• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سہون شریف پر ہونے والے دلخراش حملے پر ہمارا رد ِعمل بھی ویسا ہی تھا جیسے اس سے پہلے ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں پر، جیسا کہ جذباتی اشتعال، گہرے رنج و الم کا اظہار اور جانی نقصان پر افسوس۔ اور یہ اچھی بات ہے، ہم کم از کم دکھ درد میں شریک ہوکر مرنے والے بھائیوں، بہنوں اور بیٹوں کے لئے آہ وفغاں تو کرتے ہیں۔ ہم میں انسانیت کی رمق پائی جاتی ہے ،بالکل درست۔ لیکن جذبات کی بنیاد پر بننے والی پالیسی کمزور ہوتی ہے ، اور ایسا لگتا ہے کہ ہم بے پناہ نقصان اور تباہی کے بعد ابھی تک یہ بات سمجھنے سے قاصرہیں۔دہشت گردحملوں کے بعد ابھرنے والی جذبات کی طاقتور لہر اس مرحلے پر ہمارے رد ِعمل کاسب سے کمزور پہلو ہے کیونکہ اس جذباتی دھند میں عملی اقدامات کی ضرورت نظر سے اوجھل ہو کر رہ جاتی ہے ۔
پہلی بات ، نیشنل ایکشن پلان کے نفاذکے بارے میں تھکے ہوئے بودے دلائل نے تمام بحث کو ایک طرح سے یرغمال بنا لیا ہے ۔ یہ بات تسلیم کہ پلان ، یا ایک طرح کا روڈ میپ،حکومت کے لئے بنیادی اصلاحات کے عمل کو شروع کرنے کے لئے ایک اچھا رہنما اصول تھا ، اور یہ بھی غلط نہیں کہ اس کے نفاذ کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی، لیکن اس کی آڑ میں حکام کے پاس اپنی نااہلی اور کوتاہی چھپانے کا ایک جواز میسر آگیا ہے ۔مدرسہ اصلاحات سے لے کر انٹیلی جنس کے تبادلے اور کالعدم تنظیموں سے نمٹنے تک، نیشنل ایکشن پلان کی ہر شق پر وزرا اور متعلقہ محکمے موجود ہیں۔ دہشت گر د کارروائیوں کی پیش بینی ، اور ان کے مستقبل کے عزائم پر نظر رکھنے کے لئے انٹیلی جنس ایجنسیاں موجود ہیںجن کے پاس بھاری بھرکم بجٹ اور بے پناہ اختیارات (روایتی و غیر روایتی) کی کمی نہیں۔چنانچہ نیشنل ایکشن پلان کا عدم نفاذ کسی کو اس کی ذمہ داریوں کی انجام دہی سے نہیں روکتا ، اور نہ ہی یہ کوئی رکاوٹ ہے ۔ حتیٰ کہ خصوصی عدالتوںکے قیام کی ضرورت بھی حقیقت سے نظریں چرانے میں معاون ایک التباسی وہمہ ہے ۔ ذرا سوچیں کہ سہون شریف پر حملے کے بعد کیا ہوا؟چوبیس گھنٹوں سے بھی کم وقت میں سرکاری طور پر سینکڑوں دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا۔ ان کے لئے کسی مقدمے ، کسی ٹرائل یا پوچھ گچھ کی ضرورت محسوس نہ کی گئی ، کسی سوال کا جواب نہ دیا گیا۔ یقینا ہلا ک کیے جانے والوں میں سے بہت سے اسی ا نجام کے مستحق تھے ، اور پھر شاید قانونی طریق ِ کار اختیار کرنے کے لئے مناسب وقت بھی موجود نہ تھا۔ لیکن ہمارا موضوع یہ نہیں۔ ایشو یہ ہے کہ ریاست اشتعال کی گھڑی میں ہلاک کرسکتی ہے ، اسے کسی دلیل کی حاجت محسوس نہیں ہوتی ۔ پارلیمنٹ میں کسی بحث کو بھی وقت کا ضیاع تصور کیا جاتا ہے ۔
اس سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے جسے بڑے سانحات کے رد ِعمل میں نظر انداز کردیا جاتا ہے ، کہ ہم ایکشن لینے سے پہلے کسی مکمل منصوبے کو آگے بڑھنے کا موقع دینے کا انتظار نہیں کرتے ۔ اور اگر دہشت گردی کی روک تھام نہیں ہوپارہی تو پھر موجودہ نظام اس کا ذمہ دارہے ، چاہے نیشنل ایکشن پلان نافذ ہوسکا یا نہ ہوسکا۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کی لہر کو روکنے کیلئے ’’خصوصی اختیارات‘‘ بھی محض ایک افسانہ طرازی ہے ۔ ہمارے اپنے بیان کے مطابق زیادہ تر دہشت گرد افغانستان کی سرحد کے قرب وجوار سے آرہے ہیں ۔ اب شمالی علاقہ جات سے لیکر تافتان کی سرحد تک کا تمام علاقہ ریاستی اداروں کے کنٹرول میں ہے ۔ فاٹا اور بلوچستان میں ریاستی اداروں کو بھرپور اختیارات حاصل ہیں۔ ان علاقوں میں کی گئی کارروائی کا جوڈیشل جائزہ نہیں لیا جاتا(اس کی ایک تو کچھ آئینی وجوہ ہیں تو دوسری ہمارے نظام انصاف کی عملیت پسندی)۔ کیا ہمیں یہ بات نہیں پوچھنی چاہئے کہ پھر دہشت گردافغانستان سے اس طرف کس طرح آکر تباہی پھیلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں؟
ستم ظریفی یہ ہے کہ جب افغانستان ایسے گروہوں پر الزام لگاتاہے جو مبینہ طور پر سرحد پار کر کے افغانستان میں تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں تو ہم اس کے جواب میں سرحد اور دہشت گردی کے مقام کے درمیان طویل فاصلے کی طرف نشاندہی کرتے ہیں۔ تو کیا ہمیں خود سے سوال نہیں پوچھنا چاہیے کہ جب افغانستان میں بیٹھے ہوئے دہشت گردہمارے ملک میں ہر طرف تخریبی کارروائیاں کررہے ہیں تو وہ اتنا طویل سفر طے کر کے یہاں تک کس طرح پہنچ گئے ؟سوال کے الفاظ کو تبدیل کرلیں۔ افغانستان سے چل کراتنا طویل سفر طے کرنے والے ان دہشت گردوں کوشہروں تک پہنچنے سے روکنے کے لئے ریاستی اداروں کو مزیدکتنے وسائل اور اختیارات درکار ہیں؟اس کا دوٹوک جواب یہی ہوگا کہ کچھ نہیں۔ اختیارات کا مسئلۂ نہیں ہے ۔
گزشتہ ہفتے کے واقعات کے بعد اچانک تمام معاملات کو حل کرنے کی تشویش بھی اپنی جگہ پر کم تشویش ناک نہیں ہے ۔ سہون شریف پر حملے کے بعد دہشت گردوں کیخلاف برق رفتار کارروائی ، ہلاکتیں اور افغان سرحد بند کردینا اور افغان سفارت کاروں کو طلب کرکے دہشت گردوں کی فہرست اُن کے ہاتھ میں تھما دینا فوری اشتعال اور جذباتی جلد بازی کا شاخسانہ ہے ۔ ان کے نتیجے میں دونوں ممالک اب جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی قابل ِفہم ہے کہ فوری طور پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اُنہیں ہلاک کیوں کیا گیا۔ اس سے عوام کو یقین دہانی کرانی مقصود تھی کہ کچھ نہ کچھ کیا جارہا ہے ۔ تاہم اس یقین دہانی کی قیمت بہت بھاری ہے ۔ ہم نے پوری توجہ افغانستان میں دہشت گردی کے ٹھکانوں پر مرکوز کردی ہے ،اور ایسا کرتے ہوئے ہماری پالیسی ایک تنگ گزرگاہ میں الجھ گئی ہے ۔ اب جب افغانستان ہماری بات سننے کیلئے تیار نہیں تو ہم کیا کریں گے ؟خاطر جمع رکھیں، اس وقت امریکہ یا دنیا میںکوئی اور ہماری مدد کیلئے نہیں آئے گا۔ کابل کے ذریعے بھارت اپنا منصوبہ واشنگٹن کے طاقتور عناصر کی رضامندی کے بغیر آگے نہیں بڑھا سکتا ۔ چنانچہ اب وہ ہمارے اور کابل کے درمیان ثالثی کیوں کریں گے جب انڈیا یہ سب کچھ اُن کی اشیر باد پر ہی کررہا ہے ؟تو کیا ہم ایک بند گلی میں داخل نہیں ہوگئے ؟ایسا ہونانہیں چاہئے تھا۔ اچھی حکمت ِعملی دروازے بند کرنے کی بجائے امکانات کے مواقع پیدا کرتی ہے ۔ تو کیا ہمارے پاس کوئی پالیسی ہے ؟
گزشتہ ہفتے کے دہشت گردی کے واقعات کے بعد سابق آرمی چیف، جنرل راحیل شریف اور موجودہ فوجی کمان کے درمیان موازنہ کرنے کی احمقانہ مہم شروع ہوگئی۔ بعض حلقوں کی طرف سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ملک میں دہشت گردی کے تمام راستے بند ہوچکے تھے، بس ذراایک انچ کی کسر باقی رہ گئی تھی ۔ کچھ قلم کار جنرل راحیل شریف دور کی خوبیاں جتاتے نہیں تھکتے ۔ ہم نہیں جانتے کہ ان قلمی مجاہدوں کا اصل مقصد کیا ہے ، لیکن ہم افسانے اور حقیقت کا فرق بخوبی جانتے ہیں۔ اگر تاریخ کو ایمانداری سے مرتب کیا جائے تو ہم اعدادوشمار سے یہ بات ثابت کرسکتے ہیں کہ سابق دور میں ادھورا چھوڑا گیاکام اب قوم کو بہت مہنگا پڑرہا ہے ۔ اگر اس موضوع کا ’’قومی مفاد ‘‘ کے نام پر گلا نہ گھونٹ دیا جائے تو ہم اس وقت بہتر طو رپریہ دیکھنے کے قابل ہوں گے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کی حقیقت کیا تھی ؟
اس وقت ہم اس نازک موڑپر ہیں جہاں ہم کسی غلطی کے متحمل نہیں ہوسکتے ، اور نہ ہی اس وقت جذباتی بنیادوں پر بنائی گئی پالیسی کام دے گی۔ ہمیں اپنی کاوشوں کو قومی سطح پر مربوط کرنا ہوگا۔ ہم پر دہشت گردی کے سائے گہرے ہورہے ہیں۔ دشمن پے درپے حملے کرکے ہمیں سراسیمگی کا شکار کرنے کی کوشش کرے گا۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں کہیں زیادہ ہلاکت خیز واقعات دیکھنے میں آئیں ۔ چنانچہ ضروری ہے کہ ہر ادارے کی سمت میں یک سوئی اور ہم آہنگی ہو۔ ہمارے پاس دشمن کو شکست دینے کے لئے وسائل کی کمی نہیں اور نہ ہی ہم کوئی کمزور ریاست ہیں۔ لیکن اگر ان وسائل کے ہوتے ہوئے بھی ہم اس دشمن کو شکست نہیں دے سکتے تواس میں ہمارے ستاروں کا نہیں، ہمارا ہی قصور ہے۔



.
تازہ ترین