• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
29اکتوبر کو شب نو بج کر دس منٹ پر لندن سے مبین رشید کا واٹس ایپ پیغام ہمارے لئے خوشگوار حیرت کا باعث تھا۔ ’’بریکنگ نیوز‘‘ کے Header کے ساتھ اُس نے لکھا تھا، ریحام خان انٹرنیشنل میڈیا کانفرنس میں شرکت کے لئے انگلینڈ پہنچ گئیں۔ اس کے ساتھ ایک تصویر بھی تھی۔ ریحام خان ہیتھرو ایئرپورٹ پر میڈیا کانفرنس کے میزبان مبین رشید سے خیر مقدمی گلدستہ وصول کر رہی تھیں۔ ریحام کا گلاب چہرہ ایک بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ، گلدستے میں سجے گلابوں کی طرح دلکش اور تروتازہ تھا۔ تحریک ِ انصاف لندن کے صدر بیرسٹر میاں وحید الرحمٰن بھی’’بھابھی‘‘ کے استقبال کے لئے ایئرپورٹ آئے تھے۔ واٹس ایپ میں ریحام کے لئے چند تعارفی سطور بھی تھیں،’’ موسٹ پاپولر اور لَوْ ایبل فی میل اینکر، سن شائن ریڈیو سے بی بی سی تک ۔۔۔ اور اِن دنوں ایک پاکستانی چینل پر’’ریحام خان شو‘‘ کر رہی ہیں۔ پاکستان کے طاقتور ترین اور مقبول سیاستدان، چیئرمین تحریک ِ انصاف عمران خان کے ساتھ شاد ی نے انہیں زندگی کی انتہائی بلندی تک پہنچا دیا ‘‘۔ میڈیا کانفرنس میں شرکت کے لئے ریحام خان کی آمد ہمارے لئے اس باعث حیران کن تھی کہ اس کانفرنس کے سلسلے میں مبین کئی ہفتوں سے ہمارے ساتھ رابطے میں تھا، وہ ہمیں لمحہ بہ لمحہ پیش رفت سے آگاہ رکھتا۔ پاکستان سے مہمانوں کی فہرست کی تیاری میں ریحام خان زیرغور ہی نہ آئی تھیں۔ اوراب اچانک اس کانفرنس میں شرکت کے لئے ریحام کی لندن آمدکی خبرآگئی تھی ، اگلے ہی روز عمران خان کے ترجمان نعیم الحق، میڈیا پر ریحام کی طلاق کی تصدیق کر رہے تھے اور پھر بااعتماد ذرائع سے بریکنگ نیوز کا سیلاب اُمڈ آیا، جتنے منہ اتنی باتیں، بعض باتوں کے قابلِ یقین ہونے کا تصور بھی محال تھا( جن کا حوالہ بھی ہمارے ذوق پر گراں گزرتا ہے)۔ شادی کی بریکنگ نیوز دینے والے سینئر اخبار نویس نے 21ستمبر کو میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کی ’’بریکنگ نیوز‘‘ دے دی تھی۔ احتیاطاً وہ ’’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ کے الفاظ استعمال کررہے تھے۔ اِس دوران حلقہ 122کے ضمنی انتخاب کی مہم جاری تھی کہ ایک دِن ریحام خان بھی گڑھی شاہو پہنچ گئیں اور خواتین کے ایک جلوس کی قیادت کرتے ہوئے ڈونگی گراؤنڈ سمن آباد میں عمران خان کے جلسے میں جا پہنچیں ۔ اپنی موجودگی کے بھرپور اظہار کے بعد وہ عمران کی تقریر سے پہلے ہی جلسہ گاہ سے چلی گئیں۔ 26اکتوبر کے زلزلے کے بعد وہ زخمیوں کی عیادت کے لئے لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور پہنچیں ۔ کہا جاتا ہے، ریحام کی یہ سرگرمیاں عمران کے لئے ناپسندیدہ تھیں۔ معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ گئے تو دونوں میں یہ معاہدہ ہوا کہ اِسے آئندہ عام انتخابات تک خفیہ رکھا جائے گا۔ دس سال قبل جمائما سے علیحدگی ہوچکی تھی(تب وہ دو بچوں کی ماں تھی)۔ دس سال کے بعد عمران نے ریحام سے شادی کر لی تھی۔ اب وہ ایک لااُبالی پلے بوائے نہیں، 62سال کی عمر کا سیاستدان تھا۔ اِسے احساس تھا کہ یورپ اور امریکہ جسے آزاد خیال معاشرے میں بھی لوگ اپنے لیڈروں کی ازدواجی زندگی کے متعلق بہت حساس ہوتے ہیں اور یہ تو پاکستان تھا۔
ریحام سے شادی تقریباً10ماہ رہی ۔ کہاجاتا ہے کہ عمران اپنے ذاتی دوستوں سے گزشتہ پانچ، چھ ماہ سے ریحام کے حوالے سے شکایات کا اظہار کرنے لگا تھا۔ عمران سے دو، ڈھائی عشروں کی قربت کے دعویدار کالم نگار کے بقول ، ایک سفر کے دوران بچوں کی شادی کی بات چھڑی تو ایک ترنگ کے ساتھ عمران بولا، ’’اپنے بیٹوں کی شادیاں میں خود کروں گا‘‘۔ ’’کیوں‘‘؟ ۔۔۔’’اس لئے کہ میں خواتین کو خوب سمجھتا ہوں‘‘۔ تو کیا ریحام کو سمجھنے میں اس سے غلطی ہوگئی تھی؟اور یہ سوال بھی اپنی جگہ کہ علیحدگی کی خبر کو فی الحال خفیہ رکھنے پر اتفاق کے باوجود، خود عمران خان نے اپنے ترجمان کے ذریعے اس کا فوری افشاکیوں ضروری سمجھا؟ عجلت اور ایسی عجلت کہ اس سے اگلے روز ہونے والے بلدیاتی انتخابات کا بھی خیال نہ کیا۔ تو کیا انٹرنیشنل میڈیا کانفرنس میں شرکت کے ریحام کے اچانک فیصلے نے عمران کو اس اندیشے سے دوچار کردیا تھاکہ کہیں وہ اس کانفرنس میں منہ نہ کھول دے؟ (اور نجانے کیا کچھ کہہ گزرے)۔
طلاق کی خبر کے بعد بھی مبین رشید نے اطلاع دی تھی کہ ریحام خان نے میڈیا کانفرنس میں شرکت کنفرم کی ہے۔تو کیا انہیں خاموش رکھنے کی کوشش کامیاب رہی جو وہ کانفرنس میں شریک نہ ہوئیں۔ ادھر یہ سوال بھی موجود ہے کہ وہ کب تک خاموش رہیں گی؟ ریحام کے مزاج آشناؤں کے بقول، خاموشی کا عرصہ شاید زیادہ طویل نہ ہو۔
پنجاب کے12اور سندھ کے 8اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کی صورت میں پہلا مرحلہ مکمل ہوا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ سندھ کے نتائج میں ہمارے لئے کوئی بہت زیادہ حیرت کی بات نہیں۔( یہ ایک الگ موضوع ہے، جس کے لئے مفصل تجزیہ درکار ہے)جہاں تک پنجاب کا معاملہ ہے، تحریک ِانصاف کی کارکردگی ہماری توقع سے کہیں زیادہ ناقص رہی۔ عمران سے خیر خواہی کا وافر جذبہ رکھنے والے ایک تجزیہ کار کو تو1997یادآگیا، جب نوزائیدہ تحریکِ انصاف کو ملک بھر میںقومی یا صوبائی اسمبلی کی ایک بھی نشست نہیں ملی تھی۔ خود عمران خان دس ، گیارہ نشستوں پر اُمیدوار تھے اور ہرجگہ ان کی ضمانت ضبط ہوگئی تھی۔
اکتوبر2002میں وہ اپنے آبائی علاقے میانوالی سے صرف اپنی ایک نشست نکالنے میں کامیاب رہے لیکن 30اکتوبر 2011کے سونامی جلسے کے بعد یہ ایک مختلف تحریک انصاف تھی۔ مئی 2013کے عام انتخابات میں یہ ووٹوں کے لحاظ سے دوسری بڑی پارٹی بن کر اُبھری تھی۔ کے پی کے میں سنگل لارجسٹ پارٹی کی حیثیت سے اس نے مخلوط حکومت بھی بنا لی۔ پنجاب میں بھی صورتحال حوصلہ افزاء رہی تھی جہاں وہ پنجاب اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی قیادت کی حقدار قرار پائی تھی ۔
اگرچہ ڈھلوان کا سفر مئی 2013کے عام انتخابات کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا جب خود عمران خان ضمنی انتخابات میں میانوالی اور پشاورسے اپنی چھوڑی ہوئی سیٹیں بھی نہ بچاپائے۔ دھرنے کے بعد ہونے والے تقریباً سبھی ضمنی انتخابات میں بھی تحریک کو شکست کا سامنا تھا۔ لاہور کے حلقہ 122کے ضمنی انتخاب میں ایازصادق کی فتح کا مارجن دو، ڈھائی ہزار رہ گیا تھا۔ (یہاں صوبائی اسمبلی کی سیٹ تحریکِ انصاف نے جیت لی تھی) لیکن اس میں اصل کرشمہ علیم خاں کی ’’چمک ‘‘ کا تھا۔
تاہم لاہور سمیت پنجاب کے بڑے شہروں میں تحریکِ انصاف نے اپنے متعلق ایک طاقتور اپوزیشن کا تاثر بنالیا تھا جو بلدیاتی انتخابات میں پاش پاش ہوگیا۔ دھاندلی، دھاندلی کا کھمبا نوچنے کی بجائے کیا تحریکِ انصاف اس زوال پذیر صورتِ حال کا سنجیدگی سے جائزہ نہیں لے گی؟ ہم تو چوہدری سرور سے توقع کر رہے تھے، لیکن یہ سعادت شفقت محمود کے حصے میں آئی، کس باوقار انداز میں انہوں نے لاہور میں شکست کی ذمہ داری خود قبول کی اور یہ کہتے ہوئے پی ٹی آئی لاہور کے آرگنائزر کے عہدے سے مستعفی ہوگئے کہ اپنی طرف سے بھرپور کوشش کے باوجود وہ مطلوبہ نتائج نہ لاسکے، اچھی کارکردگی نہ دِ کھاسکے۔ویلڈن شفقت محمود!آپ بلدیاتی انتخابات میں تو اچھی کارکردگی نہ دِکھا سکے لیکن ایک اچھی سیاسی روایت کا احیا ضرور کر گئے۔
تازہ ترین