• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے باچا خان یونیورسٹی میں ہلاکت خیز دہشت گردی کے صرف تین دن بعداس منصوبے میں شریک چار سہولت کاروں کو گزشتہ روز پشاور میں پریس بریفنگ کے موقع پر پیش کردیا ۔ اس تیزرفتار کارروائی سے ملک کی خفیہ ایجنسیوں اور قانون نافذکرنے والے اداروں کی اعلیٰ صلاحیتوں کا بلاشبہ واضح اظہار ہوا ہے۔فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ نے میڈیا کو بتایا کہ دہشت گردوں کے مرکزی اور ذیلی سہولت کاروں کی تعداد مجموعی طور پر آٹھ ہے جن میں سے چارکو گرفتار کیا جاچکا ہے جبکہ ایک سہولت کار، اس کی بیوی اور بھانجی کی تلاش جاری ہے۔انہوں نے اب تک حاصل ہونے والی معلومات سے قوم کو آگاہ کرتے ہوئے مزید بتایا کہ اس کارروائی کو افغانستان کے ایک علاقے سے کمانڈر عمر نارے اور اس کے نائب قاری ذاکر نے کنٹرول کیا۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کے مطابق دہشت گردوں کو ذاکر نے طورخم بارڈر پار کرایا جہاں سے وہ عام شہریوں کے روپ میں پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے مردان پہنچے۔یہاں عادل اور ریاض نامی سہولت کاروں نے انہیں مردان چارسدہ روڈ پر واقع دو گھروں میں ٹھہرایا۔مستری عادل نے ،جو کچھ دن پہلے باچا خان یونیورسٹی میں تعمیراتی کام کرچکا تھا، دہشت گردوں کو یونیورسٹی کا نقشہ فراہم کیا جبکہ ذاکر اور ایک دوسرے سہولت کار نوراللہ نے کچھ روز قبل ایک رکشہ خریدا۔دہشت گردوں کو رکشہ میں بٹھا کے یونیورسٹی کے ارد گرد کے علاقوں کی ریکی کا کام عادل نے انجام دیا۔پھر حملے والے دن دہشت گردوں کو اسی رکشہ میں لے جاکر یونیورسٹی کے باہر گنے کے کھیتوں میں اتارا گیا۔آئی ایس پی آر کے سربراہ نے مزید بتایا کہ کارروائی کے لیے اسلحہ درہ آدم خیل سے خریدا گیا اور اسلحہ لانے کے لیے مفرور دہشت گرد کی بیوی اور بھانجی سے کام لیا گیا۔ یونیورسٹی میں دہشت گرد کارروائی کے دوران افغانستان سے دس موبائل کالیں ریکارڈ کی گئیں۔ بریفنگ کے دوران منصوبے کے ماسٹر مائنڈ اور ایک پاکستانی صحافی کے مابین ہو نے والی گفتگو بھی سنائی گئی۔جنرل عاصم باجوہ نے اس امر کی وضاحت بھی کی کہ پاکستان کی جانب سے افغان حکومت کو دہشت گرد کارروائی کے لیے قطعاً مورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا ہے، البتہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کارروائی کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال ہوئی ۔ پاکستان کے اس دوٹوک موقف کی بناء پر پاکستانی قوم افغان حکمرانوں سے یہ توقع رکھنے میں حق بجانب ہے کہ وہ بھی اپنے ملک میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں کا الزام پاکستانی حکومت ، فوج اور خفیہ ایجنسیوں پر عائد کرنے کی روش سے گریز کریں گے اور خطے کو درپیش دہشت گردی کے مشترکہ چیلنج سے نمٹنے کے لیے باہمی تعاون سے آگے بڑھیں گے۔پاک فوج کے ترجمان نے دہشت گردی کے خلاف قوم سے متحد رہنے کی اپیل کرتے ہوئے پوری سوسائٹی کی جانب سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سہولت کاروں کے بغیر دہشت گردی نہیں ہوسکتی، دہشت گردی کے خلاف سب کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ پاک فوج کے ترجمان کی یہ اپیل پوری قوم کی فوری توجہ کی مستحق ہے۔ ملک بھر میں لوگ خود اپنی بستیوں میں مشتبہ اجنبی افراد کی آمد ورفت اور سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور ان کے بارے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بروقت اطلاع دیں تو دہشت گردوں کا کام یقیناً بہت مشکل ہوجائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاک افغان سرحد سے غیرقانونی آمد و رفت کا سلسلہ بند کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کا کم سے کم مدت میں عمل لایا جانا بھی ضروری ہے۔جنرل باجوہ نے بھی اس ضرورت کا اظہار کیا ہے کہ ملک کی سیکورٹی ٹھیک کرنی ہے تو پاک افغان سرحدسمیت تمام سرحدوں کو محفوظ بنانا ہوگانیز افغانستان اور پاکستان کے درمیان آمد ورفت کے لیے ویزا اور پاسپورٹ لازمی قرار دینا ہوگا۔اسلام آباد اور کابل کواس مقصد کے لیے جلداز جلد مشترکہ پروگرام تشکیل دے کر اس پر عمل شروع کردینا چاہیے۔

چین ایران تجارت بڑھانے پرمتفق
ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے اور امریکہ اور دوسرے ممالک کی جانب سے ایران پر عائد پابندیوں کے خاتمے کے بعد ایران دوسرے ممالک سے تجارت بڑھانے کے حوالے سے اقدام کر رہا ہے۔ اس حوالے سے عوامی جمہوریہ چین کے صدر شی چن پنگ کا دورہ ایران انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ گزشتہ روز چینی صدر نے ایرانی صدر حسن روحانی سے تہران میں ملاقات کی۔ اس موقع پر دونوں رہنمائوں نے مشترکہ پریس کانفرنس کی جس میں ایرانی صدر حسن روحانی کا کہنا تھا کہ ایران اور چین نے دو طرفہ تعلقات بڑھانے اور آئندہ دس برس تک تجارتی حجم 600ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ تہران اور بیجنگ میں 17معاہدوں پر دستخط بھی ہوئے ۔ چینی صدر ایران پر پابندی ہٹنے کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دوسرے اہم رکن ہیںجنہوں نے ایران کا دورہ کیا ہے۔ گزشتہ برس نومبر میں روسی صدر پیوٹن نے دورہ کیا تھا۔ ایران اور چین نے اسٹرٹیجک تعلقات قائم کرنے پر بھی اتفاق کیا جس میں جوہری توانائی کے حصول کیلئے تعاون اور تجارت کے تاریخی سلک روٹ کی بحالی بھی شامل ہے جسے چین نے ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔ ایران اور چین کے درمیان دو طرفہ تعلقات خصوصاً تجارتی تعلقات بڑھانے پر اتفاق انتہائی اہم اور خوشگوار پیش رفت ہے جس کے خوشگوار اثرات خطہ خصوصاً پاکستان پر بھی مرتب ہوں گے۔ چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی راہداری کی اہمیت اور بڑھ جائے گی اور ایران اور چین کے درمیان تجارت میں مددگار اور معاون ثابت ہو گی۔ اس طرح خطہ میں چین کے اثرات میں بھی اضافہ ہو گا۔ چین کے صدر نے سعودی عرب کا بھی دورہ کیا ہے اور اس حوالے سے انہوں نے ایرانی صدر کو بریف کیا ۔ امید ہے اس طرح چینی صدر کے دورہ سے ایران سعودی عرب کشیدگی میں بھی کمی آئے گی۔ چین اور ایران کے درمیان تجارتی تعلقات بڑھانے سے خطہ کے دیگر ممالک میں بھی تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا جو ایک خوش آئندہ امر ہے۔

بیرونی دنیا میں پاکستان کا مثبت امیج
وزیر اعظم نواز شریف نے ڈیووس سے جنیواروانگی سے قبل مختلف ممالک کے سربراہان اور بزنس کمیونٹی کے لیڈران سے ملاقاتوں کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان کے بارے میں اچھی رائے قائم ہو چکی ہے جس کی آواز ہمیں ڈیووس میں بھی آئی جہاں عالمی اقتصادی فورم کے بانی ڈاکٹر شواب نے بڑی اچھی باتیں کیں اور پاکستان کی پالیسیوں کی تعریف کی۔ ان کے منہ سے یہ سن کر بہت اچھا لگا کیونکہ انسان اپنی باتیں خود تو کرتا ہی ہے لیکن جب دوسرے بھی اسی انداز اور لہجے میں گفتگو کریں تو اچھا لگتا ہے۔ جنیوا میں یورپی ایٹمی ادارے سرن کے دورے کے موقع پر انہوں نے پاکستانی طلبہ اور ماہرین سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کو سرن کی ایسوسی ایٹ رکنیت دیئے جانے پر فخر و انبساط کا اظہار کیا اور اسے پاکستان کے لئے ایک اعزاز قرار دیا۔ یاد رہے کہ پاکستان اور سرن کے درمیان تعلق 1994سے قائم ہے اور وزیر اعظم نواز شریف پہلے پاکستانی سربراہ ہیں جنہوں نے سرن میں دنیا کے سب سے بڑے پارٹیکل کولائیڈر سی ایم ایس کا دورہ کیا۔ ورلڈ وائڈ ویب سرن کی سب سے بہترین ٹیکنالوجی ہے جس سے گرڈ کی تخلیق کا راستہ ہموار ہوا۔ پاکستان بھی گرڈ نیٹ ورک میں شمولیت کا اعزاز رکھتا ہے اور پاکستان کو اس مقام تک لے جانے میں پاکستانی سائنس دانوں اور انجینئروں کا جو کردار ہے اس پر بجا طور پر فخر کیا جا سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نے یہاں پاکستانی سائنس دانوں کی ان کوششوں کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا جو انہوں نے بیرونی دنیا میں وطن عزیز کے تخلیقی جوہر کو نمایاں کرنے کے لئے پیش کیں اور وہ بجا طور پر اس ستائش کے مستحق ہیں۔ موجودہ حکومت خواتین کو معاشرے میں بااختیار بنانے کے لئے جو اقدامات کر رہی ہے اس سے بھی پاکستان کا مثبت امیج نمایاں ہو رہا ہے اور اس میں جتنی زیادہ پیش رفت ہوگی اتنا ہی بیرونی دنیا میں پاکستان کا سافٹ امیج ابھر کر سامنے آئے گا۔
SMS: #JEC (space) message & send to 8001
تازہ ترین