• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنے 3سالہ دور میں معیشت کی کارکردگی کو تواتر سے عمدہ قرار دے رہی ہے۔ ہم عالمی اداروں کی جاری کردہ کچھ رپورٹوں کا مختصر جائزہ پیش کر رہے ہیں تاکہ عوام فیصلہ کر سکیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔
(1)بین الاقوامی غذا پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بھوک کی صورتحال انتہائی سنگین ہے۔ رپورٹ میں آبادی کا تناسب جس کو مناسب غذا میسّر نہیں، 5برس کی عمر کے بچّے جن کا وزن قد کے لحاظ سے کم یا عمر کے لحاظ سے قد کم ہو اور اس عمر تک کی عمر کے بچّوں کی شرح اموات کو معیار بنایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کے 118ممالک میں سے صرف 10ملکوں میں بھوک کی صورتحال پاکستان سے خراب ہے جبکہ 106ممالک پاکستان سے بہتر قرار دیئے گئے ہیں۔ بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا اور بھارت اس درجہ بندی میں عالم اسلام کی پہلی جوہری طاقت پاکستان سے بہتر ممالک قرار دیئے گئے ہیں جبکہ افریقا کے غریب ملک ایتھوپیا کو پاکستان کے برابر رکھا گیا ہے۔
(2)عالمی اقتصادی فورم کی جاری کردہ عالمی مسابقت رپورٹ برائے 2016-17کے مطابق 138ملکوں کی درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر 122ہے یعنی صرف 16ممالک پاکستان سے نیچے اور 121ممالک پاکستان سے اوپر ہیں۔ بھارت 39ویں نمبر پر ہے جبکہ سری لنکا، بنگلہ دیش، نیپال اور بھوٹان کی درجہ بندی بھی پاکستان سے بہتر ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ:
(الف)جنوبی ایشیا میں معیشت کے شعبے میں بہترین اور بدترین کارکردگی دکھلانے والے ملکوں میں فرق بڑھ رہا ہے۔ اس کی وجہ پاکستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال یعنی خراب کارکردگی ہے۔
(ب)بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں انفرااسٹرکچر میں بہت زیادہ بہتری آئی ہے جبکہ پاکستان میں خرابی آئی ہے۔
(ج)خطّے میں پاکستان واحد ملک ہے جو مائیکرو اکنامک ماحول، صحت اور پرائمری تعلیم کے شعبوں میں بہتری لانے میں ناکام رہا ہے چنانچہ وہ جنوبی ایشیا میں پیچھے چلا گیا ہے۔
(3)ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار بدعنوان ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ 168ملکوں میں سے 116ملکوں میں کرپشن پاکستان سے کم ہے۔ بھارت کا نمبر 76ہے یعنی وہاں کرپشن پاکستان سے بہت کم ہے۔
(4)انسانی وسائل کی ترقی کے لحاظ سے درجہ بندی میں دنیا کے 188ملکوں میں سے 146ممالک پاکستان سے آگے ہیں۔ نیپال، بھارت، بھوٹان، بنگلہ دیش، مالدیپ اور سری لنکا بھی درجہ بندی میں پاکستان سے بہتر ہیں۔
(5)عالمی بینک کی نائب صدر برائے جنوبی ایشیا نے کہا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں بھارت کی معیشت کی شرح نمو پاکستان سے دگنی رہی ہے اور اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو 2050تک بھارت کی معیشت کا حجم پاکستان سے 40گنا ہو گا۔ ہم اس ضمن میں یہ عرض کریں گے کہ (i) 1996میں پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی معیشت صرف 5گنا تھی۔2001(ii)میں بھارت کی جی ڈی پی 493ارب ڈالر تھی جو 1795 ارب ڈالر کے اضافے کے ساتھ 2288ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ اسی مدّت میں پاکستان کی جی ڈی پی 79ارب ڈالر سے بڑھ کر صرف تقریباً 280ارب ڈالر تک پہنچی ہے۔ یعنی بھارت کے 1795ارب ڈالر کے اضافے کے مقابلے میں پاکستان کی جی ڈی پی میں صرف تقریباً 200ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ 2001(iii)میں بھارت کی برآمدات صرف 46ارب ڈالر تھیں جو 2014میں 306ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھیں جو کہ 260ارب ڈالر کے اضافے کو ظاہر کرتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کی برآمدات میں صرف 16 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ 2001میں پاکستانی برآمدات 9ارب ڈالر تھیں جو 2014میں تقریباً 25ارب ڈالر ہوگئی تھیں۔ (iv)جی ڈی پی کے تناسب سے بھارت میں ٹیکسوں کی وصولی، قومی بچتوں اور مجموعی سرمایہ کاری کی شرحیں پاکستان سے کہیں زیادہ ہیں جبکہ جی ڈی پی کے تناسب سے بھارت تعلیم، صحت اور تحقیق و ترقی کی مد میں پاکستان سے کہیں زیادہ رقوم خرچ کرتا ہے۔ (v)اکتوبر 2016میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق بھارت میں 9.8ارب ڈالر کے وہ اثاثے اور آمدنی ظاہر کی گئی تھی جو بدعنوان عناصر نے ٹیکس حکام سے خفیہ رکھی ہوئی تھی۔ حکومت نے ایمنسٹی دینے کے عوض 45فیصد ٹیکس ادا کرنے کی شرط رکھی تھی یعنی حکومت کو 4.40ارب ڈالر کی رقوم ٹیکس کی مد میں ملیں گی۔ اس کے مقابلے میں پاکستان میں موجودہ حکومت کے دور میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے تحت صرف دو فیصد ٹیکس کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن یہ اسکیم ناکام ہو گئی کیونکہ وطن عزیز میں ناجائز دولت رکھنے والوں کو یقین ہے کہ سابقہ و موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں، پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلیوں اور ریاست کے چاروں ستونوں نے نہ ماضی میں ان کا کچھ بگاڑا ہے اور نہ آئندہ بگاڑیں گے۔
یہ بات حیرت سے پڑھی جائے گی کہ اگر پاکستان میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے تحت 9.8ارب ڈالر کی رقوم ظاہرکی جاتیں تو بدعنوان عناصر کو صرف 196ملین ڈالر ٹیکس دینا پڑتا جبکہ بھارت میں وہ 4400ملین ڈالر ٹیکس دے رہے ہیں۔ ہمارا ازلی دشمن بھارت خطّے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کیلئے ہر قیمت تو ادا کرنے کیلئے تیار ہے لیکن یہ بات بھی وہ اچھی طرح سمجھتا ہے کہ پاکستان کے پاس جوہری وار ہیڈز اور ہتھیار اس سے زیادہ ہیں چنانچہ بھرپور جنگ میں تباہی اس کا بھی مقدّر ہو گی۔ بھارت، پاکستان پر جنگ مسلّط کرنے کے بجائے پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچانے اور پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کراتے چلے جانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ یہ ملک اور قوم کی بدقسمتی ہے کہ 1998میں جوہری دھماکے کرنے کے بعد پاکستان کی کسی بھی حکومت نے ملک کو جوہری قوّت کے ہم پلّہ معاشی قوّت بنانے اور بھارت کی اس حکمت عملی سے نمٹنے کیلئے سرے سے کوئی مؤثر حکمت عملی وضع کی ہی نہیں۔ اس کے بجائے مختلف حکومتیں معیشت کے شعبے میں شاندار کامیابیوں کے خیالی دعوے کرتی رہی ہیں اور آج بھی کر رہی ہیں۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ معاشی قوّت تو کجا صرف معیشت میں پائیدار بہتری لانے کیلئے جن بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے ان سے ٹیکس چوری کرنے والوں اور قومی دولت لوٹنے والوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ چنانچہ امریکی ایجنڈے کے تحت دہشت گردی کی جنگ لڑنے کے ضمن میں انتہائی مشکل فیصلے تو کئے جاتے رہے ہیں مگر انتہاپسندی و دہشت گردی کے خاتمے، قبائلی بھائیوں کے دل و دماغ جیتنے اور معیشت کی بہتری کیلئے جو اقدامات ضروری ہیں ان سے اجتناب کیا جاتا رہا ہے۔ ان اقدامات کو سول و ملٹری بیوروکریسی کی اجتماعی دانش کے تحت وضع کردہ قومی ایکشن پلان کا حصّہ بھی نہیں بنایا جا رہا۔ معیشت کے دستاویزی نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گردوں کو رقوم مل رہی ہیں۔ وطن عزیز میں پانامالیکس پر ہنگامہ آرائی جاری ہے حالانکہ ایک ڈالر کی وصولی بھی متوقع نہیں ہے۔ ناجائز اثاثوں سے بنائے ہوئے کئی ہزار ارب روپے کے اثاثے ملک کے اندر موجود ہیں جن کی تفصیلات ریکارڈ میں موجود ہیں لیکن بدعنوان عناصر کے ناجائز مفادات کے تحفظ کیلئے ملک میں کوئی بھی اس پر بات کرنے کیلئے تیار نہیں ہے حالانکہ وفاق اور چاروں صوبے اگر چاہیں تو اس مد میں تقریباً دو ہزار ارب روپے یقیناً وصول ہو سکتے ہیں۔ اگر مندرجہ بالا تمام اصلاحات نہ کی گئیں تونہ صرف پاک چین اقتصادی راہداری منصوبوں سے پاکستان کی قسمت بدلنے کا خواب پورا نہ ہوسکےگابلکہ پاکستان کا بیرونی شعبہ بھی زبردست مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔


.
تازہ ترین