• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صنفی بنیاد پر خواتین پر تشدد کے خلاف سولہ روزہ مہم

صنفی بنیاد پر خواتین پر تشدد کے خلاف 16روزہ عالمی مہم کے آغاز پر اسلام آباد میں واقع امریکی سفارتخانہ کو 28نومبر کی شب نارنجی روشنی سے مزین کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے اس سولہ روزہ مہم کے آغاز کے بعد سے نارنجی رنگ کو تشدد سے آزاد اور تمام خواتین اور لڑکیوں کیلئے ایک روشن مستقبل کی علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
جب کسی معاشرے میں خواتین فعال کردار ادا کرتی ہیں تو اس سے امریکہ اور پاکستان جیسے ممالک کی کارکردگی مزید بہتر ہوتی ہے۔ وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا ہے کہ دنیا میں کوئی معاشرہ اپنی نصف آبادی کو پیچھے رکھتے ہوئے کامیابی سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ تاہم صنفی مساوات کا حصول صنفی بنیاد پر تشدد اور اس کے بنیادی اسباب کو ختم کئے بغیر ممکن نہیں۔ اس قسم کا تشدد خاندانوں، معاشروں اور اقوام کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کرنے کی راہ میں صرف خواتین اور لڑکیوں کیلئے ہی نہیں بلکہ تمام افراد کے لئے رکاوٹیں پیدا کرتا ہے۔ صنفی مساوات اور خواتین کی اہلیت کو مستحکم و جمہوری معاشروں کی تعمیر، آزاد اور احتساب کے تابع حکمرانی کو جلا بخشنے، انتہائی غربت کے خاتمے، معیشتوں کو فعال بنانے، تمام لوگوں کو صحت و تعلیم کی سہولتوں فراہم کرنےاور بین الاقوامی سطح پر زیادہ بہتر امن و سلامتی کے قیام میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک عورت اپنی زندگی میں جسمانی یا جنسی طور پر تشدد کا شکارہوتی ہے جبکہ پانچ خواتین میں سے ایک کو زیادتی یا زیادتی کی کوشش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض علاقوں ،بالخصوص تنازعات کا شکار علاقوں، میں یہ اعداد وشمار کافی زیادہ ہیں۔
یہ تشدد نہ صرف خواتین اور لڑکیوں کو متاثر کرتا ہے بلکہ معاشی ترقی میں بھی رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے اور تشدد اور تنازعےکے دائروں کو وسیع کرتا ہے۔ عالمی بینک کی ایک حالیہ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین کے خلاف تشدد سے معاشی ترقی کی رفتار کم ہوجاتی ہے، صحت سے متعلق اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ تشدد پیداواری صلاحیت میں کمی اور خواتین اور ان کے گھرانوں کیلئے آمدنی میں خسارے کا سبب بنتا ہے۔ یو این ویمن کے مطابق خواتین کے خلاف تشدد 15سے 44 سال تک کی عمر کی خواتین کے لئے کینسر، ٹریفک حادثات، ملیریا اور جنگ سے ہونے والی مجموعی اموات و معذوری سے بھی زیادہ اموات و معذوری کا سبب ہے۔ خواتین کے خلاف تشدد پورے خاندان کو نسل در نسل جاری رہنے والی غربت اور قوموں کو عدم استحکام کے منجدھار میں دھکیل سکتا ہے۔ مرد، لڑکے اور ٹرانس جینڈر افراد بھی صنفی بنیاد پر تشدد کا شکارہوتے ہیں، جنہیں نقصان دہ متعصب خیالات اور تشدد کا سامنا ہوتا ہے اورجو انہیں اپنی زندگی بھرپور طریقے سے گزارنے میں رکاوٹوں کا سبب بنتا ہے۔
10دسمبر جو صنفی بنیاد پر خواتین پر تشدد کے خلاف سولہ روزہ مہم کا آخری روز ہے، انسانی حقوق کا دن ہے۔ یہ اتفاق نہیں۔ انسانی حقوق عورتوں کے حقوق اور عورتوں کے حقوق انسانی حقوق ہیں۔ صنفی بنیادپر تشدد کے خاتمے اور اس کے خلاف جدوجہد انسانی حقوق کیلئے پیش رفت، صنفی مساوات کو فروغ دینے اور خواتین اور لڑکیوں کو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی حوصلہ افزائی کرنے کو امریکی عزم میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ امریکہ کی عمومی سفیر برائے عالمی امور خواتین کیتھرین رسل کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں خواتین اور لڑکیوں کا رتبہ بلند کرنا نہ صرف درست اقدام ہے بلکہ یہ ایک دانشمندانہ پیش رفت بھی ہے۔
دنیا بھر میں امریکہ ایسے منصوبوں کی حمایت کرتا ہے جو صنفی بنیاد پر تشدد سے متعلق آگہی بیدار کرتے ہیں، اس مسئلے پر قانونی معاونت استوار کرنے کے لئے پالیسی سازوں کومعلومات فراہم کرتے ہیں، متاثرین کی ضروریات کو پورا کرنے سے متعلق خدمات سرانجام دینے والوں کو تربیت فراہم کرتے ہیں اور انصاف اور احتساب کو فروغ دیتے ہیں۔ ہم صنفی بنیاد پر تشدد کے خاتمے کے لئے مذہبی اور مقامی آبادیوں کے رہنماؤں کو اس جانب متوجہ کرنے میں بھی مدد دیتے ہیں۔
امریکی سفارتخانہ اور ہمارے پاکستانی شراکت داروں نے گزشتہ سولہ دنوں میں متعدد سرگرمیوں کا اہتمام کیا۔ ہم نے مقامی آبادیوں کی فلاح کیلئے سرگرم کارکنوں سے ملاقاتیں کیں اور پاکستان بھر میں خواتین کو تحفظ فراہم کرنیوالے اداروں اور انجمنوں کے دورے کئے۔ ہم نے صنفی بنیاد پر تشدد کے مسئلے کی طرف توجہ مبذول کروانے کیلئے سوشل میڈیا پر مہمات، پینل مباحثوں، فلم اسکریننگ، فنی مقابلوں اور ریڈیو پروگراموں کا بھی اہتمام کیا۔ سندھ میں امریکی قونصل جنرل گریس شیلٹن نے خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کیلئے قانونی تحفظ کو وسعت دینے سے متعلق ایک سیمینار کا افتتاح کیا۔ اسلام آباد اور کراچی میں امریکی موسیقار موہاگنی جونز نے صنفی بنیاد پر تشدد کے خاتمے کے پیغام سے مزین موسیقی پیش کی۔
ہماری جدوجہد ان سولہ دنوں تک ہی محدود نہیں۔ امریکہ نے سارا سال حکومت پاکستان اور سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر خواتین کے حقوق اور انھیں خود مختار بنانے کے حوالے سے جاری جدوجہد میں شرکت کی۔ ہم نے صنفی بنیاد پر تشدد کا شکارہونے والی تقریباً چالیس ہزار خواتین کو صحت کی سہولتوں کے علاوہ قانونی اور مشاورتی خدمات فراہم کیں۔ پنجاب میں ڈیری فارم کے کاروبار سےمنسلک 9000سے زیادہ خواتین کی زندگیوں کو بہتر بنایا اور سماجی طور پر کمزور سترہ ہزار سے زیادہ خواتین کو سیاسی جماعتوں سے وابستگی اختیار کرنے میں مدد دی۔ ہم نے نوجوان خواتین کو پاکستان میں اعلیٰ تعلیمی ڈگریوں کے حصول کیلئے 5200سے زیادہ وظائف فراہم کئے۔
صنفی بنیاد پر تشدد کی کئی اقسام ہوتی ہیں لیکن ہر قسم کا تشدد انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور امن و استحکام اور جدوجہد کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ تشدد ناگزیر نہیں ہے، ہم میں سے ہر ایک اسے روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کرسکتا ہے اور ہم میں سے ہر ایک کو یہ کردار ہر صورت ادا کرنا چاہئے۔ صنفی بنیاد پر تشدد کے خلاف سولہ روزہ مہم مردوں، عورتوں، لڑکوں، لڑکیوں، ماؤں، بہنوں، بھائیوں، سرکاری حکام اور مقامی آبادیوں کی فلاح کیلئے سرگرم رہنماؤں سمیت ہم سب سے دنیا بھر میں صنفی بنیاد پر روا رکھے جانے والے تشدد کے خاتمے کے لئے جدوجہد کا تقاضا کرتی ہے۔
پاکستان میں اپنے قیام کے دوران میں نے کئی ایسی خواتین اور مردوں سے ملاقاتیں کیں جو خواتین اور صنفی و جنسی اقلیتوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔ صنفی بنیاد پر تشدد صرف اس وقت ختم ہوگا جب معاشرے میں سب لوگوں کو جنس سے قطع نظر مکمل قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے اور ہر کوئی معاشرتی سرگرمیوں میں شرکت کا اہل ہو۔


.
تازہ ترین