• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترک صدر رجب طیب اردوان کا دورہ پاکستان انتہائی اہمیت کا حامل رہا اور یہ بات بھی حد درجہ اہمیت رکھتی ہے کہ ترک صدر پہلے غیر ملکی سربراہ ہیں جنہوں نے مختلف ادوار میں پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے تین بار خطاب کیا۔یہ اُن کے پارلیمانی نظام پر یقین کامل رکھنے کا ثبوت بھی ہے لیکن ترک صدر کے پارلیمنٹ سے مشترکہ خطاب کے موقع پر تحریک انصاف کی جانب سے اجلاس کا بائیکاٹ کرنا کسی طور بھی جمہوری طرز عمل نہیں تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے منتخب نمائندوں کا اجلاس میں شرکت کر نا ایک غیر ملکی سربراہ مملکت کی نگاہ میں پاکستانی قوم اور ان کے منتخب کردہ نمائندوں میں پائے جانے والے اتحاد اور یگانگت کا ثبوت ہوتا جس کا مظاہرہ نہ کر کے پی ٹی آئی کی قیادت نے کوئی اچھی مثال قائم نہیں کی۔ ترک صدر طیب اردوان کے دورہ پاکستان کے موقع پر بہت سے ایشوز پر دونوں ممالک کے سربراہان نے دو طرفہ تعلقات کو مزید فروغ دینے کے لئے بہت سے معاہدوں پر دستخط کیے جن میں 2017ء تک آزادانہ تجارت شروع کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ اس کے علاوہ ترکی اور پاکستان کے درمیان دفاعی شعبہ میں تعاون بڑھانے پر بات چیت ہوئی ۔ترک صدر نے این ایس جی میں پاکستان کی رکنیت کے لئے ایک بار پھر اپنی مکمل حمایت کا بھی یقین دلایا۔ اقتصادی راہداری منصوبہ سے ترکی فائدہ حاصل کر سکتا ہے یہ معاملہ بھی زیر غور آیا۔دفاعی شعبہ میں ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کے معاملے پر بھی بات چیت کی گئی۔ ترکی کے اقتصادی راہداری سے خشکی کے راستے یورپی ممالک تک رسائی حاصل کرنے کی ضرورت پر بھی مفید اور فیصلہ کن بات چیت کی گئی۔ گوادر کے راستے ترکی کی تجارتی بندر گاہوں تک رسائی کو آسان بنانے پر بھی غور کیا گیا ۔ تعلیم کے شعبہ میں مشترکہ منصوبے شروع کرنے پر بھی گفتگو ہوئی۔ ترک صدر طیب اردوان کی پاکستان آمد پر دیگر ایشوز پربات چیت کے ساتھ ساتھ خاص طور پر پاک افغان تعلقات کو بہتر سے بہتر بنانے پر بھی بات چیت ہوئی اس حوالے سے ترک صدر کا مؤقف تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات برادرانہ ہونا چاہئیں۔ ترک صدر پاکستان کے افغانستان کے ساتھ تعلقات کو خوشگوار بنانے اور دونوں ملکوں کے عوام میں قربت بڑھانے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور انہوں نے اپنے حالیہ دورہ پاکستان میں یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ وطن واپس جا کرترجیحی بنیادوں پرپاکستان اور افغانستان کے درمیان غلط فہمیاں دور کرنے کی کوششوں کا آغاز کریں گے کیونکہ خطے میں امن و امان کے قیام کے لئے پاک افغان تعلقات کا بہتر ہونا بے حد ضروری ہے دسمبر میں ماسکو،افغانستان کے ایشو پر پاکستان ،چین اور روس مشاورتی اجلاس کی میزبانی کرنے جا رہا ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ ترکی بھی ان مذاکرات میں شامل ہو جائے گا۔ ترک صدر طیب اردوان نے کشمیر سمیت بہت سے دیگر ایشوز پر پاکستان کے مؤقف کی حمایت کا اعلان کیا اور ہمیشہ کی طرح مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے تمام عالمی فورمز پر پاکستان کے مؤقف کی حمایت جاری رکھنے کا یقین دلایا۔ یہ پہلا موقع ہوگا جب روس، چین ، پاکستان اور ترکی مل کر افغانستان کے ساتھ تعلقات کو از سر نو بہتر بنانے کے لئے مشترکہ کوششیں کریں گے اور یہ نکتہ بھی بے حد اہمیت کا حامل ہے کہ اس سارے عمل سے امریکہ کو دور رکھا جا رہا ہے اس صورتحال سے بھارت بھی کافی پریشان ہے اور نئی دہلی کی بھرپور کوشش ہے کہ ماسکو میں ہونے والی پاک چین روس بات چیت کو سبوتاژ کیا جائے کیونکہ بھارت کے افغانستان میں مفادات بہت زیادہ ہیں اور وہ پچھلے کئی برس سے افغانستان میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے اس کے علاوہ بھارتی خفیہ ایجنسی را کا بڑا نیٹ ورک بھی افغانستان میں موجود ہے جہاں سے پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کو خراب اور ابتر بنانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ پاکستان کے ساتھ ترکی کے تعلقات ہمیشہ سے دوستانہ رہے ہیں تقسیم ہند سے پہلے بھی ترکی بھارت میں استحصال کا شکار مسلمانوں کی بھرپور حمایت اور مدد کرتا رہا ہے اور اب جبکہ پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے 70 برس ہو گئے ہیں ترک سربراہان مملکت اور عوام ہمیشہ کی طرح یہاں کے عوام کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ ترک صدر طیب اردوان کے دورہ پاکستان کو بھارت ، امریکہ اور یورپی ممالک میں خصوصی اہمیت دی جا رہی ہے اور پاکستان کے لئے یہ امر نا گزیر ہو چکا ہے کہ وہ اپنے دوست ممالک کے ساتھ مل کر روس اور افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے فوری اقدامات کرے ۔ اس سلسلے میں چین اور ترکی بے حد مؤثر، بھرپور اور نتیجہ خیز کردار ادا کر سکتے ہیں یہاں پر میری ایک رائے یہ بھی ہے کہ اسرائیل ہمیشہ سے بھارت کی مختلف شعبوں میں مدد کرتا رہا ہے جدید دفاعی ساز و سامان ڈرون حملے کرنے والے طیاروں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ہر طرح سے بھارت کی مدد کرتا چلا آ رہا ہے حکومت اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ سفارتی تعلقات بنانے کے لئے پرویز مشرف کے دور حکومت میں کی جانے والی کوششوں کا از سر نو جائزہ لے اور اس سلسلے میں اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ بہت سے عرب ممالک کے بھی اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ طور پر سفارتی تعلقات قائم ہیں ۔ ایسا کرنے سے بھارت اور اسرائیل کے بڑھتے ہوئے دفاعی تعاون میں کمی کرنے کی شروعات کی جا سکتی ہیںاور پاکستان کو چاہئے کہ وہ دنیا بھر کی بدلتی ہوئی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی کا از سر نو جائزہ لیتے ہوئے انقلابی اقدامات کرے۔




.
تازہ ترین