• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ جو کہا جاتا ہے، جادو وہ جو سرچڑھ کے بولے، اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے وزیراعظم نوازشریف کے خطاب کا جادوبھی سر چڑھ کے بولااور بدترین ناقد بھی اعتراف کئے بغیر نہ رہے۔ ایک صاحب کے بقول، ’’طویل عرصے بعد کسی پاکستانی وزیراعظم نے وہ بات کہی جو عوام سننا چاہتے تھے‘‘۔دوسرے کا کہنا تھا،’’ اقوامِ متحدہ میں وزیراعظم کی تقریر سے محترمہ شیریں مزاری کے سوا کسی کو مایوسی نہیں ہوئی، بلاشبہ یہ ایک معرکۃ الآراخطاب تھا‘‘۔ اُدھر ہندوستان میں بھی کروڑوں کان اور آنکھیں میڈیا پر لگی ہوئی تھیں۔ ہندوستانی چینلز نے وزیراعظم پاکستان کی تقریر لائیو ٹیلی کاسٹ کی اور پھر ہاہا کار مچ گئی، سیاپا پڑگیا۔ کسی نے کہا ، وزیراعظم پاکستان کی تقریر کا 80فیصد حصہ کشمیر پر مرکوز تھا، کسی کے بقول ، نوازشریف کا پورا خطاب کشمیر پر تھااور اس پر سبھی کا اتفاق تھا کہ ایسا خطاب تو آج تک پاکستان کے کسی وزیراعظم نے نہیں کیا۔
کشمیر، وزیراعظم نوازشریف کے گزشتہ دونوں ادوار میں بھی، پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی پتھر رہا۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اُن کا کوئی بھی خطاب، کشمیر کے بغیر نہیں رہاتھا۔ چند مثالیں22:ستمبر1997ء،دوسری بار وزیراعظم بننے کے بعد جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں اُنہوں نے جہاں طاقتورملکوں سے کہا کہ وہ کمزوروں کے خلاف من مانی نہ کریں، وہاں ہندوستان کی طرف سے برصغیر میں امن کو لاحق خطرات کا ذکر کرتے ہوئے اِن کا کہنا تھا، ہندوستان نے پاکستان کی سرحد کے قریب میزائل نصب کردیئے ہیں جس سے ہماری سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کئے بغیر خطے میں کشیدگی کم نہیں ہوسکتی۔ اُسی روز صدر کلنٹن سے ملاقات میں اُنہوں نے امریکی صدر پر واضح کیا کہ پاکستان، ہندوستان سے خوشگوار تعلقات قائم کرنے میں سنجیدہ ہے لیکن مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر یہ ممکن نہیں۔ اگلے سال(1998میں) دُنیا بھر سے آئے لیڈروں سے اپنے خطاب میں وہ کہہ رہے تھے ، پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تنازع کی اصل وجہ کشمیر ہے۔ عالمی برادری اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حقِ خودارادیت دِلانے کیلئے ہندوستان پر دباؤ ڈالے، ورنہ اقوامِ متحدہ سے دُنیا کا اعتماد اُٹھ جائے گا۔ جبکہ اسی روز نوازشریف سے ملاقات میں صدر کلنٹن نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کردار ادا کرنے پر آمادگی ظاہر کردی۔فروری 1999ء میں واجپائی کی لاہور یاترا پر اعلان لاہور میں مسئلہ جموں و کشمیر سمیت تمام معاملات کے حل کیلئے کوششیں تیز تر کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ اخبار نویسوں سے گفتگو میں ہندوستانی وزیرخارجہ جسونت سنگھ کا کہنا تھا، مذاکرات میں مسئلہ کشمیر شامل تھا۔ اسی دور میں ہندوستان کے جواب میں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں نے دُنیا کو ایک بار پھر مسئلہ کشمیر کی سنگینی کی طرف متوجہ کیا۔ نہ صرف جنرل اسمبلی کی سالانہ رپورٹس میں کشمیر، ’’فلیش پوائنٹ‘‘ کی حیثیت سے پیش کیا جانے لگا بلکہ دولت ِمشترکہ ، یورپی یونین اور ڈی ایٹ سمیت سبھی عالمی اِداروں کی طرف سے دو ایٹمی ملکوں میں اس دیرینہ تنازعہ کے حل پر زور دیا جانے لگا، ایک ایسا تنازعہ جو برصغیر سے باہر عالمی امن کیلئے بھی سنگین خطرے کا باعث بن سکتا تھا۔ نوازشریف تیسری بار وزیراعظم بنے، تو ستمبر 2013ءمیں جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں اُنہوں نے پھر کشمیر کو موضوع بنایا ۔ اِنہیں اقوامِ متحدہ کو باور کرانے میں کوئی عارنہ تھی کہ اُس نے مسئلہ جموں و کشمیر کے حل(اور اہل کشمیر کے حقِ خودارادیت ) کیلئے وہ کردار ادا نہیں کیا، جو اُسے کرنا چاہیے تھا۔ عالمی ضمیر کو آواز دیتے ہوئے اِن کا کہنا تھا، اہلِ کشمیر کے مصائب و آلام کو عالمی سیاست کی وجہ سے قالین کے نیچے نہیں چھپایا جاسکتا۔ تب من موہن سنگھ ہندوستان کے وزیراعظم تھے اور وہ اپنے پاکستانی ہم منصب کی اس تقریر سے اتنے بدمزہ ہوئے کہ صدر اُوباما سے اس کی شکایت کئے بغیر نہ رہے۔ اس پر نوازشریف نے ہندوستانی صحافی برکھادت سے گفتگو میں، من موہن سنگھ پر’’ لگائی بھجائی کرنے والی عورت‘‘ کی پھبتی کسی(جسے حامد میر نے ’’جیو‘‘ کی بریکنگ نیوز بنادیا)۔ اس پرمن موہن سنگھ کی بدمزگی اور بڑھ گئی تھی، یہاں تک کہ اگلے روز دونوں وزراء اعظم کی ناشتے پر ہونے والی ملاقات منسوخ ہوتے ہوتے رہ گئی لیکن یہاں بھی تناؤ کی کیفیت موجود تھی۔ عالمی مبصرین کے مطابق برسوں بعد یہ پہلا موقع تھا جب پاکستان کے کسی وزیراعظم نے اس شدت کے ساتھ عالمی برادری کے سامنے کشمیریوں کا مقدمہ پیش کیا تھا۔ اگلے ماہ دورۂ امریکہ میں صدر اُباما سے ملاقات میں، وزیرنوازشریف کا میزبان سے کہنا تھا کہ وہ کشمیر کے ’’کورایشو‘‘ سمیت پاک بھارت تنازعات کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ 2014ءمیں نریندر مودی ہندوستان کے وزیراعظم تھے، نوازشریف نے اب عالمی برادری کے سامنے کشمیری خواتین کی مظلومیت کا بھی ذکرکیا۔ جنرل اسمبلی سے اپنے تازہ خطاب میں اُنہوں نے کشمیر کو پھر موضوع بنایا اور ہمیشہ سے زیادہ شدت کے ساتھ بنایا اور ہندوستان میں آگ سی لگ گئی۔ وزیراعظم پاکستان کا یہ خطاب’’پیس آفینسو‘‘ کی بہترین مثال تھا۔ اُنہوں نے سفارتی آداب کا پورا لحاظ رکھتے ہوئے ہندوستان کو آڑے ہاتھوں بھی لیا اور امن کیلئے چار نکاتی فارمولا بھی پیش کردیا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا، جب پاکستان کو عالمِ اسلام کے قائد کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ اس بار وزیراعظم نوازشریف کے خطاب میں قیادت کے اسی گم گشتہ کردار کی بازیابی کی جھلک دکھائی دی۔ کشمیر کے ساتھ اُنہوں نے فلسطین کا ذکر بھی کیا(اِس سال فلسطین کا پرچم بھی دیگر ممالک کے پرچموں کے ساتھ موجود تھا)۔ اُن کا کہنا تھا، فلسطین کا المیہ سنگین تر ہوگیاہے۔ ’’فلسطین اور اسرائیل ، دو الگ الگ ریاستوں‘‘ والا امن فارمولہ اسرائیل کی ہٹ دھرمی کی نذر ہوچکا۔ وہ کہہ رہے تھے، ملٹری ایکشن اپنی جگہ لیکن دہشت گردوں کے بیانئے(Narrative) کو کاؤنٹر کرنے کی بھی ضرورت ہے اور اس کیلئے دُنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے ظلم و زیادتی اور ناانصافی کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ (گزشتہ شب حامد میر نے یاددِلایا ، لاہور میں 23مارچ 1940ءکے تاریخی اجتماع کی قراردادوں میں فلسطینی قرارداد بھی شامل تھی)۔
تحریک ِانصاف کی ترجمان محترمہ شیریں مزاری، وزیراعظم کی تقریر کو مایوس کن قرار دے رہی تھیں۔ گزارش ہے کہ وہ 30اکتوبر 2011کو مینارِ پاکستان پر، سونامی جلسے کے بعد، ہندوستانی صحافی کرن تھاپرسے اپنے کپتان کے تاریخی انٹرویو کو یاد کریں۔ کشمیر اور پاک، ہند تعلقات کے حوالے سے کپتان کا یہ انٹرویو ان کے چودہ طبق روشن کر دے گا۔ پاکستان کا شاید ہی کوئی لیڈر اس حد تک گیا ہو۔ انہی دِنوں یورپ کے دورے پر آرمی چیف جناب راحیل شریف بھی ، پاک بھارت تعلقات اور کشمیر پر اسی قومی مؤقف کا اعادہ کرتے رہے جس کا اظہار وزیراعظم نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کیا اور بڑی تفصیل کے ساتھ ، بڑے مؤثر انداز میں کیا۔ جمہوریت سے الرجک اور سیاستدانوں سے بیزار ہمارے بعض دوست موجودہ حکومت کی پالیسی کو فوج کے دباؤ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں لیکن وہ اس بات کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ پاکستان اور پاکستانی فوج سے عناد رکھنے والے ہندوستانی تجزیہ کار اسی بات کو پاک فوج کے خلاف الزام اور پاکستانی حکومت کیلئے ایک طعنے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
تازہ ترین