قوم آج یکجہتی، وحدت اور بہتر مستقبل کے یقین کے جس جذبے کے ساتھ یوم پاکستان منا رہی ہے اس کی کوئی مثال ماضی میں نہیں ملتی کیونکہ وہ خواب جو بانیان پاکستان نے دیکھا تھا اور گزشتہ کئی دہائیوں تک وہ تشنہ تعبیر رہا اب حقیقت میں ڈھل رہا ہے۔ 23مارچ 1940ء کو مسلمانان برصغیر کے لئے الگ وطن کے قیام کی راہ ہموار کرنے والی جو قرارداد منظور ہوئی تھی وہ ان تاریخی واقعات کا منطقی نتیجہ تھی جو پچھلی کئی دہائیوں سے وقوع پذیر ہو رہے تھے۔ یعنی 23مارچ کی قرارداد پاکستان کوئی اچانک واقعہ نہ تھی بلکہ ایک مسلسل تاریخی عمل کا نتیجہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا حال بھی اس قرارداد سے مربوط اور اس کے زیراثر ہے۔ زندہ قومیں نہ صرف اپنے ماضی کے ساتھ رشتہ استوار رکھتی ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی ان کے بہتر حال اور مستقبل کی صورت گری کرنے والی قربانیوں سے آگاہ رکھتی ہے۔ ماضی سے یہی رابطہ قوموں کو وہ جذبہ اور استعداد دیتا ہے جس سے وہ اپنے قومی اہداف اور مقاصد کے حصول کو یقینی بناتی ہیں۔
قرارداد پاکستان کا متن برصغیر کے ان مخصوص سیاسی، معاشی اور سماجی حالات کو بھی بیان کرتا ہے جن کے زیراثر مسلم سیاسی قیادت ایک تدریجی ارتقا سے گزرتی ہوئی اس فیصلے تک پہنچی۔ جب مسلمانان ہند کا سیاسی شعور اس حقیقت کو سمجھ گیا کہ عالمی سطح پر برطانوی سامراج کی گرفت کمزور ہونے کے باعث برصغیر کا سیاسی اور دستوری نقشہ تبدیل ہونے لگا ہے تو انہوں نے اس امر کا فیصلہ کیا کہ مسلمان اپنے مفادات کی حفاظت کیلئے اپنے لائحہ عمل پر نظرثانی کریں۔ اس سے پہلے اگر مسلمانوں کو متحدہ ہندوستان کے مستقبل کے آئینی اور دستوری بندوبست میں اپنی مناسب نمائندگی کے حصول کی کوئی امید بھی تھی تو وہ نہرو رپورٹ اور سائمن کمیشن نے ختم کر دی کیونکہ اب حالات کثیر قومی ہندوستان کی بجائے ہندو غلبے کے حامل ملک کے قیام کی طرف بڑھ رہے تھے۔
مغربی جمہوریت کے تصور کے مطابق ہونے والے آئینی بندوبست میں جہاں فیصلہ عددی اکثریت کی بنا پر کیا جاتا تھا، نہرو جیسے کانگریسی لیڈروں نے مسلمانوں کے الگ قوم کے طور پر کئے جانے والے مطالبے کو یکسر مسترد کر دیا تھا۔ جس بات نے مسلمانوں کے مسائل کو مزید پیچیدہ اور گمبھیر کر دیا تھا وہ مسلمانوں کے پاس اس جامع بیانیے کی کمی تھی جو تاریخی پس منظر کے ساتھ مسلمانوں کے اسلام کے اصولوں پر مبنی آئیڈیل کو اس طرح بیان کرتا ہو کہ ان کی ثقافتی و ملی اور تہذیبی شناخت کے تحفظ کا ضامن ہو۔
اس التباس کا پہلی مرتبہ خاتمہ اس وقت ہوا جب 1930ء میں الہ آباد میں ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے پچیسویں سالانہ اجلاس میں علامہ محمد اقبال نے اپنا خطبہ پیش کیا۔ اقبال نے مسلمانوں کی الگ شناخت کے سوال کو اپنی علمی بصیرت اور نکتہ رس دانش کے ساتھ ہمیشہ کے لئے طے کر دیا اور شافی استدلال فراہم کر دیا کہ مسلمان ہر لحاظ سے ایک الگ قوم ہیں۔ یہ خطبہ مسلمانوں کی سیاسی بصیرت کی بیداری اور سیاسی فکر کی نشاۃ نو کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔ علامہ نے مسلمانوں کو سیاسی جدوجہد کا پیغام دیا۔ اس کا نتیجہ تھا کہ اب مسلمانان ہندکی سیاسی جدوجہد میں ان کے تہذیبی، سماجی، سیاسی اور اقتصادی تحفظ کی آواز ایک ناگزیر عنصر کے طور پر شامل ہو گئی۔
اگر مسلمانوں کے ذہن میں ان کے سیاسی عزم اور اہداف کے بارے میں کوئی غلط فہمی موجود بھی تھی تو وہ 1937ء کے انتخابات کے بعد قائم ہونے والی کانگریس وزارتوں سے بالکل ختم ہو گئی جو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت ہوئے تھے۔ 1937ء سے 1939ء کے دوران کا عرصہ ہندوستان کی تاریخ کا تاریک ترین دور کہلاتا ہے جو کانگریس وزارتوں کا دور تھا۔ مسلمانوں کے لئے اب یہ اندازہ کرنا کچھ مشکل نہ تھا کہ اگر وفاقی سطح پر کانگریس کا اقتدار قائم ہو گیا تو اس کے نتائج مسلمانوں کے لئے کیا ہوں گے کیونکہ کانگریس حکومت کا واحد ایجنڈا مسلمانوں کی ہر تہذیبی شناخت کو ختم کرنا تھا۔ اب ہندو ذہن مسلمانوں کے سامنے بالکل طشت ازبام ہو چکا تھا۔’’مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے‘‘ کے مصداق کانگریس وزارتوں کی مسلمان دشمنی نے مسلمانوں میں الگ شناخت کی تڑپ اور آزاد مملکت کے قیام کی جدوجہد کے جذبے کو بیدار کر دیا۔ اب ان میں برطانوی سامراجی تسلط کے خلاف کانگریس کے ساتھ مل کر متحدہ جدوجہد کرنے کا خیال ختم ہو گیا۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب 1930ء کے خطبہ الہ آباد میں علامہ اقبال کے بیان کردہ تصور کے عملی شکل میں ڈھلنے کا آغاز ہو گیا۔
قرارداد پاکستان کا ایک اہم پہلو نوزائیدہ مسلم ریاست میں اقلیتوں کے حقوق پر زور ہے۔ یہ اس امر کا اظہار ہے کہ مسلمان اقلیتوں کے کلچر، ان کی مذہبی اور تہذیبی شناخت کے تحفظ کے لئے کتنے حساس ہیں۔ قرارداد پاکستان کی موثریت اور مسلم عوام میں مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اسے 1946ء میں آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنے دستور کا حصہ بنا لیا اور یہی قرارداد مسلمانوں کے الگ وطن کے مطالبے کی بنیاد بن گئی۔
قیام پاکستان کے بعد سے گزشتہ سات دہائیوں کے دوران بطور قوم ہم نے بہت نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ اگر سقوط ڈھاکہ جیسے سانحات کی صورت میں ہمارے ماضی میں کچھ افسوسناک واقعات ہیں تو بطور قوم ہم نے قومی وقار و افتخار کی کئی منزلیں بھی طے کی ہیں۔ جب بھی قوم کو کوئی غیر معمولی چیلنج درپیش ہوا قوم مشکلات کی کٹھالی سے کندن ہی بن کر نکلی۔ تاہم ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرنا ہو گا کہ ہماری قومی تاریخ میں ایسے مواقع ضرور آئے جب ہم اجتماعی طور پر قیام پاکستان کے بنیادی مقاصد سے دور ہوئے۔
آج ہمارا وطن دو طرح کی ریاستوں میں بٹا ہوا نظر آتا ہے۔ ایک وہ پاکستان جو اس ملک کی دس فیصد اشرافیہ کے قبضے میں ہے اور اسے ہر طرح کے حقوق، ریاستی تحفظ اور زندگی کی آسائشیں میسر ہیں۔ جبکہ دوسرا وہ پاکستان جس کے نوے فیصد عوام پچھلی سات دہائیوں سے مشکلات کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس خلیج کو ختم کیا جائے اور پاکستان کے نوے فیصد عوام کو ملکی وسائل میں شراکت و ملکیت کا حامل قرار دیا جائے۔ یہ تاریخ کا سبق ہے کہ وہ قومیں جہاں عوام کے بنیادی آدرش ادھورے رہیں، اپنے مستقبل سے محروم ہو جاتی ہیں۔ یہ المیہ تباہی اور شکست و ریخت کا پیش خیمہ ہوا کرتا ہے۔ موجودہ مسائل کے تناظر میں ہمارے لئے اہم ترین اقدام قومی سطح پر ایک ایسے عملی بیانیے کی تشکیل و تعمیل ہے جو ہمیں قیام پاکستان کے مقاصد سے ہم آہنگ کر دے۔ صرف فکری واضحیت اور عملی اقدامات کے ذریعے ہی ہم ان اہداف کا حصول یقینی بنا سکتے ہیں جو قیام پاکستان کی جدوجہد کے دوران بانیان پاکستان کے پیش نظر تھے۔ آج دہشت گردی، انتہاپسندی، علاقائیت اور فرقہ وارانہ انداز فکر ہمیں اور ہماری توانائیوں کو تصور پاکستان سے دور لے جا رہے ہیں۔ یہ سارے مسائل صرف اس لئے پیدا ہوئے کہ ہم نے اس قومی انداز فکر، جس میں انسانی اقداراور قومی بہبود شامل ہو ، کو کبھی اہمیت نہیں دی ۔ یہی سبب ہے کہ ہم قومی سطح پر فکری کم مائیگی اور اس قومی افلاس کا شکار ہیں جو ہماری قومی سالمیت کی منزل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ کوئی بھی ایسا وژن جس میں واضح قومی اہداف کے حصول کا یقینی اور موثر لائحہ عمل موجود نہ ہو اور وہ جدوجہد سے خالی ہو کبھی بھی زوال پذیری کے اثرات کا مداوہ نہیں ہو سکتا۔ عوام کا اپنے قومی وجود پر اعتماد اسی صورت میں بحال ہو سکتا ہے کہ انہیں اس امر کا یقین ہو کہ ریاست ان کے مسائل سے آگاہ اور ان کے حل کی سکت رکھتی ہے۔ ان کی آنے والی نسلوں کے لئے یہاں برابر مواقع موجود ہیں اور قانون کا منصفانہ نفاذ انہیں ہر طرح کے ظلم و زیادتی سے تحفظ فراہم کر رہا ہے۔ اس سے ہی معاشرے میں عوام کا فعال اور ذمہ دارانہ کردار بحال ہوتا ہے۔ ایک جمہوری، متحمل اور پرامن معاشرے کا قیام جہاں غیر مسلم اقلیتوں کو ہر طرح کی مذہبی آزادی اور مکمل تحفظ حاصل ہو ہماری منزل ہے۔
بطور خادم اعلیٰ اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے جب میں شب و روز عوام کی خدمت میں مصروف ہوتا ہوں تو میرے پیش نظر اہم مقصد ہر سطح پر عوام کی بہبود کو یقینی بنانا حکومتی پالیسی کا ناگزیر جزو بنانا ہوتا ہے۔ عوامی خدمات کے ہر میدان میں چاہے وہ تعلیم ہو، صحت، گورننس، بجلی کی فراہمی، صاف پانی کی فراہمی، مقامی حکومتوں کا قیام یا جو بھی شعبہ زندگی ہو ان سب میں میرے لئے بنیادی محرک عوام کی خدمت کا جذبہ ہی ہے۔ اس جذبہ خدمت کی اساس قائد کا وہ فرمان ہے جو 11 اگست 1947ء کو پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی سے ان کے تاریخی خطبے کا حصہ ہے۔ قائد اعظم ؒ نے فرمایا:
’’اگر ہم پاکستان کی عظیم ریاست کو خوشحال بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں لوگوں خصوصاً عوام اور غریب لوگوں کی بہبود اور فلاح پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔ آپ میں سے ہر ایک بلا تفریق رنگ، ذات، نسل یا طبقاتی تقسیم کے اس ملک کا برابر حقوق و فرائض رکھنے والا شہری ہے۔‘‘
آیئے! اس یوم پاکستان کے موقع پر ہم پاکستان کے اساسی تصور سے تحریک حاصل کریں اور عزم مصمم کریں کہ اپنے اجداد کے خوابوں کو ہم نے حقیقت میں بدلنا ہے۔ ہم نے اپنے ماضی سے ایک ترقی پسند، معتدل اور تحمل و برداشت کے حامل معاشرے کا مستقبل تخلیق کرنا ہے۔
.