• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گھر میں کام کرنے والی میڈ کئی روز کی غیر حاضری کے بعد آئی تووہ زارو قطار رورہی تھی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ دیہات میں اس کا بھائی اپنی بیوی کے ساتھ بہت بدسلوکی سے پیش آتا تھا اس لئے وہ روٹھ کر میکے جا بیٹھی مگر اپنی تین سالہ بیٹی اپنے میاں کے پاس یہ کہہ کر چھوڑ گئی کہ سنبھالو اپنی اولاد کو۔ میاں اپنی بیوی کو منانے کی کوشش کرتا رہا مگر کامیابی نہ ہوئی، بالآخر ایک روز وہ اپنی بیٹی کو اپنی بیوی کے حوالے کرنے اس کے گھر گیا۔ بیوی کے گھروالوں نے اپنے داماد کو برا بھلا کہا اور بیٹی کو لینے سے انکار کردیا۔ بچی کی ماں مامتا کے ہاتھوں مجبور ہو کر چیختی چلاتی رہی کہ خدارا میری بیٹی کو واپس نہ بھیجو میں اپنی محنت مزدوری سے اسے پال پوس لوں گی، مگر اس کے سنگدل باپ نے نواسی کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ دلبرداشتہ باپ نے وہاں سے واپس آتے ہوئے سفاکی کا وہ مظاہرہ کیا کہ جس پر عرش بھی کانپ اٹھا۔ اس نے بچی کو اپنے گھر لانے کے بجائے دھکا دے کر تالاب میں پھینک دیا اور روتی بلکتی بچی کو تالاب میں غوطے کھاتا چھوڑ کر اپنے گھر آگیا۔ اہل علاقہ نے مردہ بچی کو تالاب سے نکالا، اب سفاک باپ حوالات میں ہے اور دونوں خاندان گھر کا اثاثہ بیچ کر پولیس کے چائے پانی کا بندوبست کررہے ہیں۔ جس سانحے سے عرش لرز جاتا ہے مگر مجال ہے کہ کسی حکمران کی پیشانی پر عرق ندامت کی کوئی بوند لرزی ہو۔ ایسے واقعات و سانحات روز میڈیا کی زینت بنتے ہیں۔ ان کہانیوں کی تہہ میں جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی سبب جہالت، بے روزگاری، نشہ اور جرائم ہیں۔ یہ وہ منحوس دائرہ ہے جس میں آدھے سے زیادہ معاشرہ جکڑا ہوا ہے مگر اس کی کسی کو پروا نہیں۔ آج انٹرنیشنل وویمن ڈے کے حوالے سے حکمرانوں، سیاستدانوں اور فیشن ایبل خواتین کے بیانات اخبارات اور ٹیلی وژن اسکرینوں کی زینت بنے ہوئے ہیں مگر بیچاری عورت پاک وطن میں مظلومیت، ذلتکی اتھاہ گہرائی میں زندہ رہنے کی تگ و دو کررہی ہے۔
2017کے وویمن ڈے کا تھیم یہ ہے کہ’’تبدیلی کے لئے آگے بڑھو اور عورتوں کو بلند مرتبہ اور بلند مناصب دو۔ اس کے علاوہ عورتوں کی علمی، ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی کامیابیوں کو اجاگر اور نمایا ں کیا جائے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے ایک تجزیے کے مطابق مرد اور عورت کے درمیان پائے جانے والے تفاوت کا خاتمہ 2186سے پہلے ممکن نہیں۔ اس پر سوائے اس کے کیا کہا جاسکتا ہے کہ؎
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
آج دنیا کے ہر خطے میں عورت کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مرحوم اشفاق احمد سے کسی نے پوچھا تھا کہ آپ نے تقریباً دنیا کے ہر موضوع پر اظہار خیال کیا ہے آپ نے ڈرامے لکھے، افسانے لکھے، ناول لکھے اور سفرنامے لکھے کیا ابھی تک آپ کے دل میں کوئی حسرت ہے کہ آپ کسی موضوع پر لکھنا چاہتے ہوں مگر لکھ نہ پائے ہوں۔ اس پر اشفاق احمد نے بلا تامل کہا کہ میں امریکہ کی مظلوم خاتون کی مظلومیت کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنا چاہتا ہوں مگر ابھی تک اس موضوع پر قلم نہیں اٹھاسکا۔ امریکی عورتوں کی ایک بڑی تعداد نے لبرل ازم کے نام پر بے لباسی یا کم لباسی کو آزادی سمجھ لیا ،اب وہ دس دس گھنٹے جاب کرتی ہے اور گھر کی ذمہ داری بھی بدستور اس کے تھکے ہارے کندھوں پر ہوتی ہے۔امریکی معاشرہ کہ جسے بڑا آزاد خیال معاشرہ سمجھا جاتا ہے وہاں ا مریکی عورت کو جسمانی، جنسی اور جذباتی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اکثر حالات میں اس تشدد کی رپورٹ بھی نہیں کی جاتی۔
دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ عورت کو یونان اور رومن دونوں تہذیبوں میں مرد سے کم مقام پر رکھا گیا۔ یورپ میں عام طور پر گناہ کی ماں اور بدی کی جڑ جس مخلوق کو قرار دیا گیا وہ عورت تھی۔ اسی خیال کی بدولت مسیحیت میں مذہبی زندگی گزارنے کے لئے یہ ضروری قرار پایا کہ آدمی نکاح ہی نہ کرے۔ پاکیزہ زندگی کا تصور رہبانیت کے ساتھ منسلک کیا گیا۔ ہندوستان میں عورت کو غلام، محکوم اور داسی بنا کر رکھا گیا ا ور اسے گناہ اور اخلاقی و روحانی پستی کا مجموعہ سمجھا جاتا تھا۔ اس پس منظر میں طلوع اسلام کے ساتھ ہی عورت کو تاریخ میں پہلی بار برابری اور بڑائی کا مقام ملا۔ عرب کے اس معاشرے میں جہاں بچیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا وہاںپیدا ہونے والی ہر بچی کو رحمت قرار دیاگیااور علم کا حصول ہر مسلمان عورت اور مرد کے لئے فرض قرار پایا۔ ایک اسلامی معاشرے میں عورت چاہے تو روزگار حاصل کرسکتی ہےاور اپنی کمائی کی خود مالک و مختار ہوتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک حقیقی اسلامی معاشرے میں بیوی کے لئے یہ فرض نہیں کہ وہ تین تین وقت چولہا جلائے، کھانا پکائے، کپڑے دھوئے بلکہ ان تمام امور کے انتظامات بھی شوہر کے ذمہ ہیں۔
آج پاکستانی سوسائٹی ایک اسلامی معاشرہ تو کجا ایک انسانی معاشرہ بھی نہیں۔ پاکستان میں50فیصد سے زیادہ عورتیں جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں مظلومیت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہماری غریب دیہاتی عورتوں سے محنت مزدوری بھی کروائی جاتی ہے اور انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ ان بیچاری عورتوں کو اسلامی تعلیمات کا کوئی شعور ہوتا ہے اور نہ ہی صحت عامہ کے اصولوں کی کوئی خبر لہٰذا بچوں پر بچے پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں جنہیں خوراک میسر ہوتی نہ ہی تعلیم و تربیت اور وہ بے روزگاروں کی فوج ظفر موج کا حصہ بن جاتے ہیں۔ زرعی سوسائٹی کے امراء اپنی خواتین کو وراثت سے محروم رکھتے ہیں حالانکہ اسلام نے وراثت زر ہو یا زمین میں عورتوں کا حصہ مقرر کیا ہے۔ اس کے علاوہ کبھی ونی کے نام پر انہیں زندہ درگور کردیا جاتا ہے اور کبھی غیرت کے نام پر انہیں موت کے گھاٹ اتاردیا جاتا ہے۔30فیصد ملکی گریجویٹ خواتین صرف 10ہزار بھی نہیں کماپاتیں۔ان حالات میں عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر وزیر اعظم کے بیان کو پڑھئیے اور سوچیئے کہ صبح شام ترقی کے بلند بانگ دعوے کرنے والوں کو پاکستان کی حقیقی مسائل میں کتنی دلچسپی ہے؟ ،وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ’’خواتین کی ترقی کے لئے پاکستان عالمی معاہدوں پر عمل پیرا ہے۔ خواتین نے سیاسی پیشہ ورانہ میدانوں میں صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے‘‘۔ این جی اوز کے ساتھ منسلک ہماری فیشن ایبل خواتین مظلوم عورتوں کے ساتھ پیش آنے والے کسی ایک افسوسناک واقعہ یا سانحے کا چرچا تو چند روز کے لئے خوب کرتی ہیں مگر جس طرح سے حواّ کی غریب بیٹی پاکستانی معاشرے کی منافقانہ چکی میں پس رہی ہے اس پر آواز نہیں اٹھاتیں۔ پاکستان کی ہر بچی کو ہر صورت میں زیور تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔ شہروں اور دیہاتوں میں عورت کو گھروں، کھیتوں، کھلیانوں اور بازاروں میں تشدد سے محفوظ رکھا جائے ۔ حکومت کو سمجھ لینا چاہئے کہ حقیقی ترقی سنگ وخشت سے نہیں بندوں کو انسان بنانے سے حاصل ہوتی ہے۔ حواّ کی بیٹی یوں تو ہر جگہ مظلوم ہے مگر پاکستان میں اس کی مظلومیت انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ عورت کو باوقار کرنے کا دعویٰ کرنے والے خادم اعلیٰ نے کیا کبھی سوچا ہے کہ پاکستان کی 50فیصد خواتین زیور تعلیم سے محروم، بیس بیس میل دور سے پانی لانے، کھیتوں، بھٹوں اور گھروں میں کام کرنے پر مجبور ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ یہاں دنیا میں تو شاید چرب زبانی سے کام چل جائے مگر کل رب ذوالجلال کی عدالت میں خادم اعلیٰ سے حواّ کی بیٹی کی مظلومیت کے بارے میں سوال ہوگا تو وہ کیا جواب دیں گے؟

.
تازہ ترین