• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
راشد بٹ زندہ ہوتا تو کتنا روتا لیکن وہ تو کئی سال پہلے ہمیں روتا چھوڑ کے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رونے دھونے سے نجات پاچکا، سو راشد بٹ کے بغیر ہی جہانگیر بدر کو الوداع کہنا پڑا اور کتنا عجیب اتفاق ہے کہ حفیظ خان اور صلاح الدین درانی بھی کینیڈا سے آئے ہوئے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے وہ الیکشن کسی دیو مالا سے کم نہیں جب صدارت کے لئے حفیظ خان اور جہانگیر بدر میں جوڑ پڑا ،لیف رائٹ، دایاں بایاں، سرخاسبزا عروج پر تھے۔ حفیظ خان کیمپ سے نعرہ لگتا.......’’سبز ہے سبز ہے ایشیا سبز ہے‘‘ جہانگیر بدر کیمپ سے جواب آتا’’سرخ ہے سرخ ہے ایشیا سرخ ہے‘‘۔ یہ انکشاف تو بعد میں ہوا کہ یہاں سب کچھ زرد ہے، یرقان زدہ ہے اور یہ زردی آج تک ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ ہم نہ سبز ہوسکے نہ سرخ ،کبھی سرے محل ہوگئے کبھی پارک لین اور پاناما ہوگئے۔بنگالی سٹوڈنٹس کی بھاری اکثریت پروگریسو اور جہانگیر بدر کی سپورٹر تھی۔ وہ اپنے مخصوص بنگالی بھیگے لہجے میں نعرہ لگاتے........’’ہمرا صدر، تمرا صدر جہانگیر بدر جہانگیر بدر‘‘جواب آتا’’تیری آن میری آن حفیظ خان حفیظ خان‘‘ ۔جذبے جوان تھے کبھی گمان تک نہ گزرا، دھیان میں بھی نہ آیا کہ جلد ہی وہ دن ا ٓلیں گے جب ہم ایک دوسرے کو دفناتے پھررہے ہوں گے۔حفیظ خان پینل مع جاوید ہاشمی جیت گیا تھا۔جہانگیر بدر پینل سوائے راشد بٹ کے ہار گیا تھا۔لیکن رشتے ہمیشہ سرخرو اورباآبرو رہے۔ زندگی بھی ایک دوسرے کے لئے محبت اور احترام میں شرابور جب جب ملتے تب تب یاد آتا کہ گہری پیاس اور پانی کیسے ملتے ہیں۔ بدر بہت عجیب تھا، ماں اسے پیار سے’’بادشاہ‘‘ کہتی، بی بی بینظیر بھٹو اسے’’جے بی‘‘کہہ کے یاد کیا کرتی۔ اندرون شہر کا پالا ہوا جہانگیر بدر جیالا نہیں، جیالوں کا جیالا تھا جو زندگی بھر پوری جی داری کے ساتھ پیپلز پارٹی کے محاذ پر پہاڑ کی طرح ڈٹا رہا۔ ضیاء الحق کے بے رحم کوڑے اس طرح کھائے جیسے جمہوریت اپنی مخروطی انگلیوں سے اس کی کمر پر خارش کررہی ہو۔ یہ ان میں سے تھا جن کے بارے میں قدیم عرب فخر سے کہا کرتے تھے کہ ہمارا فلاں سوار ایک ہزار پر بھاری ہے۔ جنرل ضیاء پورے ملک پر سرد اندھیری رات کی طرح طاری تھا۔ بھٹو تختہ دار پر امر ہوچکا تھا، بینظیر بیگم بھٹو سمیت زخموں سے چور ملک سے دور جلا وطنی کاٹ رہی تھی،’’لیڈر‘‘ کان اور دُمیں لپیٹ کر اپنی اپنی پناہ گاہوں میں دبکے ہوئے تھے، پھانسیوں، کوڑوں،قلعوں، قیدخانوں،مقدموں کا موسم اپنے عرج پر تھا لیکن جہانگیر بدر ہر انجام سے بے پروا، بے نیاز بھٹو کی پیپلز پارٹی کا چراغ روشن رکھے ہوئے تھا۔ اس نے اپنے جسم کے لہو کو تیل کے طور پر استعمال کیا اور بدترین حالات میں بھی یہ چراغ بجھنے نہ دیا بلکہ اندھیرے کے تناسب سے اس کی لو میں اضافہ کرتا چلا گیا۔بینظیر بھٹو جب واپس آئی تو لاہور میں اس کے تاریخ شکن، تاریخ ساز استقبال کی مثال نہ پہلے تھی نہ آئندہ ہوگی۔ آج کا بڑے سے بڑا جلسہ جلوس اس استقبال کے سامنے عشر عشیر بھی نہیں کہ80ءکی دہائی اور آج کی آبادی میں زمین و آسمان کا فرق ہے تو اس استقبال کے پیچھے جہاں بھٹو کا مظلوم خون اور خود بینظیر بھٹو کی شخصیت اور شجاعت کا سحر تھا.......وہاں جہانگیر بدر کی جان توڑ محنت، صبر اور استقامت کا فیصلہ کن کردار بھی تھا۔ پھر کیبنٹ سے سینٹ تک کے زمانے بھی آئے لیکن مجال ہے جو ماں کے’’بادشاہ‘‘ اور بینظیر کے ’’جے بی‘‘ میں رتی برابر فرق بھی آ یا ہو۔ بچپن کے دوستوں سے لے کر ہیلے کالج اور لاءکالج کے ساتھیوں تک بدر، صرف بدر رہا۔ یہاں تک کہ خوبصورت کتابیں لکھنے سے لے کر ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد بھی بدر صرف بدر رہا.........پورا چاند، بدر کو کم سے کم لفظوں میں بیان کرنا ہو تو میں کہوں گا۔اندرون شہر+پیپلز پارٹی=جہانگیر بدر۔نہ بدر لاہور سے نکلانہ لاہور بدر میں سے نکلاکبھی علی بدر کبھی عثمان بھٹہ پیغام لاتے۔’’ناشتے پر کب آرہے ہیں؟‘‘پھر وہ جتنے چائو، رچائو اور وارفتگی سے کہتا........’’دیکھ ذرا کیسے کولے پاوے ہیں‘‘ ۔ پائے اس کی کمزوری تھے۔ یاد نہیں40فٹ اونچے سٹیج سے گر کر پائوں تڑوا بیٹھا تو پوری طرح ریکور کرنے، صحت مند ہونے کے بعد پائوں کی ہڈیاں جلد جڑنے کا سارا کریڈٹ پایوں کے نام کردیا کہ میں نے اتنے پائے نہ کھائے ہوتے تو ہڈیاں اتنی جلدی نہ جڑتیں۔ کسی مخصوص مچھلی کے جبڑوں کا سوپ اور چٹے چاولوں کا کومبی نیشن دوستوں کو زبردستی کھلانا اس کی بہت سی معصوم خوشیوں میں سے ایک تھی۔وہ رسمی اور غیر رسمی، ہر حوالہ سے بہت باخبر، باعلم اور پڑھا لکھا آدمی تھا۔ کچھ لوگ اس کے اندرون شہری لہجے سے دھوکہ کھاجاتے لیکن اسے یہ لہجہ پیپلز پارٹی کی طرح ہی پیارا تھا۔ آخری ملاقات میرے گھر پر ہی ہوئی،’’بادشاہ‘‘ اپنی تازہ تصنیف کے ساتھ آیا تو کچھ دوست پہلے سے موجود تھے۔ بدر نے ایک بائٹ سینڈوچ کی، ساتھ ایک بائٹ شامی کباب اور ایک چمچ دہی بھلیوں کا لیا تو باقیوں کو حیران دیکھ کر کہا.......’’آپ لوگ بھی اسی طرح کرکے دیکھو‘‘سب نے کیا اور جی بھر کر اس ’’نسخے‘‘ کی داد دی۔ بدر کچھ عرصہ سے بیمار تھا لیکن جو کرگیا، اس کی توقع نہیں تھی اسی لئے اس کے جانے کی خبر ہتھوڑے کی طرح لگی اور میں پوری کوشش کے باوجود کچھ لکھ نہیں سکا۔ میں اور میرا قلم دونوں پتھرا سے گئے تھے۔پیپلز پارٹی کے سینئر لوگ اسے لاء کالج گرائونڈ میں الوداع کہنے آئے تو بھلے لگے لیکن سچ یہ ہے کہ آصف علی زرداری علی بدر کے پاس ننگے پائوں بھی تعزیت کے لئے آئے تو کم ہے۔ماں کا بادشاہ، بینظیر کا جے بی اور ہمارا دوست رخصت ہوا تو یاد آیا.........سدانہ صحبت یاراںالوداع اے یار دلربا

.
تازہ ترین