• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مارچ2017کا آخری ہفتہ راقم نے بلوچستان میں گزارا۔ وزٹ کی نوعیت اسٹڈی ٹور سے ملتی جلتی تھی۔ میزبان حد درجہ مہربان اور مجھے ہر اس جگہ لے گئے جس کی میں نے خواہش کی، زیادہ تر فوکس گوادر پر رہا، کیونکہ شاندار مستقبل کی نوید کیلئے اس بستی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا ۔کو ئٹہ میں بھی مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں سے مکالمہ رہا اور یہ جان کر حیرت ہوئی کہ کم و بیش ہر طبقے میں گوادر اور CPECکے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے اور ’’تقدیر بدلنے والی‘‘ گرانقدر چینی سرمایہ کاری کے شادانیوں کی گونج بلوچستان میں کچھ زیادہ واضح نہیں۔ حالانکہ اس بارات کے دولہا (گوادر) کا تعلق اسی صوبہ سے ہے۔ پڑھا لکھا اور دانشورطبقہ وزیراعظم کی اس تقریر کا ذکر بالخصوص کر رہا تھا، جو انہوں نے CPECکے ایک سیکشن کے افتتاح کے موقع پر کی تھی اور کہا تھا کہ ’’بلوچستان کے موجودہ اور مستقبل کے تمام تر وسائل پر صوبے کے لوگوں کا حق فائق ہونا چاہئے‘‘ لوگ کہہ رہے تھے کہ ملک کے چیف ایگزیکٹو کے بیان کی نوعیت Suggestiveہے اور انہوں نے ایک خواہش کا ذکر کیا ہے۔ اگر وہ واقعی بلوچستان کے وسائل پر مقامی لوگوں کا حق فائق سمجھتے ہیں تو اسے قانونی شکل کیوں نہیں دے دیتے۔ ایک سینئر یونیورسٹی ٹیچر نے کہاکہ ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ CPECکے کھاتے سے بلوچستان پر سات بلین ڈالر سے کچھ اوپر رقم خرچ کی جا رہی ہے۔ اکنامک کاریڈور کے حوالے سے اس صوبے کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ صوبہ بھر میں ہزاروں کلومیٹر طویل شاہراہیں تعمیر ہو رہی ہیں۔ اور گوادر کی تو کایا کلپ ہونے جا رہی ہے۔ جو مستقبل قریب میں دبئی کو بھی پیچھے چھوڑ جائے گا۔ مگر اس سے عام آدمی کو تو کچھ بھی ملنے والا نہیں۔ البتہ یہ ضرور ہوا ہے کہ CPECکے مغربی روٹ کی وجہ سے متصل علاقوں میں زمینوں کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں اور لوگ آبائی زمینیں بیچ کر کراچی منتقل ہو رہے ہیں، مگر اس کا نقصان یہ ہوا کہ نرخ مقامی لوگوں کی پہنچ سے باہر نکل گئے ہیں اور وہ سرچھپانے کیلئے زمین کا ٹکڑا نہیں خرید سکتے۔‘‘
بعض لوگوں نے گوادر کی زمینوں کی خرید و فروخت کے حوالے سے گومگو کی حکمت عملی کا ذکر بھی کیا۔جن کا کہنا تھا کہ گوادر کی پراپرٹی کے اشتہارات آئے دن اخباروں میں نکلتے ہیں۔ بے حد دلکش اور Catchyقسم کے اشتہار’’گوادر۔ گوادر ۔گوادر آج کی مٹی کل کا سونا‘‘ یا پھر سوچنے کا وقت نہیں ورنہ پچھتائو گے‘‘ وغیرہ وغیرہ اور یقیناً لوگ انویسٹ بھی کر رہے ہوں گے۔ مگر اس حوالے سے اصل بھونچال آج سے 10.12برس پہلے آیا تھا اور اخباروں کے صفحوں کے صفحے گوادر کےاشتہارات سے سیاہ ہوتے تھے۔ اندر کی خبر رکھنے والوں نے 2003-05کے دوران گوادر کی ہزاروں ایکڑ زمین اونے پونے خریدلی تھی۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ 12677 ایکڑ رقبہ پر مشتمل 75 رہائشی اسکیمیں گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے پاس رجسٹرڈ ہیں، مگر45 کے NOC منسوخ یا زائد المیعاد ہو چکے ہیں۔ اور جن 30کے پاس یہ پروانہ موجود ہے وہ بھی تنسیخ کے بعد عطا ہوا ہے اور GDA والے اسے مشروط طور پر بحال Pconditionally Restored Noc کا نام دے رہے ہیں۔ سرمایہ کاری کہاں کہاں سے آئی ہے۔ یہ احوال بھی سن لیں۔ 75اسکیموں میں سے 40کے سیٹھ کراچی سے ہیں، 17لاہور کے، 5پنڈی /اسلام آباد کے، ایک ایک پشاور، چکوال اور فیصل آباد سے جبکہ 11اسکیموں کے دفاتر گوادر میں ہیں۔ یہی احوال کمرشل اور انڈسٹریل منصوبوں کا بھی ہے۔ گوادر کے انڈسٹریل زون میں الاٹمنٹ کے حوالے سے بھی کئی کہانیاں زبان زد عام ہیں۔ جس کے سبب ڈاکٹر عبدالمالک کی حکومت نے ستمبر2015میں انکوائری کے احکامات جاری کئے تھے۔ اس کے بعد بھی گاہے بگاہے علاقے میں ٹرانسفر آف لینڈ کے حوالے سے پابندیاں عائد کی جاتی رہی ہیں۔
راقم نے ایک چیز خاص طور پر نوٹ کی CPECاور گوادر کے حوالے سے صوبےکے طلبا اور نوجوان مکمل آگہی کے ساتھ ساتھ شکوک و شبہات بھی رکھتے ہیں۔مقامی کالج کے ایک طالب علم نے بتایا کہ اس کا باپ گوادر میں ماہی گیری کا کام کرتا تھا، جسے اب کاروبار کیلئے چالیس کلومیٹر دور دھکیلا جا رہا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ یہ اہتمام عام آدمی کیلئے نہیں بلکہ دوست ملک کیلئے بھی کیا جا رہا ہے جس کے اقتصادی کے ساتھ ساتھ شاید کچھ اور عزائم بھی ہیں۔ موصوف کا دعویٰ تھا کہ یہ منصوبہ مقامی آبادی کو اپنے صوبے میں اقلیت میں بدل دے گا۔ اور دلیل یہ دی کہ آج بھی گوادر میں ہر طرف اجنبی چہرے دکھائی دیتے ہیں، اور مقامی ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ ایک دوسرے طالب علم کا خیال تھا کہ مقامی سیکورٹی کے بغیر گوادر کو کامیاب نہیں بنایا جا سکتا۔فوج کہاں کہاں جائے گی؟ مقامیوں کو اعتماد میں لینا ازبس ضروری ہے۔ جامعہ کوئٹہ کے ایک سینئر فیکلٹی ممبر کا کہنا تھا کہ سن رہے ہیں کہ اگلے چند برسوں میں گوادر کی آبادی20 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ جس میں 20ہزار تو چینی ہوں گے اور باقی دنیا جہاں کے بھانت بھانت کے لوگ، چند ہزار کی آبادی کے اس خوابیدہ سے قصے کی یوں کایا کلپ ہوئی، تو مقامی ڈھونڈے سے بھی نہ ملیں گے۔ اور ان کی حیثیت امریکہ کے ریڈ انڈینز اور آسٹریلیاکے aborginals سے مختلف نہ ہو گی۔ جہاں تک بلوچوں کیلئے ملازمت کے مواقع کا تعلق ہے۔ آبادی کے لحاظ سے ملکی ملازمتوں میں ان کا حصہ محض چھ فیصد ہےجو شاید انہیں گوادر میں بھی پیش کر دیا جائے۔ سرکار کے ذہن میں اگر اس حوالے سے کچھ اور منصوبہ ہے تو اس پر سے پردہ اٹھایا جانا چاہئے تاکہ لوگوں کے شکوک وشبہات دور ہوں۔ طلباء میں خاص طور پر وزیر اعلیٰ کے مشیر قیصر بنگالی سے منسوب اس جملے کا چرچا تھا کہ ہمیں تو شک ہے کہ CPECمیں بلوچوں کا حصہ محض یہ ہو گا کہ غیر ملکیوں کے بیگاری بن جائیں، یا ان کی گاڑیوں کے پنکچر لگانے کا دھندہ کر لیں۔

.
تازہ ترین