• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم میاں نوازشریف کے دورہ کرغزستان کے موقع پر FPCCIکے صدر میاں ادریس شیخ اور ایکسپورٹرز نے وزیراعظم کو بتایا تھا کہ پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے ملکی ایکسپورٹس مسلسل گر رہی ہیں جس پر وزیراعظم نےچند روزقبل ملک کی تمام ایکسپورٹرز ایسوسی ایشنز کے صدور اور بڑے ایکسپورٹرز کو مشاورت کیلئے اسلام آباد دوروزہ میٹنگ پر مدعو کیا۔ ایکسپورٹرز کے مختلف گروپس نے پہلے روز وزیر تجارت خرم دستگیر، وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی، وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف، وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، وزیراعظم کے مشیر برائے ریونیو ہارون اختر، ٹی ڈیپ کے سی ای او ایس ایم منیر، فیڈریشن کے صدر میاں ادریس شیخ، ایف بی آر کے چیئرمین طارق باجوہ کیساتھ ہوٹل میں میٹنگ کی۔ دوسرے دن وزیراعظم میاں نواز شریف نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور درج بالا تمام وزراء کیساتھ وزیراعظم سیکریٹریٹ میں صبح 8 بجے سے دوپہر ایک بجے تک ایکسپورٹرز سے تفصیلی میٹنگ کی اور گزشتہ دن کے ایشوز اور سفارشات پر ون ٹو ون تبادلہ خیال کیا۔ پہلے گروپ میں اپٹما اور پاکستان ڈینم مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کی جانب سے اپٹما کے چیئرمین ایس ایم تنویر اور میں نے اپنی پریزنٹیشنز پیش کیں جس میں ہم نے متعلقہ وفاقی وزراء اور پالیسی میکرز کو بتایا کہ ملکی ایکسپورٹس مسلسل کئی سالوں سے جمود کا شکار ہیں جو 24,25 ارب ڈالر سے زیادہ نہیں بڑھ رہیں جبکہ 2006ء سے 2013ء کے دوران ویتنام نے اپنی ایکسپورٹس میں 230%، بنگلہ دیش نے 160%، چین نے 97%اور بھارت نے 94% اضافہ کیا ہے۔ اسی عرصے میں دنیا کی اوسطاً ایکسپورٹس میں 44% اضافہ ہوا جبکہ اسکے برعکس پاکستان نے ان 8 سالوں میں اپنی ایکسپورٹس میں صرف 22% اضافہ کیا۔ رواں مالی سال جولائی 2014-15ء میں یارن -12.5%، کاٹن فیبرک -20.5%، نٹ ویئر -8.5%، بیڈ ویئرمیں -21%، تولئے میں -9%، گارمنٹس اور دیگر ٹیکسٹائل مصنوعات کی ایکسپورٹس (ویلیو)میں مجموعی 11.72% کمی ہوئی ہے۔ اپٹما کے مطابق اس وقت ملک میں ٹیکسٹائل سیکٹر کی تقریباً 30% پیداواری استعداد بند ہے جس سے 3.5ارب ڈالر کی ایکسپورٹس حاصل کی جاسکتی تھیں جبکہ کاٹن کی کاشت میں ریسرچ نہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ کئی سالوں سے ہماری کاٹن کی پیداوار12سے 13ملین بیلز یعنی 2.2 ملین ٹن ہے جبکہ اس عرصے میں بھارت میں کاٹن کی پیداوار 34 ملین بیلز یعنی 6.2 ملین ٹن پہنچ چکی ہے۔
اپٹما اور میں نے اپنی پریزنٹیشن میں بتایا کہ پاکستان کی موجودہ گرتی ہوئی ایکسپورٹس کی ایک اہم وجہ ہماری پیداواری لاگت میں تیزی سے اضافہ ہے جس کیلئے ہم نے اپنے مقابلاتی حریفوں بنگلہ دیش، بھارت، چین کی پیداواری لاگت کا ایک موازنہ پیش کیا۔ہماری بجلی کے نرخ خطے میں سب سے زیادہ ہیں۔ بنگلہ دیش 7.3سینٹ، چین 8.5سینٹ، بھارت9سینٹ جبکہ پاکستان میں 3.53 سینٹ سرچارج سمیت یہ 14.25 سینٹ فی کلو واٹ ہے۔ شرح سود میں پاکستان اب خطے کے ممالک کے برابر ہوگیا ہے۔ بنگلہ دیش کا پالیسی ریٹ 5%، چین کا 5.4%، بھارت کا 7.5% اور پاکستان کا 6% ہے۔ مزدوروں کی کم از کم اجرتوں میں بنگلہ دیش میں 68 ڈالر، چین میں 300 ڈالر، بھارت میں 95 ڈالر اور پاکستان میں 130ڈالر ماہانہ ہے۔ پاکستان کی مقامی کرنسی دسمبر 2013ء کے بعد سے اب تک ڈالر کے مقابلے میں تقریباً 4.33% مضبوط ہوئی ہے جبکہ بنگلہ دیش میں-0.2%، چین میں -4.2% اور بھارت کی کرنسیوں کی قدر -7.4% کم ہوئی ہے جو غیر ملکی خریداروں کیلئے پرکشش ہے۔ پاکستان میں کارپوریٹ ٹیکس 33% جبکہ بنگلہ دیش میں 27.5%، چین میں 25% اور بھارت میں 25% ہے۔ اسکے علاوہ پاکستان میں 1% ٹرن اوور ٹیکس اور ایکسپورٹ پر بلاواسطہ (Indirect) 5% سرچارج لاگو ہیں جبکہ بنگلہ دیش، چین اور بھارت میں ایکسپورٹ پر ایسا کوئی ٹیکس عائد نہیں۔ ایکسپورٹ آرڈرز میں کمی کی وجہ سے ہماری مشینوں کی پیداواری استطاعت صرف 70% ہے جبکہ بنگلہ دیش، چین اور بھارت میں یہ 90% سے زائد ہے۔ اسی طرح پاکستان میں صنعتوں کیلئے گیس کے نرخ 6.7 ڈالر فی MMBTU جبکہ بنگلہ دیش میں 2.6 ڈالر، بھارت میں 4.2 ڈالر اور ویت نام میں 4.5 ڈالر ہیں۔ پیداواری لاگت غیر مقابلاتی ہونے کی وجہ سے خطے میں ہماری ٹیکسٹائل گروتھ منفی ہے جبکہ بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل اور کلاتھنگ کی سالانہ اوسط گروتھ 20%، چین کی 14% اور بھارت کی 12% ہے جس کی وجہ سے دنیا کی ٹیکسٹائل مارکیٹ میں پاکستان کا شیئر 2.2% سے کم ہوکر صرف 1.8% رہ گیا ہے جبکہ دنیا کی ٹیکسٹائل مارکیٹ میں بنگلہ دیش کا شیئر بڑھ کر 3.3%، چین کا 37% اور بھارت کا 4.7% ہوگیا ہے۔
میٹنگ میں شریک ایکسپورٹرز نے طویل عرصے سے پھنسے سیلز ٹیکس ریفنڈز کے بارے میں وزیراعظم کو آگاہ کیا۔ میں نے اپنی پریزنٹیشن میں بتایا کہ سیلز ٹیکس ریفنڈ وقت پر نہ ملنے کی وجہ سے کمپنیوں کا ورکنگ کیپٹل پھنس جاتا ہے جس سے معیشت پھیلنے کے بجائے سکڑ رہی ہے۔ اس موقع پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اعلان کیا کہ 30 اگست 2015ء تک کے پھنسے ہوئے تمام سیلز ٹیکس ریفنڈ فوراً ادا کردیئے جائینگے۔ میں نے وزیر تجارت کو بتایا کہ ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹس میں پیچھے رہ جانے کی ایک وجہ ٹیکسٹائل پالیسیوں پر حکومت اور بیورو کریسی کا عملدرآمد نہ کرنا ہے۔ پاکستان کی پہلی ٹیکسٹائل پالیسی 2009-14ء جس میں میری بڑی محنت شامل تھی، پر صرف 15% عمل ہوسکا جس کی وجہ سے وہ تمام اچھی مراعات جو ایکسپورٹ میں اضافے کیلئے دی گئی تھیں، فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکیں۔ اسی طرح نئی ٹیکسٹائل پالیسی 2014-19ء کے اعلان کے باوجود نوٹیفکیشن ابھی تک جاری نہیں کیا گیا ہے جبکہ بھارت نے اپنی ٹیکسٹائل پالیسی پر 115% عملدرآمد کرکے دنیا کی مارکیٹ میں اپنا شیئر 3.5% سے بڑھاکر 5% کرلیا ہے۔ میں نے انہیں مثال دیتے ہوئے بتایا کہ جب پاکستان کو دسمبر 2013ء میں یورپی یونین سے جی ایس پی پلس کی ڈیوٹی فری مراعات ملیں تو اسی رات کو بھارتی وزیر تجارت آنند شرما نے بھارتی ایکسپورٹرز کو یورپ کی ایکسپورٹ پر 8% سے زیادہ ریبیٹ دینے کا اعلان کیا تاکہ بھارت کا یورپی یونین میں مارکیٹ شیئر کم نہ ہو۔ میں نے بتایا کہ پاکستان میں صنعت کو بجلی اور گیس کی سپلائی کی ترجیح چوتھے نمبر پر ہے جبکہ دنیا میں صنعتی سیکٹر کی ترجیح نمبر ون ہوتی ہے۔ میٹنگ میں پاکستان سے حلال فوڈ اور چاول کی ایکسپورٹ میں حائل مشکلات پر بھی بات کی گئی۔ میں نے شرکاء کو بتایا کہ ترقی پذیر ممالک میں اونچی گروتھ حاصل کرنے کیلئے یوٹیلیٹیز کو کبھی بھی ریونیو حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بنایا جاتا لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں بجلی، گیس اور آئل کی امپورٹس ریونیو حاصل کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں جس کی وجہ سے ہماری انرجی کے اوسطاً نرخ خطے میں سب سے زیادہ ہیں۔ دنیا میں ایکسپورٹس ہمیشہ زیرو ریٹڈ ہوتی ہے یعنی ایکسپورٹس کو مقابلاتی رکھنے کیلئے ان پر کسی قسم کے ٹیکسز یا سرچارج نہیں لگائے جاتے جبکہ ہماری ایکسپورٹس پر 5% سے 6% بلاواسطہ ٹیکسز اور سرچارج لاگو ہیں جو ہمیں غیر مقابلاتی بنارہے ہیں۔ بھارت سے سستا یارن فیصل آباد مارکیٹ میں سپلائی کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے مقامی ملوں میں یارن کے اسٹاکس جمع ہورہے ہیں۔ چین جو پاکستانی یارن کا سب سے بڑا خریدار تھا، اب بھارتی یارن کا سب سے بڑا خریدار بن گیا ہے۔ ہمارے برادر اسلامی ملک ترکی نے اپنی مقامی صنعت کو تحفظ دینے کیلئے پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات پر 18% سے 24% تک اضافی کسٹم ڈیوٹی عائد کردی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی ترکی کو ایکسپورٹ جو ایک ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی، کم ہوکر نصف رہ گئی ہے۔ میں نے وزیر تجارت کو بتایا کہ پاکستان ترکی کے ساتھ جو PTA سائن کررہا ہے، اس میں ٹیکسٹائل کو ضرور شامل کیا جائے جس سے ترکی کی عائد کردہ اضافی کسٹم ڈیوٹی پاکستان کیلئے ختم ہوجائیگی۔ وزیر تجارت نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ ترکی کیساتھ ٹیکسٹائل کو PTA میں ضرور شامل کروائیں گے۔ میں نے شرکاء کو بتایا کہ بھارت اور بنگلہ دیش میں ہر ماہ ایکسپورٹرز کی وزیراعظم بزنس کونسل سے میٹنگ ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں گزشتہ ایک سال سے ٹیکسٹائل کا وزیر ہی نہیں ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہماری معیشت کے سب سے بڑا سیکٹر کیلئے حکومت کی کیا ترجیحات ہیں۔ وزیراعظم نے وعدہ کیا ہے کہ ہر 3 ماہ بعد ایکسپورٹرز سے مشاورت کا یہ عمل جاری ر ہے گا اور دو ہفتے میں ملکی ایکسپورٹس کے فروغ کیلئے ریلیف پیکج کا اعلان کریں گے اور جس کا ہمیں شدت سے انتظار ہے۔
تازہ ترین