• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’تبلیغ دین کی راہ میں رکاوٹیں ڈال کر اسلام کو پھیلنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ حکمران اور ارکان اسمبلی مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے اپنی عاقبت برباد نہ کریں۔ سندھ اسمبلی کا پاس کردہ بل خلاف شریعت ہے۔ یہ بل منسوخ کیا جائے۔‘‘ یہ الفاظ علماء و مشائخ کے ہیں جو انہوں نے متفقہ طور پر جاری کیے۔ قارئین! پس منظر کے طور پر یاد رکھیں کہ گزشتہ روز سندھ اسمبلی نے ایک ایسا قانون منظور کیا جو اسلامی تعلیمات اور احکامات کے منافی ہے۔ سندھ اسمبلی میں منظور کیے گئے بل کے مطابق 18 سال سے کم عمر افراد کا قبولِ اسلام معتبر نہیں ہے، جبکہ 18 سال سے زائد عمر کا شخص 21 روز تک قبول اسلام کا اعلان نہیں کرسکتا۔ جبری اسلام قبول کرانے والے یعنی کلمہ پڑھانے والے اور نکاح خواں کے لئے کم از کم 5 سال یا عمر قید کی سزا مقرر کی گئی ہے، کلمہ اور نکاح پڑھانے والے شخص کی مذکورہ مقدمہ میں ضمانت بھی نہیں ہو سکے گی۔ اس بل کی اکثر شقیں ایسی ہیں جو شریعت سے متصادم ہیں۔ ایک اسلامی ریاست کو ہرگز اجازت نہیںکہ وہ اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کے خلاف قانون سازی کرے۔ اس طرح کا قانون امریکہ، یورپ حتی کہ انڈیا میں بھی نہیں ہے جو سندھ حکومت نے منظور کرلیا ہے۔ تمام مسالک کے علمائے کرام اور مشائخ عظام کے نزدیک منظور کروایا گیا یہ بل اور قانون شرعاً بالکل خلافِ اسلام، خلافِ قرآن، خلافِ شریعت اور خلافِ دین فطرت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیاتھا، ہمارے بزرگوں نے اسلام کے لئے اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کی تھیں۔ بھارت سے زندہ مسافروں سے بھری ٹرینیں چلی تھیں، مگر لاہور پہنچتے پہنچتے یہ ٹرینیں مسلمانوں کی لاشوں میںتبدیل ہوگئی تھیں۔ کیا یہ قربانیاں نہیں دی گئی تھیں؟ آج یہی اسلام، قرآن اور کلمے کے نام پر بننے والی مملکتِ خداداد کی ایک صوبائی اسمبلی کلمے ہی کے خلاف بل منظور کرے؟؟ یہ بل منظور کرے کہ کوئی نوجوان لڑکا اور نوجوان لڑکی اسلام قبول نہیں کرسکتے۔ اس کے لئے عمر قید ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح کا قانون بنایا جاتا ہے؟ قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے بارے میں کیا کہاتھا؟ قائد نے کہا تھا کہ یہ پاکستان خلفائے راشدین کی تعلیمات کی تجربہ گاہ بننے جارہی ہے۔ یہ اسلامی اقدار کی تجربہ گاہ ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس ملک کی ایک صوبائی اسمبلی اس طرح کا قانون منظور کرے؟ یہ قانون برطانیہ ،امریکہ ،جرمنی ،یورپ …کسی بھی ملک میں نہیں ہے۔ آج ہمارے ملک میں یہ قانون بنایا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے وجہ ’’جبری مذہبی تبدیلی‘‘ بتائی گئی ہے۔ مذہب کی جبری تبدیلی کا کون ساتھ دیتا ہے بھائی؟ کون ہے جو جبراً مذہب کو تبدیل کرے گا؟ اگرکسی علاقے میں یہ واقعہ پیش آبھی جاتا ہے کہ کسی کو جبراً اسلام قبول کروایا گیا ہے تو پہلے جامع تحقیق کروائی جائے کہ ریکارڈ میں ایسے کتنے واقعات ہیں؟ عام طور پر ہمارے یہاں پر مغربی ممالک کے پیسوں پر پلنے والیا ین جی اوز، مختلف قسم کی تنظیمیں اس طرح کے واقعات پیش کرتی ہیں، جب ان کی تحقیق کروائی جاتی ہے تو نوجوان عدالت میں آکر ببانگ دہل یہ اعلان کرتا ہے کہ میں نے قرآن کا مطالعہ کیا، میں نے اسلام کی اسٹڈی کی ،اس کے بعد اب اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں، اللہ کے احکام پر عمل کرنا چاہتا ہوں، میں سچائی کی گواہی دینا چاہتا ہوں۔‘‘ کیا آپ اس سچائی کی گواہی کا راستہ روکنا چاہتے ہیں؟ یاد رکھیں کوئی عالم دین، مذہبی اسکالر، دینی ادارہ،اور مفتی ایسا نہیں ہے جو یہ کہے کہ کسی ہندو، عیسائی ،یہودی اور مجوسی کو جبراً مسلمان بنالو! قرآن کی سورئہ بقرہ کی آیت نمبر 256ہے:یعنی اسلام میں داخل ہونے کے لئے کوئی جبر نہیں ہے۔‘‘ اسلام اور قرآن کا سیدھا، صاف اورواضح حکم موجود ہے، لیکن اگر ہم کسی ہندو، سکھ اور مجوسی پر یہ قدغن لگاتے ہیں اور اس نوجوان بھائی یا بہن کو یہ پابند کردیتے ہیں کہ سولہ، سترہ اور اٹھارہ سال میں بالغ ہوجانے کے بعد قرآن کا مطالعہ نہ کریں، یہ کیسی بات ہے؟ یہ کس طرح کا قانون بنایا جاتا ہے؟ اسلام سچائی کا دین ہے۔اسلام کا حکم ہے کہ سچائی اختیار کرو۔ کیا آپ اسلام کے اوپر قدغن لگاکر اور اسلام قبول کرنے پر پابندی لگاکر دوسرے لفظوں میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سچ نہ بولو۔ محب وطن اور محب دین طبقہ سمجھتا ہے کہ ایسے قوانین کا مقصد صرف اسلام کی ترویج و اشاعت روکنے کی کوشش کرنا ہے کیونکہ اس وقت اسلام واحد مذہب ہے جو تیزی سے دنیا بھر میں پھیل رہا ہے۔ بڑی تعداد میں اسلام کی حقانیت سے غیر مسلم متاثر ہو کر اسلام قبول کر رہے ہیں، جس سے غیر مسلم طاقتوں کو کافی تکلیف لاحق ہے۔ ان خوفزدہ طاقتوں، این جی اوز اور سندھ اسمبلی میں بیٹھے ہوئے غیر مسلم خصوصاً ہندو ارکان نے نومسلموں کے ساتھ تعاون اور ان کو سر ٹیفکیٹ جاری کرنے والے اداروں اور علماء ومشائخ کو ڈرانے کے لئے مذکورہ قانون پاس کیا ہے۔ اگر ہم دوسرے اسلامی ممالک کو دیکھیں تو وہاں پر اسلام کی تبلیغ اوراسلام قبول کرنے والوں کی رہنمائی اورتحفظ کے لئے باقاعدہ ادارے قائم ہیں۔ اگر سندھ گورنمنٹ یہ کام نہیں کرسکتی تو کم از کم اسلامی تعلیمات اور آئین پاکستان کا خیال تو رکھے اور اسلام قبول کرنے والوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی نہ کرے۔ ویسے مخضرمی عرب شاعر لبید نے یہ حقیقت چودہ سو سال پہلے ہی کہہ دی تھی: ’’سچائی کی راہ میں رکاوٹیں نہیں کھڑی کرنی چاہئیں کیونکہ اس کے سامنے یہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔‘‘


.
تازہ ترین