• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند روز قبل میں نے قائد اعظم یونیورسٹی کے کیمپس کے اوپر ایک نو تعمیر کردہ، نہایت عالیشان محل دیکھا، جس کے باہر بہت سی شاندار اور نئی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ پہلا خیال تو یہ گزرا کہ یہ کسی مالدار عرب شیخ کا گھر ہوگا، لیکن درحقیقت یہ عمارت اپوزیشن کے اہم رکن کی رہائش گاہ ہے۔ یہ صاحب سینیٹ کی اعلیٰ پوزیشن پر بھی رہ چکے ہیں۔ یہ ان عالیشان مکانوں میں سے ایک ہے جو یونیورسٹی کے درجنوں ایکڑ پر قبضہ کر کے تعمیر کئے گئے ہیں۔ میں یہ سوچتا رہا کہ ایک طرف مغربی ممالک میں متمول افراد اپنی املاک، اپنی پسند کی یونیورسٹی کو عطا کرتے ہیں تو دوسری طرف ہمارے یہاں اہل اقتدار تعلیمی اداروں کو بھی نہیں بخشتے اور ان کی زمینوں پر قبضہ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
قائد اعظم یونیورسٹی کی زمین پر قبضے کی ابتدائی کوشش آج سے قریباََبیس برس قبل اس وقت ہوئی جب وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے اپنے پارلیمانی ساتھیوں کو نوازنے کی خاطر یونیورسٹی کے کیمپس میں پلاٹ دینے کی پیشکش کی۔ مارکیٹ کے بھائو کے مقابلے میں یہ پلاٹ اونے پونے دام پر خریدے جاسکتے تھے اور ہر شخص یہ جانتا تھا کہ چند سالوں کے اندر ان کی قیمتیں دس گنا بڑھ جائیں گی۔ یونیورسٹی کے اساتذہ اور ملازمین کو بھی چھوٹے پلاٹوں کی پیشکش کی گئی تاکہ وہاں سے کوئی اعتراض نہ اٹھ پائے۔
حزب ِ اقتدار کے اراکین ِ پارلیمنٹ نے پہلی پہلی قسطیں ادا کرنے میں کوئی تاخیر نہ کی تاکہ یہ لین دین جلد طے پا جائے۔ دولت کی ہوس میں حزب اختلاف کے اراکین ِ پارلیمنٹ بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی غرض سے قطار میں لگ گئے۔ یہ سودا اتنا منافع بخش تھا کہ پارٹی وفاداریاں تبدیل ہونے کی بازگشت سنائی دینے لگی۔ اس صورتحال نے سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کے رہنما کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔ لہٰذا میاں نواز شریف نے اپنی جماعت کے اراکین کو اس لوٹ مار میں شریک ہونے سے منع کیا۔مگر بعد میں ایسا ہوا کہ لوٹ مار کا یہ منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا۔ قائداعظم یونیورسٹی کے چند اساتذہ نے اس کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کیا اور 1996ء سے 1997ء کے بیچ اٹھارہ ماہ تک جدوجہد کرتے رہے۔ ان کا ساتھ نامور قانون دان عابد حسن منٹو نے دیا، عوامی مفاد کے تحفظ کے لئے بلا معاوضہ قانونی چارہ جوئی کی اور بالآخر مقدمہ جیت لیا۔ عدالت نے فیصلہ سنایا کہ قائد اعظم یونیورسٹی کی زمین پبلک ٹرسٹ ہے اور اس پر صرف اور صرف پاکستانیوں کی آنے والی نسلوں کا حق ہے، اور یہ کہ اس زمین کو نجی املاک میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کامیابی اور بے نظیر بھٹو کی حکومت کی برطرفی نے زمین پر قبضے کا باب وقتی طور پر بند کر دیا۔ قبضہ گیردس برس بعد پھر متحرک ہوگئے۔اس بار یہ کارروائی یوں کی گئی کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ کیمپس میں موجود محض چند افراد ہی اس سے واقف تھے کہ غیر قانونی محل اور اس جیسی دیگر تجاوزات کی تعمیرکہاں کہاں جاری ہیں۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلرز اور رجسٹرارکو کسی نامعلوم طریقے سے قائل یا مجبور کر دیا گیا کہ وہ بس ایک واجبی سے احتجاج تک ہی محدود رہیںاور مزاحمت نہ کریں۔ یوں خاموشی، مگر تیز رفتاری سے زمینی حقائق تبدیل ہوتے چلے گئے۔
اب ایک نظر موجودہ صورتحال پر بھی ڈالتے چلیں۔ یونیورسٹی کی نئی انتظامیہ اس دریافت پر حیران رہ گئی کہ اسے ورثے میں وہ کیمپس ملا ہے جس کا ایک بڑا حصہ پہلے ہی ہڑپ کیا جا چکا ہے، جہاں غیر قانونی تجاوزات بڑھتی جا رہی ہیںاور ایک غیر قانونی سڑک بھی زیر تعمیر ہے۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی کے اندر ایک سڑک کی تختی بدل کر اسے محل کے مالک سے منسوب کرتے ہوئے بڑی ڈھٹائی سے اپنا کا نام دے دیا گیا ہے۔
یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اسلام آباد کی حدبندی کے قوانین بنانے اور نافذ کرنے کا ذمہ دار ادارہ کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی اس سارے معاملے میں کیا کہتا ہے؟ اسی طرح اس ضمن میں وزارت ِ داخلہ کا کیا موقف ہے؟ ان کا مختصر جواب یہ ہے کہ کچھ خاص نہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے بارہا موجودہ نقشوں کی تصدیق کرانے اور حد بندیوں کو نمایاں کرنے کی درخواست کی ہے، مگرکوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ دوسری طرف سی ڈی اے نے یونیورسٹی کی چار دیواری کی تعمیر رکوا دی ہے۔ واضح رہے کہ دو برس قبل آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد چار دیواری کی تعمیر سیکورٹی کے لئے ایک قانونی ضرورت ہے۔ اس وقت قبضہ گیر مافیا پٹواریوں کو رشوتیں اور نذرانے دے کر زمین کے ریکارڈ میں ہیرا پھیری کرنے میں مصروف ہے۔ قائد اعظم یونیورسٹی کے معاملے میں سی ڈی اے کی کاہلی کا موازنہ اس مستعدی سے کیجئے جب پٹھان کالونی کے افلاس زدہ رہائشیوں کے کچے مکانوں کوبڑی عجلت سے منہدم کر دیا گیا تھا۔بعض اعلیٰ درجے کے افسران نے خلوت میں یہ مشورہ دیا ہے کہ قائد اعظم یونیورسٹی کو اپنی دفاعی قوت خود مضبوط کرنی پڑے گی۔ تو کیا اب یونیورسٹی کوراکٹ لانچرز اور بکتر بندگاڑ یاں حاصل کرنی ہوں گی؟
آج قائد اعظم یونیوسٹی کی زمین کو پھر خطرہ لاحق ہے۔ اگر قبضہ گروپوں کی جیت ہوئی تو پاکستان کی اس بہترین یونیورسٹی کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔ اس کا پھیلائو رک جائے گااور نئے شعبوں اور تحقیقی اداروں کے لئے جگہ نہیں رہے گی۔ میاں نواز شریف نے بیس سال پہلے یونیورسٹی کی زمین پر قبضے کی مخالفت کی تھی اور آج بھی انہیں ایسے افراد اور گروپوں کو سختی سے روکنا چاہئے ۔

.
تازہ ترین