• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ابراہم لنکن جب امریکہ کے صدر کے منصب پر فائز ہوئے تو امریکہ اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا تھا۔معاشی اور سماجی وجوہات کی بناء پر غلامی کی حامی اور مخالف ریاستوں میں تنائو اپنے عروج پر تھا۔ ابراہم لنکن غلامی کی مخالفت کرنے کے حوالے سے معروف شخصیت تھے۔ لہٰذا غلامی کے حامی جنوبی ریاستوں میں ان کے حد درجہ مخالف تھے۔ جب 1860ء میں ریپبلکن پارٹی کے پہلے کامیاب صدارتی امیدوار بنے تو جنوب کی پندرہ میں سے دس ریاستوں میں سے ان کو ایک بھی ووٹ نہ مل سکا۔ اس کی وجہ ابراہم لنکن کی غلامی کے خاتمے کی خواہش تھی۔ ان کے صدر منتخب ہوتے ہی جنوب کی ریاستوں نے علیحدگی کے اشارے دینا شروع کر دیئے۔ ان کے صدارتی عہدہ سنبھالنے سے قبل ہی اس کے باضابطہ اعلان شروع کر دیئے گئے۔1861ءمیں غلامی کی حامی 6 ریاستوں نے اپنا علیحدہ آئین بنا کر Confederate States of America قائم کر دی۔ ابراہم لنکن کیلئے یہ صورتحال بڑی پریشان کن تھی۔ وہ کسی قیمت پر ریاستوں کی علیحدگی قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ اور قانونی راستہ اختیار کر کے غلامی کا خاتمہ بھی چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے 1861ء میں جنوبی ریاستوں کے سیاستدانوں سمیت ملک کے نمائندہ سیاستدانوں کی Piece Conference بلائی ۔ لمبے چوڑے بحث و مباحثے ہوئے مگر جنوب والے کسی معاہدہ پر پہنچنے سے صاف انکار کر گئے۔ یہ ہتھیاروں کے بغیر امن قائم کرنے کی کوشش کا خاتمہ تھا۔ مگر ابراہم لنکن نے پھر بھی حملے میں پہل نہ کی۔ مگر1861ء میں قلعہ سمٹر پر جنوبی ریاستوں کی فوج نے مرکزی حکومت کی فوج پر حملہ کر دیا۔ پیمانہ صبر لبریز ہو گیا ۔ ابراہم لنکن نے جوابی حملے کا حکم دے دیا۔ اور نہ صرف یہ حکم دیا بلکہ بطور کمانڈر انچیف اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا شروع کر دیا۔ اس نے پھر پروا نہیں کی کہ بحری راستوں کی ناکہ بندی کیسے کرنی ہے ۔ فنڈز کی فراہمی کو کیسے ختم کرنا ہے۔ اس نے غلامی کی حامی ریاستوں کے ہزاروں حامیوں کو پابند سلاسل کر ڈالا۔ کانگریس سے Confiscation Act. منظور کروا کر غلامی کے خاتمے کا قانونی قدم اٹھا ڈالا۔ اس دوران اس کو شدید سیاسی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ابتداء میں خیال تھا کہ یہ جنگ 90 روز چلے گی مگر جنگ طویل ہو گئی۔ پھر طوالت کی وجہ سے سیاستدانوں کے ایک گروہ کا خیال تھا کہ جنگ کی وجہ ابراہم لنکن کا غیر لچکدار رویہ ہے۔ اور جنگ ناکام ہو چکی ہے۔ لہٰذا مصالحت کر لینی چاہئےتھی۔ جبکہ ایک دوسرے گروہ کا خیال تھا کہ ابراہم لنکن کو اس سے زیادہ مستعدی سے جنگ کرنی چاہئے۔ اور وہ سست روی یا نیم دلی سے جنگ کر رہا ہے۔ اسی دوران برطانیہ کے بحری جہاز کا امریکی بحریہ سے تنازع سامنے آیا جو کہ امریکہ برطانیہ جنگ تک جا سکتا تھا۔ مگر ابراہم لنکن نے تنازعے کو فوری حل کیا۔ کیونکہ امریکہ کی اندرونی صورتحال کے سبب بیرونی محاذ نہیں کھولا جا سکتا تھا۔ مگر ابراہم لنکن غلامی کے خاتمے کے عزم پر قائم رہے ۔ نتیجتاً باغی ریاستیں مرکزی حکومت سے شکست کھا گئیں اور امریکہ میں غلامی اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ پرناکامیوں کے سبب غلامی کے حامیوں کے دلوں میں الائو دہک رہا تھا۔ 1865ء میں وہ ایک ڈرامہ دیکھ رہے تھے کہ غلامی کے حامی ایک معروف اداکار جان ولکیز بوتھ نے ان کو گولی مار کر قتل کر دیا۔ " روح سیاست " ابراہم لنکن پر شاندار ڈرامہ تحریر ہوا اس کے آخری منظر میں جب ابراہم لنکن گولی کھا کر گرے ہوتے ہیں توا سٹاٹن کہتا ہے۔ " لنکن ہمارے اور دنیا کیلئے بس اپنی یادگار چھوڑ گئے۔" اور لنکن کی یادگار غلامی سے نجات مضبوط مرکزی امریکی حکومت اور مستحکم معیشت تھی۔ اگر ہم غور کریں تو پاکستان کے موجودہ حالات اس وقت امریکہ کے اس وقت کے سیاسی حالات سے بہت ملتے ہیں۔ بس اب غلامی کے مسئلے کی جگہ پر انتہاء پسندی کے مسئلے کو رکھ لیں۔ کیونکہ انتہاء پسندی تو غلامی سے بھی زیادہ خوفناک ہے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ سیاسی قیادت کو انتہاء پسندی سے نمٹنے کیلئے انہی جیسے حالات کا سامنا ہے۔ جیسا کہ ابراہم لنکن کو کرنا پڑا۔ انتہاء پسندی کی اولاد دہشت گردی کے طور پر ہمارے سامنے کھڑی ہے۔ حکومت نے کوشش کی کہ گفت و شنید کے ذریعے کوئی راستہ نکالے مگر یہ سرگرمی مطلوبہ نتائج نہ دے سکی اور حملے بڑھتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ بھر پور فوجی کارروائی کا آغاز کرنا پڑا۔ فوجی کارروائی کچھ طوالت کا شکار ہے اور مصالحت کی آوازیں ابھی بھی اٹھتی ہیں۔ دیگر مخالفین یہ الزام لگاتے نہیں تھکتے کہ حکومت یہ سب کچھ نیم دلی سے کر رہی ہے۔ اگر آپ دیکھیں تو اسی نوعیت کے حالات کا سامنا ابراہم لنکن کو کرنا پڑا تھا۔ لنکن اپنے اقدامات میں کسی کی پروا نہ کرتے ہوئے مشغول رہا اور پاکستان کی موجودہ حکومت بھی مشغول ہے۔ امریکہ میں غلامی ایک نظریہ اور عملی ادارے کے طور پر قائم تھی ۔ پاکستان میں انتہاء پسندی ایک نظریے کے طور پر جب کہ دہشت گردی انتہاء پسندی کے نتیجے کے طور پر موجود ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے قائم نہیں کی جا سکتی کہ ہماری مسلح افواج کمال بہادری اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے ساتھ قربانیاں پیش کر رہی ہیں۔ پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیاں مکمل صلاحیتیں بروئے کار لا رہی ہیں تا کہ دہشت گردی کے ناسور کو ختم کیا جا سکے۔ مگر ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ دہشت گردی انتہاء پسندی کی کوکھ میں پلتی ہے ۔ اگر انتہاء پسندی برقرار رہی تو دہشت گردی کا عفریت دوبارہ کسی وقت بھی ہمیں نگلنے کیلئے پھر آ دھمکے گا۔ انتہاء پسندی سے میری مراد قومی مزاج ہے جو جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ آپ اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں تک میں چلے جائیں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے اور دوسروں کے مذہبی جذبات کو روندنے کی روش عام ہے۔ خیال رہے کہ جب ہم دیگر مذاہب کے نظریات کو نظر انداز کرنے کی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں تو دوسرے مسالک کے لوگ بھی انہی رویوں کا اظہار کرتے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جید علماء جو غیر سیاسی ہو ں، ان کے سامنے ریاست کی جانب سے نافذکئے گئے اسلامی قوانین کو ایک بار پھر رکھا جائے۔ تا کہ اگر ان میں کوئی سقم ہے تو ان کو علماء کی زیر نگرانی رفع کر دیا جائے۔ تعلیمی اداروں میں باقاعدہ حکم دیا جائے کہ کسی دوسرے مذہب کے حوالے سے تنقید نہیں کی جائے۔ اور اس حکم پر عمل درآمد کیلئے نگرانی کا مئوثر نظام قائم کیا جائے۔ اسی طرح فلم ، ٹی وی اور اخبارات سے وابستہ افراد کی کونسل قائم کی جائے جو اس امر کو یقینی بنائے کہ کسی بھی نوعیت کا انتہا پسندانہ مواد طبع یا نشر نہ ہوسکے۔ سعادت حسن منٹو نے اپنے افسانے "مصری کی ڈلی" میں زندگی پر خوبصورت تبصرہ کیا ہے کہ "زندگی کیا ہے؟ یہ بھی میری سمجھ میں نہیں آتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اونی جراب ہے جس کے دھاگے کا ایک سرا ہمارے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے۔ ہم اس جراب کو ادھیڑتے رہتے ہیں جب ادھیڑتے ادھیڑتے دھاگے کا دوسرا سرا ہمارے ہاتھ میں آ جائے گا تو یہ طلسم جسے زندگی کہا جاتا ہے ٹوٹ جائے گا۔" انتہاء پسندی بھی قومی زندگی کو ادھیڑتے رہی ہے اگر ادھڑتے گئے تو ادھڑ ہی جائینگے۔
تازہ ترین