استعمال ہے۔ ایسے حالات میں صدر ایوب کی بے چینی فطری تھی اور انہیں یہ غم کھائے جا رہا تھا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی کا اسٹیج چونڈہ میں سج رہا ہے اور ٹینکوں میں استعمال ہونے والے گولے شارٹ ہیں اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ عین عالم جنگ میں سیکرٹری دفاع کو ریسرچ اسائنمنٹ سونپا گیا کہ یہ معرکہ کس قدر طویل ہو سکتا ہے اور پاکستان کی دفاعی ضروریات کو کیوں کر پورا کیا جا سکتا ہے۔
ہماری اس قدر ناقص بلکہ مجرمانہ منصوبہ بندی اور کارکردگی کے باوجود اللہ رب العزت نے اس مملکت خداداد پر اپنا خصوصی کرم کیا اور خود اس کی پاسبانی کی۔ بلاشبہ یہ ایک معجزہ تھا، اسلام کے نام پر حاصل ہونے والا یہ خطّہ ارض وقتی طور پر کسی بڑے حادثے سے محفوظ رہا مگر قدرت کے قوانین اٹل ہیں۔ ڈھیل ضرور مل جاتی ہے لیکن ایک حد تک، کوتاہی کی معافی ہے مگر بداعمالیوں کی پکڑ ضرور ہوتی ہے۔ بالآخر یہ پکڑ 1971میں ہو گئی اور قائد کا پاکستان دولخت ہو گیا۔
تازہ ترین