• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
29 سال پہلے 17 جنوری 1987 ء کو بی بی سی ریڈیو نے یہ خبر نشر کی کہ فاضل راہو کو قتل کر دیا گیا ہے ۔ اس زمانے میں اس طرح کی بڑی خبریں غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے ہی ملتی تھیں ۔ اس خبر سے پاکستان کے وطن پرست ، جمہوری اور ترقی پسند حلقوں کو شدید صدمہ ہوا تھا کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پاکستان کی تاریخ میں یہ سب سے بڑا سیاسی قتل تھا ۔ اسی روز سندھ سمیت پورے ملک میں اس قتل کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے ۔ اگرچہ یہ قتل ایک مقامی نوجوان نے کیا تھا لیکن پاکستان کی سیاسی قوتوں کو یہ معلوم تھا کہ پس پردہ سازش کچھ اور ہے ۔ کچھ عرصہ پہلے فاضل راہو کو لانڈھی جیل میں ایک قیدی کے ذریعہ زہر دیا گیا تھا ۔ زہر دینے والے قیدی کو لانڈھی جیل سے کہیں اور منتقل کر دیا گیا تاکہ پس پردہ قوتیں بے نقاب نہ ہو سکیں ۔ فاضل راہو کو اسپتال پہنچانے کی بجائے بے ہوشی کی حالت میں سکھر جیل منتقل کر دیا گیا تھا لیکن وہ زندہ بچ گئے تھے ۔ جب ان کے قتل کی خبر لوگوں تک پہنچی تو ان کے ذہنوں میں یہ واقعہ بھی تازہ ہو گیا اور لوگ فوراً اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ یہ قتل ان قوتوں نے کرایا ہے ، جنہوں نے قبل ازیں لانڈھی جیل میں انہیں زہر دے کر قتل کرانے کی کوشش کی تھی ۔ سینئر صحافی اور ممتاز دانشور دستگیر بھٹی کا یہ کہنا درست ہے کہ فاضل راہو کا قتل اسی طرح ہوا تھا جس طرح سعودی عرب کے شاہ فیصل کا ہوا تھا ۔ شاہ فیصل کے بھتیجے کی جس طرح برین واشنگ کی گئی تھی ، اسی طرح گولارچی کے چانگ قبیلے کے نوجوان کی برین واشنگ کی گئی ، جس نے فاضل راہو کو کلہاڑی کے وار کرکے شہید کر دیا تھا ۔ اس نوجوان کو طویل عرصے تک بھڑکایا جاتا رہا کہ اس کے باپ یا چچا کا کئی سال پہلے جو قتل ہوا تھا ، اس میں فاضل راہو ملوث تھے ۔ شاہ فیصل تیل کی دولت سے مالا مال ریاست کے بادشاہ تھے ، جو تیل پر کثیرالقومی کمپنیوں اور ان کے سامراجی آقاؤں کے تصرف کو ختم کرنے کی خواہش رکھتے تھے اور فاضل راہو تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ضلع بدین کے ایک درویش سیاسی لیڈر تھے ، جو اس قدرتی دولت پر علاقے کے غریب لوگوں کے حق ملکیت کے لیے طویل عرصے تک جدوجہد کرتے رہے ۔ انہوں نے نہ صرف اپنے علاقے میں کثیر القومی کمپنیوں ، جاگیرداروں اور نو آبادکاروں کے مظالم کے خلاف آواز بلند کی بلکہ پاکستان کے عوام کے قومی جمہوری حقوق کے لیے بھی آمروں اور استعماری قوتوں کو للکارا ۔ 1934 ء میں ضلع بدین کے تعلقہ گولارچی ( موجودہ نام شہید فاضل راہو ) میں ایک زمیندار عنایت احمد راہو کے گھر میں آنکھ کھولنے والے محمد فاضل راہو حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کی شاعری کے کردار ’’ راہو ‘‘ کا ایک اور جنم تھے ۔ انہوں نے ساری زندگی غریب اور مظلوم لوگوں کے لیے وقف کر دی تھی ۔ لطیف کی طرح ان کی وطن پرستی بھی کسی تنگ نظر علاقہ پرستی ، نسلی فسطائیت یا ناانصافی پر استوار نہیں تھی بلکہ اس کی بنیادیں عوام دوستی ، جمہوریت ، آزادی فکر و عمل اور بین الاقوامیت پر تھیں ۔ فاضل راہو سندھی عوامی تحریک (موجودہ قومی عوامی تحریک ) کے صدر تھے ۔ رسول بخش پلیجو کی قائم کردہ اس سیاسی جماعت نے حیرت انگیز لوگ پیدا کیے ۔ فاضل راہو غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل رہنما تھے ۔ عوامی تحریک کے لوگوں سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے ۔ فاضل راہو سے بھی نیاز مندی تھی ۔ ان میں وہ ساری صفات تھیں ، جنہیں عوام دشمن ، استبدادی اور استعماری قوتیں ہمیشہ نا پسند کرتی ہیں ۔ بلند قامت اور مضبوط ڈیل ڈول رکھنے والے فاضل راہو بہت نڈر اوربہادر تھے ۔ وہ سمجھوتے کے قائل نہیں تھے ۔ انہوں نے سیاست میں اپنی دولت لٹائی ۔ سیاست کو کبھی کمائی یا دیگر مراعات کا ذریعہ نہیں بنایا ۔ انہوں نے عوام کے حقوق کی لڑائی میں کبھی دھوکہ نہیں دیا ۔ انہوں نے سیاسی جدوجہد کا آغاز اپنے گھر والوں کو متحرک کرکے کیا ۔ رسول بخش پلیجو کے خاندان کی طرح نہ صرف فاضل راہو نے بلکہ ان کے گھر کی خواتین اور بچوں نے بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ پاکستان کی کوئی ایسی بڑی جیل نہیں ہے ، جہاں فاضل راہو قید نہ رہے ہوں ۔ 1960 ء کے عشرے سے 1980 ء کے عشرے تک تین دہائیوں میں سندھ میں چلنے والی بڑی عوامی ، قومی اور جمہوری تحریکوں میں فاضل راہو کا کردار انتہائی نمایاں تھا ۔ اینٹی ون یونٹ موومنٹ ، سندھی زبان میں انتخابی فہرستوں کی اشاعت کی تحریک ، نیلام بند کرو تحریک ، ظلم بند کرو تحریک ، تحریک بحالی جمہوریت ( ایم آر ڈی ) ، جیل بھرو تحریک اور آزادی صحافت کی تحریک میں شہید فاضل راہو کا رہنمایانہ کردار تھا ۔ سندھی ہاری تحریک کے صدر کی حیثیت سے انہوں نے سندھ کے کسانوں کو سیاسی طور پر منظم کیا اور ان میں بیداری پیدا کی ۔ 1979 ء راہوکی میں منعقدہ ہاری کنونشن ایک ایسا واقعہ تھا ، جس نے سندھ کی مستقبل کی سیاست پربہت گہرے اثرات مرتب کیے ۔ اس لیے سندھ کے لوگ انہیں 17 ویں صدی کے انقلابی ، مصلح اور صوفی بزرگ شاہ عنایت شہید کی تحریک کا وارث قرار دیتے ہیں ۔ ان کا اپنے لوگوں سے بہت گہرا رشتہ تھا ۔ کسی بھی تحریک کے لیے فاضل راہو سب سے زیادہ افرادی قوت فراہم کرتے تھے ۔ انہوں نے ہاری تحریک کے علاوہ سجاک بار تحریک ( بیدار بچوں کی تحریک ) ، سندھیانی تحریک اور شاگرد تحریک کو منظم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ۔ ان کے صاحبزادے محمد اسماعیل راہو ، جو اس وقت پاکستان مسلم لیگ (ن) سندھ کے صدر ہیں ، 8 ستمبر 1978 ء کو قائم ہونے والی سجاک بار تحریک کے بانی ارکان میں شامل تھے ۔ دیگر ارکان میں ایاز لطیف پلیجو ، فیروز خواجہ اور دیگر بھی شامل تھے ۔ فاضل راہو یا تو جیل میں ہوتے تھے یا بڑے بڑے احتجاجی مظاہروں ، ریلیوں اور جلوسوں کی قیادت کر رہے ہوتے تھے ۔ ایم آر ڈی کی تحریک ایک ایسی تحریک ہے ، جو کسی قوم کی تہذیب کو اعلیٰ اقدار سے مالا مال کر دیتی ہے ۔ اس تحریک کا مرکز سندھ تھا اور 1983 ء سے 1986 ء تک اس تحریک میں فاضل راہو کا کردار سب سے نمایاں تھا کیونکہ اس دوران رسول بخش پلیجوکوٹ لکھپت جیل لاہور میں تھے اور فاضل راہو ہی اس تحریک کو چلا رہے تھے ۔ پیپلز پارٹی اور ایم آر ڈی کی دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے بھی اس تحریک میں عظیم قربانیاں دیں لیکن فاضل راہو کی جماعت عوامی تحریک بھی کسی سے پیچھے نہیں تھی ۔ فاضل راہو نے سندھ کو ایسی سرزمین بنا دیا تھا ، جو کسی بھی طور آمریت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھی ۔ اینٹی ون یونٹ تحریک سے ایم آر ڈی تک فاضل راہو عوام دشمن قوتوں کی آنکھوں میں کھٹک رہے تھے ۔ 17 جنوری 1987 ء کا بہیمانہ واقعہ ان عوام دشمن قوتوں کی طرف سے ایک ایسا حساب تھا ، جس میں صرف انہیں ہی نقصان ہوا ۔ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ فرماتے ہیں کہ(ترجمہ) ’’ راہو ! تمہاری روایت ۔۔۔ براعظموں تک پھیلی ہوئی ہے ۔۔۔ تم نے ہزاروں بھٹکے مسافروں کو صحیح راستہ دکھایا ہے ۔‘‘
تازہ ترین