• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نئی رضاکارانہ ایمنسٹی اسکیم پر لکھے گئے میرے گزشتہ کالم پر ملک اور بیرون ملک سے بے شمار قارئین نے ای میلز کے ذریعے مجھے اپنی متضاد آرا دیں اور درخواست کی کہ پاکستان میں اب تک مختلف ادوار میں پیش کی جانے والی تمام ایمنسٹی اسکیموں اور موجودہ رضاکارانہ ایمنسٹی اسکیم کے بارے میں لکھوں۔
قارئین! پاکستان کی پہلی کامیاب ایمنسٹی اسکیم جنرل ایوب خان کے دور میں پیش کی گئی جس میں جی ڈی پی کا 7% اضافی ریونیو وصول کیا گیا تھا۔ ایف بی آر کے ڈیٹا کے مطابق اس اسکیم کے تحت 71,289 افراد ٹیکس نیٹ میں لائے گئے تھے۔ دوسری ایمنسٹی اسکیم 1969ء میں جنرل یحییٰ خان کے دور میں متعارف کرائی گئی جس سے جی ڈی پی کا صرف 1.52% ریونیو حاصل ہوا اور صرف 19,600 افراد ٹیکس نیٹ میں داخل کئے گئے۔ تیسری ایمنسٹی اسکیم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پیش کی گئی جس سے جی ڈی پی کا 2.2% ریونیو حاصل ہوا۔ چوتھی ایمنسٹی اسکیم 1986ء میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں متعارف کرائی گئی جس کے مصدقہ اعداد و شمار دستیاب نہیں ہوسکے۔ پانچویں ایمنسٹی اسکیم کا 1997ء میں نواز شریف کے دور میں اعلان کیا گیا جس سے صرف 141 ملین روپے کا ٹیکس ریونیو حاصل ہوا۔ چھٹی ایمنسٹی اسکیم جنرل پرویز مشرف کے دور میں متعارف کرائی گئی جس میں 10% کی شرح سے سب سے زیادہ 11.5 ارب روپے ریونیو وصول کیا گیا اور 88,000 افراد ٹیکس نیٹ میں شامل کئے گئے۔ 2008ء میں ساتویں ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے پیپلزپارٹی کی حکومت نے 2% کی شرح سے 2.8 ارب روپے کا ریونیو وصول کیا۔ اس کے علاوہ پی پی حکومت نے اپنے دور کے آخری ایام میں اسمگل شدہ گاڑیوں کیلئے بھی ایک ایمنسٹی اسکیم متعارف کرائی جس کے تحت کسٹم ڈیوٹی ادا نہ کئے جانے والی گاڑیوں کے مالکان معمولی ٹیکس کی ادائیگی کرکے اپنی گاڑیوں کو ریگولرائز کراسکتے تھے لیکن گزشتہ سال جون میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس اسکیم کو غیر قانونی قرار دے کر ایف بی آر کو اس اسکیم کے تحت ریگولرائز کی جانے والی تمام گاڑیوں کو ضبط کرنے کا حکم دیا تھا۔ وفاقی محتسب شعیب سڈل کے مطابق اس اسکیم کے ذریعے چوری شدہ گاڑیوں کو بھی ناجائز ریگولرائز کرایا گیا تھا لیکن بعد میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے 17,000 غیر قانونی گاڑیوں کو ریگولرائز کردیا جس سے حکومت کو 35 ارب روپے کا نقصان پہنچا۔ گزشتہ سال حکومت نے انہی خطوط پر اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی رقوم کے حصول کے ذرائع بتانے کی چھوٹ دی تھی۔اب یکم جنوری 2016ء کو نواز حکومت نے آٹھویں ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا۔ یہ اسکیم صرف تاجروں کیلئے ہے جس کا اطلاق کارپوریٹ، سروس، صنعتی سیکٹرز، ملازمت پیشہ طبقے، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، سینیٹرز، منی لانڈرنگ اور منشیات سے حاصل ہونیوالی رقوم پر نہیں ہوگا۔اس کے علاوہ نئی رضاکارانہ اسکیم میں 5 کروڑ روپے تک کے غیر ظاہر شدہ رقوم کو 1% ٹیکس دے کر آفیشل کیا جاسکتا ہے۔ اسکیم میں پراپرٹی، رئیل اسٹیٹ اور گاڑیاں شامل نہیں کی گئی ہیں اور حکومت کا زیادہ تر فوکس ٹیکس نادہندگان کے بینک اکائونٹس ہیں جبکہ ٹیکس دہندگان کیلئے اس اسکیم میں کوئی خاص مراعات نظر نہیں آتیں تاہم سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ نے اپنی سفارشات میں اسکیم میں تاجر برادری کے ساتھ دیگر سیکٹرز اور پارلیمنٹرینز کو بھی شامل کرنے کی تجویز دی ہے۔
نئی رضاکارانہ اسکیم کا فوکس ٹیکس نادہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانے پر ہے جس کے تحت 31جنوری 2016ء تک نئے ٹیکس گوشواروں کا گزشتہ4 سال کی آمدنی کا ذریعہ نہیں پوچھا جائے گا۔ اس کے علاوہ آئندہ 3 سالوں (2016ء سے 2018ء) کے ٹیکس گوشواروں میں اگر کوئی تاجر گزشتہ سال کے مقابلے میں 25% زیادہ ٹرن اوور دکھاتا ہے تو وہ انکم ٹیکس آڈٹ سے مستثنیٰ ہوگا۔ اس اسکیم میں 5 کروڑ روپے تک کے ٹرن اوور پر 0.20% (ایک لاکھ روپے)، 25 کروڑ روپے تک 0.15% (4 لاکھ روپے) اور 25 کروڑ روپے سے زائد ٹرن اوور پر 0.1% ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ امید کی جارہی ہے کہ رضاکارانہ ایمنسٹی اسکیم سے 10 لاکھ نئے ٹیکس نادہندگان ٹیکس نیٹ میں شامل ہوجائیں گے۔ حکومت نے نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کیلئے 50 ہزار روپے تک کی بینکنگ ٹرانزیکشن پر 0.6% ودہولڈنگ ٹیکس عائد کیا تھا جسے بعد میں کم کرکے 0.3% کردیا گیا تھا لیکن تاجروں کے ٹیکس نیٹ میں آنے کے بعد ان کی بینکنگ ٹرانزیکشن پر ودہولڈنگ ٹیکس کی کٹوتی ختم ہوجائے گی بصورت دیگر انہیں بینکنگ ٹرانزیکشن پر ودہولڈنگ ٹیکس دینا پڑے گا۔ اس وقت ملک میں 35 لاکھ تاجر ہیں جن میں سے صرف ایک لاکھ 35 ہزار ٹریڈرز ٹیکس نیٹ میں ہیں جو مجموعی صرف 0.05% بنتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹریڈنگ سیکٹر کا جی ڈی پی میں 19% اور ایگریکلچرل سیکٹر کا 21% حصہ ہے لیکن ان سیکٹرز سے حاصل ہونے والا ریونیو نہایت کم ہے جس کی وجہ سے ٹیکس وصولی کا زیادہ بوجھ صنعتی اور کارپوریٹ سروس سیکٹر پر ہے جو صنعتی سیکٹر کو غیر مقابلاتی بنارہا ہے۔
نادرا کی 2012ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 35 لاکھ افراد کو لائف اسٹائل کی بنیاد پر شناخت کیا گیا ہے جو ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں۔ حکومت کی پہلی ترجیح ان امیر افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی ہونا چاہئے۔پاکستان میں باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ٹیکس چور ہر چند سالوں کے بعد کالے دھن کو سفید کرنے والی حکومتی ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے معمولی رقم دے کر اپنی کمائی قانونی بنالیتے ہیں جبکہ باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرنے والے اپنی کمائی پر متواتر اونچی شرح ٹیکس ادا کررہے ہیں۔ میں ان کے نقطہ نظر سے متفق ہوں کہ متواتر ایمنسٹی اسکیموں کے آنے سے ٹیکس چوروں کا خوف ختم ہوجاتا ہے اور وہ یہ سوچتے ہیں کہ وہ آئندہ آنے والی اسکیموں کے ذریعے اپنے کالے دھن کو سفید کرالیں گے لہٰذا ایمنسٹی اسکیم کی مدت ختم ہونے کے بعد ٹیکس چوروں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کیا جانا نہایت ضروری ہے تاکہ انہیں یہ پیغام دیا جاسکے کہ اب ان کیلئے کالا دھن رکھنا آسان نہیں۔ اس کے علاوہ کالے دھن روکنے کیلئے سخت قوانین بنائے جائیں کیونکہ یہ المیہ ہے کہ ایمنسٹی اسکیم کے تحت ٹیکس نادہندگان، ایماندار ٹیکس دہندگان کے مقابلے میں نہایت کم ٹیکس ادا کرکے اپنے اثاثے اور آمدنی کو قانونی شکل دے دیتے ہیں جس سے ٹیکس دہندگان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
2008ء میں امریکی ٹیکس انتظامیہ نے ایک پاکستانی فیملی کی نیویارک رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں 23 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری پر ایف بی آر سے انکوائری میں سرمایہ کار کی آمدنی پر پاکستان میں ٹیکس ادا کرنے کے بارے میں پوچھا۔ انہی دنوں حکومت نے 2% ٹیکس ادائیگی پر کالے دھن کو سفید کرنے کی ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کر رکھا تھا جس سے متعلقہ سرمایہ کار نے فائدہ اٹھاکر اپنی غیر ظاہر شدہ رقم کو آفیشل بنالیا اور حکومت نے امریکی حکام کو ایمنسٹی اسکیم کا حوالہ دیئے بغیر صرف یہ کہہ کر کہ اس پر ٹیکس ادا کیا گیا ہے، انکوائری ختم کروادی۔ اس طرح کے واقعات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ہمارے ملک میں ایمنسٹی اسکیمیں زیادہ تر بڑی مچھلیوں کو تحفظ فراہم کرنے اور ان کے کالے دھن کو سفید کرنے کیلئے استعمال کی گئی ہیں نہ کہ ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرنے کیلئے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف ادوار جن میں زیادہ تر آمروں کی حکومتیں تھیں، میں 8 ایمنسٹی اسکیموں کے باوجود پاکستان کی جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح صرف 9% ہے جو خطے میں سب سے کم ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایف بی آر نئی رضاکارانہ ایمنسٹی اسکیم کی مدت ختم ہونے کے بعد ٹیکس نادہندگان پر ان کے غیر ظاہر شدہ بینک اکائونٹس پر منظم طریقے سے کریک ڈائون کرے تاکہ پاکستان کے ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہو۔ آج کل اسکیم کو قومی اسمبلی میں انکم ٹیکس ترمیمی بل 2016ء بحث کیلئے پیش کردیا گیا ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی اکثریت ہونے کی وجہ سے جلد ہی یہ منی بل منظور کرلیا جائے گا جس کی سینیٹ سے منظوری لازمی نہیں۔ تاجروں سے بھی میری درخواست ہے کہ وہ اس اسکیم سے فائدہ اٹھاکر اپنے اکائونٹس درست کرکے قومی دھارے میں شامل ہوجائیں تاکہ ملکی معیشت کو دستاویزی شکل دی جاسکے۔
تازہ ترین