مجھے حیرت ہے کہ آج کے دور میں بھی ایسے کچھ لوگ موجود ہیں جو سمجھتے ہیں یا بغیر سوچے ’’سمجھے‘‘ ہیں کہ اقبال آج RELEVANT(بامعنی) نہیں رہا ، تاہم یہ بات کوئی RELEVANTشخص نہیں کہتا کیونکہ دنیا بھر کے دانشور خواہ وہ کسی بھی قوم، مذہب یا زبان سے تعلق رکھتے ہوں، وہ آج کے دور میں اقبال کی معنویت کے قائل ہیں فیض نے تو اقبال کی فارسی شاعری کے تراجم بھی کئے ہیں چند برس پیشتر غالباً اسپین میں اقبال کے حوالے سے ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی، جس میں ایک سو سے زائد دنیا بھر کے دانشوروں نے شرکت کی اور اقبال کی فکر اور ان کے شعری POTENTIALکو بھر پور خراج تحسین پیش کیا تھا ۔ اقبال اردو زبان کا واحد شاعر ہے جو بین الاقوامی حیثیت کا مالک ہے پاکستان کے علاوہ ایران، تاجکستان، افغانستان، کشمیر اور دوسرے اسلامی خطوں میں تو اس کی حیثیت تقریباً قومی شاعر کی ہے لیکن اس سے باہر بھی اس عظیم شاعر کی عظمت کے گن گائے جاتے ہیں ! البتہ برائلر قسم کے بعض ترقی پسندوں اور اسلام پسندوں کو چیں بہ چیںہوتے ضرور دیکھا ہے جس کی وجہ خود اقبال نے بتا دی ہے ؎
زاہدِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی کو تنگ نظری کی وجہ سے اقبال کی شاعری کا کچھ حصہ پسند نہیں ہے تو نہ ہو مگر پورے اقبال کی نفی وہ کیسے کر سکتا ہے ۔تاہم اگر وہ کسی وجہ سے سمجھتا ہے کہ اقبال اپنی شاعری یا اپنی نثر کے حوالے سے (لاحول ولا)آج بالکل RELEVANTنہیں ہے ،تو کم از کم اس کا ’’جاوید نامہ ہی پڑھ لے جس کا اب تو اردو ترجمہ بھی دستیاب ہے، اقبال کے چار شعری مجموعے اردو اور سات فارسی میں ہیں اور اقبال نے زیادہ اردو کلام اور نثر سے بھی زیادہ اہم باتیں فارسی کلام یا انگریزی نثر میں کی ہیں۔اور اب فارسی اور انگریزی کے ترجمے بھی دنیا کی متعدد زبانوں میں ہو چکے ہیں، جو اکا دکا لوگ اقبال پر معترض ہیں، انہوں نے اقبال کو پڑھا ہی نہیں اور جو پڑھے لکھے ہیں انہیں اقبال آج بھی IRRELEVANTنہیں لگتا ، اقبال آج کا اور آنے والے زمانوں کا شاعر ہے، وہ ایک جن ہے اور بقول منیر نیازی جن کو گدگدی نہیں کرنا چاہئے وہ گدگدی کرنے والے کو مکھی بھی بنا دیتا ہے!
میرے نزدیک اقبال کی سب سے بڑی معنویت تو یہی ہے کہ وہ انسانی امکانات کی تعمیر کرتا نظر آتا ہے ،اس کی بے پناہ تخلیقی رو آپ کے اندر ایک طاقت پیدا کرتی ہے جو تعمیر ذات کے علاوہ تسخیر کائنات کے امکانات بھی لئے ہوئے ہے وہ ایسے سوالات اٹھاتا ہے جن کا جواب ابھی زمانے کو دینا ہے وہ تو خدا سے ہی سوال کرتا نظر آتا ہے ۔
روزِ حساب جب میرا پیش ہو دفترعمل
آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر
وہ زندگی کے متحرک پہلوئوں کا شاعر ہے جمود اس کے ہاں جگہ نہیں پاتا، اسے علم ہے کہ انسانی زندگی بلکہ خود کائنات بھی ابھی ارتقاء پذیر ہے ۔
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
اور وہ تو ’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘ کا قائل ہے وہ کہتا ہے ؎
آئین نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
تاہم میں اس مجہول سی بحث میں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا میں ذیل میں کچھ اشعار درج کر رہا ہوں جس سے اندازہ ہو سکے گا کہ اقبال اردو کی پوری شاعری میں ایک انوکھی آواز ہے ۔یہ آواز ہمیں امید دلاتی ہے عمل کی طرف بلاتی ہے، تسخیر کائنات کا درس دیتی ہے ، سرمایہ اور محنت کے تعلق کو واضح کرتی ہے، اللہ کے دربار میں انسان کی وکالت کرتی ہے، غلاموں کو آزادی کی طرف بلاتی ہے، احساسِ کمتری کے مارے ہوئے لوگوں کو اعتماد بخشتی ہے سو آئیں اس اقبال کے ساتھ تھوڑا سا وقت اور گزارتے ہیں ؎
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
ٹوٹی ہوئی طناب ادھر بکھری ہوئی ہے راکھ ادھر
کیا جانے اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں
اگر کج رو ہیں انجم آسان تیرا ہے یا میرا
مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا
عروجِ آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے
ہر دو بمنزلے رواں، ہر دو امیر کارواں
عقل بہ حیلہ می برد ، عشق برد کشاں کشاں
عقل اور عشق دونوں منزل کی طرف لے جانے والی ہیں عقل حیلےسے اور عشق کشاں کشاں منزل کی طرف لے جاتا ہے ۔
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودا کے خام خونِ جگر کے بغیر
اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظرکیا
تو رہ نوردِ شوق ہے منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
رنگ ہویا خشت وسنگ چنگ ہو یا صورت
معجزہ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح وشام پیدا کر
جہانِ تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ وخشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روح امم کی حیات کشمکش انقلاب
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحر بے کراں ہے زندگی
زندگانی کی حقیقت کوہ کن کے دل سے پوچھ
جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی
مجھے اقبال کی معنویت ظاہر کرنے کیلئے اقبال کا ڈھیر سارا کلام یہاں درج کرنا پڑے گا اور یہ بھی واضح رہے کہ کسی بڑے سے بڑے فلسفی اور دانشور کے کلام کا کچھ حصہ اس کے اپنے دور اور اس کے مخصوص تقاضوں کے تحت ہوتا ہے کہ اسے اپنی مٹی کا قرض بھی ادا کرنا ہوتا ہے اور اس ضمیر کا بھی جس سے وہ اٹھا ہے چنانچہ ہم اسے بھی بے معنی نہیں کہہ سکتے اقبال نے گوئٹے سے اپنا موازنہ کرتے ہوئے کہا۔
ہر دو خنجر صبح خند آئینہ خام
رو برہنہ من ہنوز اندر نیام
او چمن زادے، چمن پر وردہ ای
من دیدم از زمین مردہ ای
میں اور وہ دونوں صبح کی طرح مسکراتے ہوئے خنجر کی طرح ہیں جو آئینے کی تب وتاب رکھتے ہیں ، فرق یہ ہے کہ وہ نیام سے باہر ہے اور میں ابھی نیام میں ہوں، وہ چمن میں پیدا ہوا اور چمن ہی میں اسکی پرورش ہوئی جبکہ میں ایک مردہ زمین سے پیدا ہوا ہوں ۔
اقبال کی ساری تگ ودو مردہ زمینوں میں زندگی کے آثار پیدا کرنا ہیں چنانچہ موت کے سوداگروں کو اس کی اسی ’’معنویت‘‘ پر اعتراض ہے !
باقی رہی اقبال کے کلام میں تضادات کی بات ! تو تضادات صرف ابو جہل کے ہاں نہیں پائے جاتے ورنہ کوئی بھی سوچنے سمجھنے والا انسان غوروفکر کرنے والا انسان اپنی سوچ میں کبھی جمود کا شکار نہیں ہوتا تضادات کا عالم تو یہ ہے کہ سرسید جیسا انسان جس نے روشن خیالی سے ہمارے دل ودماغ کو منور کیا جس نے تعلیم کی روشنی پھیلائی وہ عورتوں کی تعلیم کا مخالف تھا۔
صرف یہی نہیں وہ عورتوں کے پردے کے حوالے سے اس حد تک چلا گیا تھا کہ انگریز وائسرائے کی بیوی سرسید کی بہو سے ملاقات کرنا چاہتی تھی مگر سرسید نے یہ کہہ کر معذرت کر دی کہ ان کی بہو غیر مسلم عورتوں سے بھی پردہ کرتی ہے تو کیا اس تضاد کی بنیاد پر سرسید کو روک دیں گے ؟
بہرحال تضاد ایک انسانی عمل ہے اور اقبال نے اس حوالے سے بہت خوبصورت بات کہی ہے ؎
گاہ میری نگاہ تیز چیر گئی دل وجود
گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں
اور اب آخر میں اپنے دوستوں کی نذر اقبال کے چند مزید اشعار
تیری نماز بے سرور تیرا امام بے حضور
ایسی نماز سے گزر، ایسے امام سے گزر
جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے حور و خیام سے گزر، بادہ و جام سے گزر
گرچہ ہے دل کشا بہت حسنِ فرنگ کی بہار
طائرک بلند بال دانہ و دام سے گزر
عصرِ حاضر کے اہم ترین مسائل کی نشاندہی اور پھر رہنمائی کرنے والا شاعر اگر آج بامعنی نہیں ہے تو پھر معاف کیجئے کوئی بھی بامعنی نہیں ہے!