• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم اس بات کا انتہائی گہرائی تک تجزیہ کرسکتے ہیں کہ تمام تر معروضات اور ’’اگر، مگر‘‘ کے باوجود ٹرمپ کس طرح صدر منتخب ہوگئے ۔ حتمی بات یہ ہے کہ وہ الیکٹوریٹ کو مس کلنٹن کی نسبت بہتر سمجھ چکے تھے ۔ تھامس فلپ ا ونیل (امریکی سیاست دان)کا کہنا ہے…’’تمام سیاست مقامی ہوتی ہے ‘‘۔ یقینی سیاست کا تعلق مقامی معروضی حالات سے ہوتا ہے۔ ٹرمپ اس حقیقت کی تفہیم ڈیموکریٹ،حتیٰ کہ اپنی رپبلکن پارٹی اور میڈیا سے کہیں بہتر انداز میں کرچکے تھے ۔اُنہیں سمجھ آچکی تھی کہ مایوسی کا شکار سفید فام امریکیوں کو کیونکر ترغیب دینی ہے ، وہ جان چکے تھے کہ امریکہ میں ابھی تک کون سے تعصبات زندہ ہیں اور انہیں کس طرح ہوا دینی ہے ۔ اور وہ جانتے تھے کہ منفی حربے کس طرح استعمال کرنے ہیں۔ وہ جو اس ’’اپ سیٹ ‘‘ سے چکرا کر رہ گئے ہیں، اُن کا خیال تھا کہ ٹرمپ ایک چھوٹی سی سلطنت، جو اُس نے خود ہی تخلیق کی ہے، کا کھلاڑی ہے ، اور اس کے بیانات، دعوے اور حرکات صرف اُس کی مخصوص فطرت کا اظہار تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ اس تا ثر سے بڑھ کر تھے ۔ وہ درمیانی طبقے سے تعلق رکھنے والے تعلیم یافتہ افراد ، جو میڈیا پر محو ِتکلم رہتے ہیں اور اپنی فہم سے بڑھ کر ابلاغ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کے امیدوار نہیں تھے ۔ چونکہ یہ گروپ مرکزی میڈیا کا بیانیہ تشکیل دیتا ہے ، تو یہ اپنے ہی بیانات کی گونج سن کر اسے حقیقت سمجھ بیٹھے ۔ تاہم یہ ایک مذاق نکلا، یہ ٹرمپ کے ناقدین تھے جو اپنا سامنہ لے کر رہ گئے ۔
امریکی صدارتی انتخابات مقبول عام ووٹنگ کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ اس میں حصہ لینے والی پارٹیاں اور امیدوار اس بات کو سمجھتے ہیں، اور اسی طرح رائے دہندگان بھی ۔ اس سے قطع نظر کہ مقبول عام ووٹ کسے زیادہ ملے ، یہ ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جو واضح برتری حاصل کرنے میں کامیاب رہے ۔ اگر کھیل کا میدان ناہموار تھا، تو یہ ناہمواری ٹرمپ کے خلاف زیادہ تھی کیونکہ وہ کلنٹن اور طاقتور امریکی میڈیا، جو مس کلنٹن کی حمایت کررہا تھا، کے خلاف لڑرہے تھے ۔ اگر ان نتائج نے امریکہ کو چونکا دیا ہے تو یہ کہنا درست ہوگا کہ ان سے وہ لوگ سکتے میں رہ گئے ہیں جو میڈیا کی ’’پنڈت گیری‘‘ پر یقین رکھتے تھے ۔ یہ نتائج اُن افراد کے لئے ہرگز حیران کن نہیں جنہوں نے ٹرمپ کو ووٹ دئیے اور اُنہیں صدارت کے منصب پر فائز کیا۔
کیا بل کلنٹن نے 1992 ء کے انتخابا ت میں یہ نعرہ لگاکر کامیابی حاصل کی تھی…’’اصل مسئلہ معیشت کا ہے، احمق‘‘۔ اس مرتبہ ٹرمپ محنت کش امریکی طبقے سے مخاطب ہوئے ، وہ طبقہ جو گلوبل ورلڈ میں معاشی طور پر پریشانی کا شکا رتھا۔ غربت اور مالی تنگی کی آندھی میں سیاسی طور پر درست اصول اور فیاضی کے پھول جھڑ جاتے ہیں۔ امریکی ناراض تھے کیونکہ اُن کی ملازمت کے مواقع امریکہ سے باہر منتقل ہوچکے تھے ۔ وہ مہاجرین کی آمدپر ناراض تھے کیونکہ وہ کم تنخواہ پر کام کرکے اُن کی ملازمتوں کے مواقع چرا رہے تھے ۔ اس طرح وہ ان کے ملک میں ہی ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہے تھے ۔ وہ مذہبی اقلیتوں اور جلد کی مختلف رنگتوں کو اپنے کلچر میں مداخلت کے مترادف سمجھ رہے تھے ۔ وہ ان کو خوش آمدید کہنے کے لئے تیار نہ تھے ۔
ماضی ہمیشہ ہی خوشنما دکھائی دیتا ہے ۔ مایوسی کے شکار امریکیوں کے ذہن میں اُن کے سنہرے ماضی، جب ہر طرف طمانیت تھی، کی جھلک نمایاں کی گئی، اور ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ وہ اُس وقت کو واپس لائے گا۔ اُنھوںنے امریکیوں کو بتایا کہ اگر اشرافیہ بدعنوان نہ ہوتی تو وہ تجارتی حدود قائم کرتے تاکہ ملازمت کے مواقع باہر نہ جاتے۔ اگر اشرافیہ اُن کی تکلیف سے لاتعلق نہ ہوتی تو وہ مہاجرین کو ملک میں ملازمتوں کے مواقع پر ہاتھ صاف نہ کرنے دیتے۔ اگر اُنہیں امریکی سیکورٹی کا ذرا سا بھی احساس ہوتا وہ انتہا پسندی کے مراکز سے مہاجرین کو امریکہ میں آنے کی اجازت نہ دیتے ۔ جب ٹرمپ کے الفاظ میکسیکو ، مسلمانوں یا سیاہ فاموں کو اشتعال دلاتے تو وہ اپنے ووٹروں سے مخاطب ہوتے ہوئے تاثر دیتے کہ سیاست میں اخلاقی طور پر درست ہونے کا مطلب منافقت ہے ۔ امریکہ کے مقامی سفید فام باشندے مہاجرین کو معاشی، جسمانی اور ثقافتی طو رپر ایک خطرہ سمجھتے ہیں۔ وہ اُن کی آمد کو سیکورٹی رسک قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ جب ٹرمپ ان مہاجرین پر حملہ کررہا تھا تو مقامی باشندے اُنہیں صاف گو اور کھرا انسان سمجھتے ۔ دراصل سیاسی درستی تعصبات کو چھپانے کا نام ہوتی ہے ، لیکن ا س سے تعصبات زائل ہر گز نہیں ہوتے ۔ جب یہ تعصبات کسی معاشرے میں رچ بس جاتے ہیں تو اس سے ایسا معاشرہ وجود میں آتا ہے جہاں معاشی اور سماجی طور پر مساوی حقوق کے لئے لڑنا پڑتا ہے۔
عدم تحفظ اور پریشانی کے زمانے میں سیاسی درستی کاخون سب سے پہلے ہوتا ہے ۔ ہم نے ایسا نائن الیون کے بعد ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس کے نتیجے میں دبے تعصبات اور عدم برداشت کھل کر سامنے آگئے ۔ ہم نے ان انتخابات کے موقع پر بھی اسی عدم برداشت کو سیاسی رنگ میں رنگتے دیکھا ہے ۔ وہ لوگ جو سمجھتے تھے کہ ٹرمپ کی نسل پرستی اور عدم برداشت اُن کا سیاسی طو رپر نقصان کردے گی کیونکہ وہ تعلیم یافتہ افراد کی حمایت سے محروم ہوجائیں گے ، وہ سب غلطی پر تھے ۔ اگرچہ وہ تعلیم یافتہ طبقہ ٹرمپ کے نسل پرستانہ جملوں اور سیاسی غلطیوں پر پریشان ضرورتھا لیکن ووٹ دیتے وقت اُنھوں نے سیاسی اخلاقیات کی بجائے سیاسی حقائق کا دامن تھاما۔
چنانچہ اب ٹرمپ کی صدارت سے کیا ہوگا؟ اس سے دومعروضات سامنے آئیں گے ۔ ایک یہ کہ میڈیا کے ذریعے خوف کے غبارے اُڑانے سے مقصد پورا نہ ہوا۔ یہ ایک پیشہ ور مشق تھی، جو اپنے انجام کو پہنچی۔ تاہم اب جبکہ مارکیٹنگ کا مرحلہ تمام ہوا، اور ٹرمپ اپنے منصب پر موجود ہیں ، تو اُن کی اپروچ میںلاابالی کی بجائے ذمہ داری دکھائی دے گی۔ وہ ہیلتھ کیئر، تجارت، مہاجرین ، سماجی تقسیم اور دیگر مسائل پر توجہ دیں گے تو عدم برداشت خود بخود کم ہوجائے گی۔ تاہم اگر صدر ٹرمپ اور امیدوار ٹرمپ ایک جیسے ہی رہے تو پھر اُ ن کی مدت ِ صدارت امریکہ اور باقی دنیاکے لئے ایک ڈرائوناخواب بن جائے گی۔ عوام، سامان، رقم اور افرادی قوت کی دنیا بھر میں ترسیل باہم مربوط ہے ۔ اس نے دنیا کے فاصلے کم کرکے دئیے ہیں۔ کوئی ملک، چاہے وہ کتنا ہی طاقتور اور خوشحال کیوں نہ ہو، اپنی سرحدیں بند نہیں کر سکتا۔ کیا ایک صدر، چاہے وہ کتناہی پرعزم کیوں نہ ہو، وقت کا پہیہ واپس گھما سکتا ہے ؟کیا وہ طلب اور رسد کے اصول کی نفی کرسکتا ہے ؟ مسائل کو اجاگر کرکے الزامات کی انگشت نمائی کرنا بہت آسان ہے ، ان کا حل تلاش کرنا بہت مشکل۔
اب امیدوار ٹرمپ کا مسائل کو اجاگر کرنے کا دور تمام ہوا، صدر ٹرمپ کا مسائل حل کرنے کا دور شروع ہوا۔ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں نظریات کی موت واقع ہوچکی ہے ۔مسائل کے حل کے نظام کے بغیر کوئی چیز عوام کے لئے قابل ِ قبول نہیں۔ بریگزٹ، یورپ میں قوم پرستی اور حتی کہ داعش بھی مایوسی کی مختلف اشکال ہیں۔ ان سب سے ایک چھڑی، عسکری بازو، سے نہیں نمٹاجاسکتا۔ اگر ایسا کیا گیا تو دنیا مزید عدم استحکام کا شکار ہوجائے گی۔ مسلم اکثریت والی ریاستیں ، جیسا کہ پاکستان، اپنے ہاں پائی جانے والی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف لڑرہی ہیں۔ چنانچہ اُنہیں امریکی صدارت کے خلاف نفرت پر آسانی سے اکسایا جاسکتا ہے ۔ امید کی جانی چاہئے کہ صدرٹرمپ اپنے بیانات سے اس کا موقع نہیں دیں گے ۔ نائن الیون کے بعد پاکستان کو یہ سمجھنے میں بہت عرصہ لگ گیا کہ دہشت گردی اُن کے ہاں پائی جانے والی ایک حقیقت ہے ، یہ کسی کی سازش کا نتیجہ نہیں۔ پہلے پہل یہ سمجھا گیا کہ اگر خطے میں امریکی مداخلت رک جائے تو شمالی وزیرستان امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ تاہم ایسا نہ ہوا۔ اس وقت جب کہ ٹرمپ وائٹ ہائوس میں آچکے ، مشرق ِوسطیٰ اور افغانستان ابھی تک سلگ رہے ہیں۔ ضروری ہے کہ ٹرمپ دہشت گردی کو اسلام اور مغرب کے درمیان جنگ قرار دینے سے گریز کریں۔ یہ آگ تعصبات کے پٹرول سے نہیں، تفہیم کے پانی سے بجھے گی۔


.
تازہ ترین