حضرت جوش کا یہ کہنا پتھر پر لکیر ہے کہ ؎
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ
اور اردو کے ایک بے مثل شاعر یاس یگانہ چنگیزی نے واقعہ کربلا کو دریا کو اس طرح کوزے میں بند کر دیا ؎
ڈوب کر پار اتر گیا اسلام
آپ کیا جانیں کربلا کیا ہے
نواسہ رسولؐ جگر گوشہ بتولؓ سید الشہدا امام عالی مقام سید امام حسینؓ نے کربلا کے مقام پر اپنے خاندان اور اپنی عظیم قربانی دے کر رہتی دنیا تک نہ صرف امت مسلمہ بلکہ تمام انسانیت کو یہ پیغام دیا ہے کہ ظاہری زندگی اصولوں اور حق کے سامنے ہیچ ہے اور جو عظیم لوگ اللہ کیلئے اور اس کے دین کے استحکام کیلئے جان کی قربانی دیتے ہیں وہ امر ہو کر ہمیشہ زندہ و تابندہ رہتے ہیں جیسے امام عالی مقام اور خاندان اہل بیت کی شہادت ہے۔ یزید اور اس کے خاندان کا نام و نشان مٹ گیا ہے اگر ذکر ہے تو اس کلنک کے ساتھ، شہادت حسینؓ کی تمام تر ذمہ داری یزید اور اس کے ساتھیوں پر عائد ہوتی ہے جو اسلام کے نظام اور اللہ کی حکمرانی کو ختم کر کے انسان کی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے اور بضد تھے کہ امام عالی مقامؓ اور ان کے ساتھی یزید کی بادشاہت تسلیم کرتے ہوئے اس سے بیعت کرلیں کہ یہ بات نواسہ رسولؐ جگر گوشہ بتولؓ کو کیسے قبول ہوسکتی تھی کہ وہ عظیم ہستی تھے جن کے بارے میں رحمت اللعالمینؐ کا ارشاد ہے کہ ’’حسن و حسین دنیا میں میرے دو پھول ہیں‘‘۔ حدیث مقدس ہے کہ سرور کائناتؐ نے فرمایا کہ ’’جس نے ان دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی‘‘۔ آپ جنابؐ جگر گوشہ بتول اما م عالمی مقام ؓ سے کس قدر محبت کرتے تھے اس کا ہزار بار احادیث اور اس دور کی تاریخ میں ذکرملتا ہے کہ سرور کائناتؐ نماز کے دوران سجدے میں ہوتے تو امام حسینؓ ان کی پیٹھ پر بیٹھ جاتے اور رسول اللہؐ نے سجدہ کو اس وقت طویل کردیا جب تک آپؓ اتر نہیں جاتے۔ روایت ہے سیدنا امام حسینؓ کا چہرہ مبارک رسول اللہ کے چہرہ انوار سے مشابہ تھا۔ آپؓ کی آغوش نبوت میں تربیت ہوئی اور ظاہر ہے دنیا کی تمام تر عظمتوں کے ساتھ وہ ہستی کتنی عظیم ہوگی اور یہی وجہ ہے کہ جب دین اسلام کے نظام خلافت کو ملوکیت اور موروثیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو امام عالی مقام اما م حسینؓ اسے کیسے قبول کرسکتے تھے اس طرح حسینیت یزیدیت کے مدمقابل چٹان بن گئی اور یہ رسم حسینیؓ آج بھی جاری و ساری ہے اور جب تک زمین پر اللہ کی حکمرانی قائم نہیں ہوتی یہ معرکہ حق و باطل جاری رہے گا۔ حسین کا ماتم امت مسلمہ ہی نہیں ساری دنیا میں کیا جاتا ہے اور عظمت کا جو مینار شہادت حسینؓ سے سربلند ہوا وہی نہ صرف حق ہے بلکہ ہر وہ شخص جو سچائی اور انسانوں کی بڑائی کیلئے جدوجہد کرتا ہے وہی عظیم کہلاتا ہے۔
امام عالی مقامؓ امت مسلمہ کو آواز دے سکتے تھے لیکن انہوں نے امت میں فتنہ و فساد برپا نہیں کیا انہوں نے امت کو بغاوت پر آمادہ نہیں کیا بلکہ اپنے موقف پر ڈٹ گئے اور اپنے خاندان کے 72 افراد کو لیکر کربلا کے مقام پر قیام کیا۔ واضح رہے کہ قافلہ حسینؓ میں صرف ایک شخص حضرت حبیب ایسے تھے جو خاندان اہل بیت سے تعلق نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ امام حسینؓ کے بچپن کے دوست تھے اور قافلے میں شامل ہوگئے۔ کربلا کے مقام پر یزیدی فوج قافلہ حسینؓ کے سامنے آگئی اور اصرار کیا گیا کہ وہ یزید سے بیعت کرلیں لیکن حضرت امام عالی مقامؓ نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اور ’’اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد‘‘ اسلام کو اپنے اور خاندان کا خون دے کر زندہ جاوید کردیا۔ قابل احترام روحانی شخصیت بابا عرفان الحق نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’’حضرت امام حسینؓ کی شکل میں اللہ کے رسولؐ نے امت کو تحفہ دیا کہ لوگوں پر اللہ کی حکومت قائم ہو جائے، بندوں پر بندوں کی حکومت قائم نہ ہو اور اس کو روکنے کیلئے ہر قیمت پر یزید کی بیعت نہ کرنے کا فیصلہ کیااور دیکھیں کہ آپ کے فیصلے کی قدروقیمت کو بعد میں سب نے تسلیم کیا کہ امام عالی مقامؓ کا فیصلہ درست تھا۔ امام حسینؓ نے یہ پیغام دیا کہ رہتی دنیا تک انسانوں پر انسان کی حکومت برداشت کرو گے قبول کرو گے تو تذلیل تمہارا مقدر ہوگی اگر بندے پر اللہ کی حکمرانی قبول کرو گے تو عزت و توقیر تمہارا مقدر ہوگی اور وہ قانون، وہ سلسلہ، وہ طریقہ رسول ؐ اللہ نے جاری کیا تھا کہ انسانوں پر اللہ کی حکمرانی ہو آج ناپید ہے کہیں نظر نہیں آتا او ر یہی وہ بنیادی مقصد تھا جس کیلئے حضرت امامؓ نے عظیم شہادت پیش کی‘‘۔ اللہ کرے عظمت شہادت حسینؓ اسی جوش و جذبے کے ساتھ امت مسلمہ میں اتر آئے، ہمارا ایمان ہے کہ ایسا ہوگا اور ضرور ہوگا اسی میں مسلمانوں ہی نہیں ساری انسانیت کی نجات اور بھلائی ہے۔