• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برسوں ہوئے آغا شورش کاشمیری نے کہا تھا۔
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہےطوائف تماش بینوں میں
آج کا نقشہ جب ہم دیکھتے ہیں تو جہاں دنیا ارض سے سماں تک جاپہنچی ہے، ہم وہی کے وہی ہیں بلکہ اور گئے گزرے… یہ درست ہے کہ سیاست ملک و ملت کی خدمت کے بندوبست کو بروئے کار لانے کا نام ہے اور اس کے انجام کارسیاستدان لائق عزت و تکریم ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں ایسا ہی ہے، سیاستدان عوامی و ملکی خدمت کی خاطر بہتر سے بہترین خدمت کی راہیں تلاش کرتے ہیں اور عوام انہیں بھرپور توقیر و احترام سے نوازتے ہیں۔ ہمارے ہاں سارا عمل اس کے برعکس ہے۔ یعنی خال خال استثنیٰ کے، اکثر سیاستدان خیانت کے استعارے ہیں، لہٰذا عوام جس طرح خائنوں و لٹیروں کو دیکھتے ہیں، اسی نظر سے وہ اپنے سیاستدانوں کو گھورتے ہیں۔ ہم الزام نہیں لگارہے، ہرسیاستدان دوسرے سیاستدان سے متعلق یہی رائے رکھتا ہےکہ فلاںڈاکو، لٹیرا، چور ہے۔
اس درخشاں سیاست کاتازہ واقعہ یہ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حیات میں پیڑیاٹ بنانے اور ق لیگ میں جانے والے فیصل صالح حیات دوبارہ پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے ہیں۔ یہ بھی پاکستانی سیاست ہی کا طرہ امتیاز ہے کہ یہاں ایسا ’آبِ زم زم‘ ہے کہ جس سے غسل پر تمام اگلے پچھلے بلکہ آنے والے گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ قوم کو نوید ہوکہ اب فیصل صالح حیات محترم و مکرم آصف زرداری کے ساتھ کرپشن کے خلاف ’جہاد‘ پر نکلنے والے ہیں۔ احمد فراز نے کہا تھا۔
اب کے تجدید وفا کا نہیں امکاں جاناں
یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں
یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں
انسان، جیسا کہ کہا گیا کہ بدلتے رہتے ہیں، پھر اگر انسان پاکستانی سیاستدان ہو تو کیا کہنے!
یہ بدلنے کا واقعہ بھی نیا نہیں ہے ’ہماری تاریخ‘ اس حوالے سے بھی شاندار ہے۔ بلکہ بے مثال ہے کہ یہاں انسانوں ہی کی طرح حکومتیں بھی بدلنے کی فطرت میں لاجواب ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا جواہر لعل نہرو نے کہا تھا کہ میں اتنی جلدی دھوتیاں نہیں بدلتا، جس قدر جلد پاکستان میں حکومتیں بدل جاتی ہیں…؟ سو اسی نشاۃ ثانیہ کو کمبل سمجھ کر اوڑھے ہی رکھا جائے، تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے… تو صاحبانِ صبر و شکر! اپنی سیاست جو انقلاب آفریں حرکیات سے تہی دامن ہوچکی، کو سرِدست چھوڑ کر کیوں نہ آج موسم پر ہی دوچار حروف نظر آپ ہوجائیں۔ پھر موسم اگر سردی و برسات کا ہو تو اس کی نظیر لانا بالکل اسی طرح جوئے شیر لانے کے مترادف ہوجاتا ہے جس طرح اپنی سیاست کی نظیر ڈھونڈتے ڈھونڈتے بھی نہیں ملنے کی… دسمبر جو ستمگر کہلاتا ہے، اُس کا اِس برس دبے پائوں گزرنا کسی طوفان سے کم ثابت نہ ہوا، اس کے جاتے ہی پورے عالم میں ایسی سردی ٹوٹ پڑی کہ عمرِ رفتاں سے ٹوٹ پھوٹ اولادِآدم بھی جیسے عالم شباب کی طرف لوٹ آئی۔
ہر سائے میں پرچھائی میں، میں نے ساتھ کسی کا پایا ہے
یہ موسم سرد ہوائوں کا، لوٹ کے پھر سے آیا ہے
قدرت نے جہاں انسان کیلئے بے حساب لطف و کرم کے در وا کئے ہیں، وہاں ہر موسم میں علیحدہ رنگ و آہنگ رکھا ہے۔ ہر موسم کا اپنا مزا ہے، لیکن بہار اور اس کی آمد کی نوید دیتی سردی تو جیسے انسان کی جان کو آجاتی ہے۔ شاعر یونہی تو نہیں کہتا۔
موسم تھا بے قرار، تمہیں سوچتے رہے
کل رات بار بار، تمہیں سوچتے رہے
قدرت کے نظام کے قربان جائیے کہ جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں، وطن عزیز میں اضطراب تھا، خشکی، تری کو ترستی تھی، لیکن یہ طے تھا کہ موسم ِگل بنا آب ،آپ آہی نہیں سکتا، قدرت نے سارا انتظام کرنا تھا، سو کردیا۔ اب جہاں سردی اپنی جوبن پر ہے تو وہاں بہار اسکی مستی سے لپٹ جانے کیلئے آمادہ کار۔ پشتو کا ٹپہ ہے۔
پہ علامہ دَ سپرلی پوھ شم
جینکو راوڑو پہ اوربل کے زیڑھ گلونہ
یعنی، بہار کی آمد کی یہی تو علامت ہے کہ کھیتوںسے آتیںدوشیزائوں نے پھولِ نرگس سے زلف سجارکھے ہیں۔ یاد رہے’ ٹپہ لنڈی‘ پشتو کے شعری ادب کی وہ منفرد تخلیقی صنف ہے جس کی مثال دنیا کی کسی زبان میں نہیں ملتی، البتہ پنجابی کا ’ماھیا‘ کافی حد تک اس کے قریب ہے۔ ٹپہ میں رزم و بزم ہر دور کا احاطہ کیا جاتا ہے جیسے کہ ایک ٹپہ ہے۔
آشنا پہ جنگ کے ترشا راغلے
پہ پرونئی ورکڑی خولہ پخیمانہ یمہ
’’میرےآشنا نے جنگ سے پسپائی اختیار کرلی، مجھے تو پچھتاوا اُس بوسے کا ہے جو کل میں نے دیا تھا‘‘آپ نے ملاحظہ فرمایا، جنگ میں شکست پر محبوب سے کس شد ومد سے اظہار ِناراضی کیا جارہا ہے ۔زیر نظر ٹپےمیںملاحظہ فرمائیں احساس کس قدر معراج پر ہے۔
دَگودر ہر بوٹے دارو دے
پرے لگیدلی دی دَ پیغلو پلوونہ
’’گودر (پنگھٹ) کا ہر پھول پودا دوا ہے، وجہ یہ عیاں ہے کہ یہ حسینائوں کی پوشاک سے مس ہوئے ہیں‘‘۔آپ سوچتے ہونگے کہ یہ بندہ لکھتے لکھتے اچانک ’ٹپہ‘ کہا ں سے لے آتا ہے، لیکن آپ یقین کریں کہ ہمارے کالم کے جو دو چار پڑھنے والے ہیں،اُن میں وہ صاحبانِ ذوق جو پشتو سے نا آشنا ہیں،اصرار کرتے ہیں کہ آپ پشتو شاعری مع ترجمہ لکھ لیا کریں کہ اس میں پنہاں لطیف احساس روح کو تازگی بخشتاہے۔بہر کیف خدا کرے کہ بہارامن، خوشحالی و آسودگی ساتھ لائے(آمین) آئیے! ملک کی مایہ ناز پروین شاکر کی اشعار کی بارات کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا تیرا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
گاہ قریب شہ رگ، گاہ بعید وہم و خواب
اس کی رفاقتوں میں رات، ہجر بھی تھا وصال بھی
اس کے ہی بازوئوں میں اور اس کو ہی سوچتے رہے
جسم کی خواہشوں پر تھے روح کے اور جال بھی



.
تازہ ترین