• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چنے کی دال کی درآمد اور زراعت پر کچھ لکھنے کا ارادہ ہے مگر 18ستمبر کو پشاور میں دہشت گردی کے المناک واقعہ پر چند سطور لکھنا ضروری ہے۔ اپنے گزشتہ کالم میں حکومت اور آرمی چیف سے درخواست کی تھی کہ اس فتنے کو جس قدر سختی سے جلد از جلد ختم نہ کیا گیا تو پورا ملک تباہ ہو جائیگا۔ وحشی درندوں نے پھر نمازیوں اور بیگناہ شہریوں کا قتل عام کیا۔ یہ انسان نہیں درندے ہیں۔ یہ واقعہ اور اس سے پیشتر واقعات عمران خان اور پرویز خٹک کیلئے وارننگز ہیں کہ آپ کے صوبے میں دہشت گرد اس قدر منظم طریقے سے کارروائیاں کررہے ہیں اور آپ کی پولیس ، سی آئی ڈی صرف پروٹوکول میں لگی ہوئی ہے۔ اِس حادثے میں شہید ہونے والوں کو اللہ جنت نصیب کرے۔
جیسا کہ عرض کیا ہے میں دراصل چنے کی دال کی 50 ہزار ٹن درآمد کے بارے میں کچھ کہنا چاہ رہا تھا۔ ہم ایک زراعتی ملک ہیں، دنیا کا طویل ترین نہری نظام ہمارے ملک میں موجود ہے، زمین زرخیز ہے۔ اربوں ایکڑ فٹ میٹھا پانی ہم چند دنوں میں سمندر میں بہادیتے ہیںاور اتنے کاہل اور نااہل ہیں کہ ہم چنے کی دال کی درآمد پر کروڑوں روپیہ کا قیمتی زرمُبادلہ ضائع کر دیتے ہیں۔ کسان تو جانتے ہی ہیں عام آدمی بھی جانتے ہیں کہ مونگ پھلی اور چنا بنجر یا ریتیلی زمین میں پیدا ہوتے ہیں اور اس قسم کی زمین کا ملک میں فقدان نہیں۔ اگر حکومت اپنے ہی کسانوں کو اچھا معاوضہ دیکر چنا اور مونگ پھلی لگائے تو بہ آسانی بنجر اور ریتیلی زمین قابل کاشت ہوجائیگی۔ لوگوں کو روزگار ملے گا اور کسانوں کو اچھے پیسے ملیں گے اور سب سے بڑھ کر ہمارا قیمتی زرمبادلہ بچ جائیگا اور کسی اور اہم درآمد میں استعمال ہوسکے گا۔
لبنان کے ایک دانشور خلیل جبران نے اپنی دانشوری کا مغربی ممالک میں بہت اچھا تاثر قائم کیا تھا۔ لوگ ان کی نظمیں، مقولے وغیرہ اب بھی اکثر بیان کرتے ہیں۔ ان کے یہ سنہری الفاظ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ میں نے صرف لفظ ترس، رحم (Pity) کی جگہ لفظ لعنت (Curse) استعمال کیا ہے۔ ’’لعنت ہے اس قوم پر جو عقیدوں سے پُر ہے مگر مذہب سے عاری ہے۔ لعنت ہے اس قوم پر جو اپنا بنایا ہوا کپڑا نہیں پہنتی اور وہ روٹی کھاتی ہے جو اپنی کاشت سے تیار کردہ نہیں۔ وہ مشروب پیتی ہے جو اَپنے پھلوں سے تیار کردہ نہیں۔ لعنت ہے اس قوم پر جو دہشت گرد (ظالم) کو اپنا ہیرو مانتی ہے اور چمک دمک والے غاصب کو اپنا ہیرو مانتی ہے۔ لعنت ہے اس قوم پر کہ جس کی آواز بلند نہیں ہوتی سوائے جنازہ میں شرکت کرتے وقت، جو قوم اپنے کھنڈرات میں کھڑے ہو کر شیخیاں مارتی ہے اور اس وقت تک مزاحمت نہیں کرتی جب تک اس کی گردن تلوار اور تختہ دار کے درمیان نہیں رکھ دی جاتی ‘‘۔ خلیل جبران دنیا کے تیسرے بہترین اور ہردلعزیز شاعر و دانشور تھے ‘ شکسپئراور لائوزی کے بعد۔ ان کی کتابیں لاکھوں کی تعداد میں مختلف زبانوں میں شائع ہوئی ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں گندم کی کاشت سب سے اہم ہے۔ اسکے علاوہ چاول، باجرا، مکئی، گنّا، جو ، دالیں، پھل، روئی، سبزیاں وغیرہ کی کاشت ملکی ضروریات پوری کرنے اور قیمتی زرمبادلہ کمانے کا ذریعہ ہیں۔ ان اشیاء کے علاوہ تمباکو، تِل، مچھلی، جھینگے وغیرہ بھی قیمتی زرمبادلہ کمانے کا ذریعہ ہیں اور تو اور اب گدھوں کی کھالوں کی بھی بڑی مانگ ہے۔ سنا ہے میک اپ کی اشیاء میں استعمال ہوتی ہے ۔ ہمارے لوگ تو ماہر ہیں پیسے بنانے میں، اب مردہ، زندہ گدھوں کا گوشت عوام کو کڑاہی، پلائو میں کھلادیتے ہیںاور کھالیں برآمد کردیتے ہیں۔
پچھلے دنوں وزیر اعظم نے کسانوں کو ایک پُرکشش پیکج دیا ہے اور اس میں بہت سی سہولتوں کا ذکر ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اوّل تو عمران خان کی دھرنے کی دھمکی کسانوں کیساتھ اور دوئم بلدیاتی الیکشن کی آمد کی وجہ سے یہ پیشکش کی گئی ہے۔ نیت اچھی ہو یا خراب، مقصد کسانوں کو سہولتیں ملنے کا ہے۔ اگر واقعی ان کو یہ سہو لتیں مل جاتی ہیں تو ان کی مشکلات میں خاصی کمی ہوجائے گی۔
دیکھئے دنیا کی تقریباً 80فیصد آبادی زراعت پر انحصار کرتی ہے اور اس کیلئے اہم مسائل فصلوں کی صحیح تیاری اور ان کی فراہمی و دستیابی ہے۔ بین الاقوامی تجارتی مسائل ہیں۔ زمین کو فعال بنانے کے مسائل ہیں۔ زمین کا ضرورت سے زیادہ استعمال اور نقلی کھادوں کے استعمال سے ماحول پر بُرے اثرات پڑتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں آبادی زراعت پر نسبتاً کم فیصد انحصار کرتی ہے مگر حکومت بجٹ کا ایک کافی بڑا حصّہ اس پر خرچ کرتی ہے اور عوام کو اچھا صحتمند کھانا پینا ملتا ہے۔ آپ کو تعجب ہوگا کہ ہالینڈ (جو سطح سمندر سے کئی فٹ نیچے ہے) اور ڈنمارک جیسے ممالک سالانہ اَربوں ڈالر کی ڈیری کی اشیاء اور پھول و سبزیاں برآمد کرتے ہیں۔
ہمارے یہاں اس وقت دو بڑے مسائل ہیں، اوّل تیزی سے بڑھتی آبادی اور دوئم شہروں اور رہائشی اسکیموں کا بلاروک ٹوک پھیلائو۔ تمام کاشتکاری کا علاقہ سیمنٹ اور لوہے کی نذر ہو تا جارہا ہے۔ اسلام آباد کے شہریوں نے دیکھا ہے کہ کس طرح ان ہائوسنگ اسکیموں نے لاکھوں ایکڑ زرخیز زمین کو ہضم کر لیا ہے۔
ملک کی ترقی کی سست اور بے ڈھنگی رفتار کی وجہ سے میں نے آرمی چیف سے درخواست کی تھی کہ وہ فوج کے جوانوں کو تعمیراتی کاموں میں مصروف کردیں۔ فوج ایک منظم ادارہ ہے آپ ان سےتعمیری کام کرائیںوہ بہت اچھے طریقے سے کرتے ہیں۔ بشرطیکہ سربراہ صحیح ہدایات دینے والا ہو۔ میں اس چنے کی دال کی درآمد کے حوالے سے آرمی چیف کی توجہ ان ہزاروں ایکڑ غیراستعمال شدہ زمینوں کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں جو ملک کی ہر شاہراہ کے دونوں جانب نظر آتی ہیں۔ خاص طور پر ان ناہموار زمینوں کی جانب جو بارشوں کے پانی کے بہائو کی وجہ سے ناہموار ہو جاتی ہیں۔ یہ زمینیں عموماً نرم مٹی کی ہوتی ہیں اور آپ دیکھیں گے کہ ہموار ٹکڑوں کے درمیان پہاڑی نما بڑے بڑے ٹکڑے کھڑے ہوتے ہیں، یہ نرم مٹی کے ہیں اور ان میں نہ ہی چٹانیں ہیں اور نہ ہی بڑے پتھر۔ حکومت فوج کے انجینئرز کو کچھ ہیوی یعنی بھاری مشینری (انجینئرنگ کورکو) دیدیں کہ وہ یہ زمینیں ہموار کردیں اور اس کیلئے کسانوں سے معاوضہ نہ مانگیں۔ جب یہ زمینیں ہموار ہو جا ئینگی تو کسان فوراً کاشت شروع کردینگے اور ملکی ضروریات کیلئے اور معیشت کیلئے نہایت مفید ثابت ہونگی۔
اسلام آباد سے لاہور جاتے وقت راستے میں لاتعداد ایسے علاقے نظر آتے ہیں۔ دیکھئے وقت آگیا ہے کہ انسان خاموش بیٹھا تماشائی نہ بنا رہے۔ ہمیں اچھے اور ضروری کاموں کی خود شناخت کرنا چاہئے اور اسکے کرنے میں پہل کرنا چاہئے۔ آج سے40 سال پیشتر اگر میں بھی یورپ میں بیٹھ کر زبانی جمع خرچ کرتا رہتا اور مشورے دیتا رہتا تو سوچئے ملک کا کیا حال ہوتا۔ 1971 ءاور 1974 کے بعد میں نے خود یہ اندازہ کیا کہ ملک کی سلامتی اور وجود انتہائی خطرےمیں ہے۔ میں نے نہایت تابناک ، روشن مستقبل اور اعلیٰ نوکری کو خدا حافظ کہا اور اپنی خدمات پاکستان کو پیش کردیں۔ بہت مشکلات اور سازشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ چھ ماہ بعد 3 ہزار روپیہ کی تنخواہ ملی اور 25 سال بعد میں نے ملک کو ناقابل تسخیر دفاع مہیا کردیا اور دشمن کو للکارنے کے قابل کردیا اور وہ بھی صرف 7سال میں تو جب25سال بعد ریٹائر ہو ا تو پنشن صرف 4467 روپیہ ماہانہ ملی۔ اس دوران میں نے حکومت سے یا کسی ادارہ یا شخص سے نہ صرف ایک گز زمین بلکہ ایک روپیہ بھی نہ لیا۔ میں 15 برس یورپ میں رہا تھا میری بیگم بھی ملازمت کرتی تھیں، ہم نے جو بچت کی تھی وہ ماہانہ آمدنی والے اکائونٹ میں جمع کرادی تھی اور اس کی مدد سے عزّت کی اور ایمانداری کی زندگی گزاری۔ بعد میں جو سلوک ہوا وہ تو ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے اور عوام خود ہی فیصلہ کرینگے۔ ہم نے یہ کام کسی انفرادی ادارہ یا شخص کیلئے نہیں کیا بلکہ اپنے ملک کی سلامتی اور عزّت کیلئے کیا تھا اور ہمارا ضمیر مطمئن ہے کہ وقت کے بلاوے پر ہم نے نگاہ نہ پھیری اور نہ اپنے ذاتی مفاد یا مستقبل کا سوچا اور بغیر کسی لالچ و ہچکچاہٹ کے خون و پسینہ دے کر ملک کی صحیح خدمت کردی۔ یہ ملک کی خدمت ہے کہ آپ اس کو طاقتور اور مضبوط بنادیں۔
تازہ ترین