پچھلے ہفتے چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی کے بچوں اور اساتذہ پر جو قیامت گزری اس نے16دسمبر 2014ء کے سانحہ پشاور کی یاد تازہ کردی۔ باچا خان یونیورسٹی میں دہشت گردوں نے ہمارے روشن مستقبل کے ستاروں کو نشانہ بنایا جو بہت جلد تناور درخت بن کر قوم کی خدمت کیلئے تیارہورہے تھے۔ انہیں ایک طے شدہ ہدف کے تحت نشانہ بنایا گیا، اس افسوسناک واقعہ سے ہمیں یہ سبق حاصل کرنا اور مان لینا ہوگا کہ ملک کی سلامتی کیلئے امن و امان کی بہتری ناگزیر ہے۔ اس کے بعد غیر ملکی تو بعد کی بات پہلے ملکی سرمایہ کار اور تاجر حالات سے مطمئن ہوں گے ا ور مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کیلئے تیار ہوں گے۔ یہ واقعہ بھی ہوسکتا ہے کہ پاکستان میںسی پیک اور دوسرے شعبوں میں ہونے والی سرمایہ کاری اور ڈیویلپمنٹ کو متاثر کرنے کیلئے ہو۔ اس لئے آنے والے دنوں میں زیادہ بہتر حکمت عملی اور سوچ کے تحت قومی سلامتی کی پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سارک کی سطح پر پاکستان سمیت تمام ممالک کو’’خطہ میں سلامتی‘‘ کے ایجنڈے پر باہمی اعتماد اور تعاون سے کام کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں بھارت ، افغانستان اور پاکستان کی سہ فریقی کانفرنس بلائی جانی چاہئے جس میں تینوں ممالک کے خارجہ اور دفاعی شعبے کے ماہرین سوچ بچار کریں کہ ایسا بار بار کیوں ہورہا ہے، پاکستان کو کیوں ہر طرف سے نشانہ بنایا جارہا ہے حالانکہ ان ممالک کی سلامتی اور ترقی بھی پاکستان کے مضبوط اور مستحکم ہونے سے وابستہ ہے۔ بھارت اور افغانستان کے حوالے سے بعض قومی حلقوں کی طرف سے اکثر اس خدشے کا اظہار کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے ڈانڈے وہاں سے ملتے ہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے لیکن ہمیں اس کے ساتھ ساتھ اپنی داخلی سیکورٹی بھی موثر حکمت عملی کے ساتھ بہتر بنانا ہوگی کیونکہ گھر کی دیوار پکی ہو تو پھر کسی کو دیوار کمزور کرنے کی ہمت یا جرأت کم ہی ہوا کرتی ہے۔ دوسرا اس سے ملکی ترقی کیلئے یہاں سرمایہ کاری اور کاروبار کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اس وقت پاکستان میں اس پس منظر میں’’گورننس‘‘ پر جو سوالات اٹھ رہے ہیں ہمیں ان پر توجہ دینا ہوگی۔ اس لئے کہ اچھی گورننس ہی سے معاشی ترقی کا راستہ ہموار ہوسکتا ہے پھر معاشی ترقی سے ہی امن اور سلامتی کو یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے جس کیلئے تمام سیاسی قوتوں اور دوسرے اداروں کو ایسی حکمت عملی مرتب کرنا ہوگی جس میں پاکستان میں امن یقینی طور پر بحال ہوسکے اور پاکستان کے اندر پاکستان کے دشمنوں کو یہ احساس ہوسکے کہ اب ان کیلئے یہ محفوظ جگہ نہیں ہے بلکہ اب ان کے یہاں سے بھاگ جانے میں ہی عافیت ہے ۔
ایک زمانے میں فلسطین اور بیروت میں دھماکے ہوتے تھے اور وہاں ظلم و تشدد ہوتا تھا۔ اب اس کی زد میں پاکستان بھی آچکا ہے، عالمی سطح پر تو شاید ممکن نہ ہو لیکن سارک کی سطح پر تشدد اور دہشت گردی سے پاک جنوبی ایشیاکا خواب کیا پورا نہیں ہوسکتا۔ اس کیلئے ہمارے ماہرین سوچ بچار کریں اگر اس خطے میں امن ہوتا ہے تو پھر یہاں غربت اور دوسرے مسائل کے حل میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ اس سلسلے میں سارک چیمبرز اور دوسرے اداروں کو بھی فعال بنایا جاسکتا ہے انہیں یہ ٹاسک دیا جاسکتا ہے کہ وہ خطے میں امن اور خوشحالی کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی کے ایجنڈے پر سیاسی قیادت اور عسکری قیادت ایک سوچ کے تحت تمام نکات پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں ۔ اس سے پاکستان میں آئے روز اس طرح کے افسوسناک واقعات کو روکا جاسکتا ہے۔ اللہ خیر کرے ابھی تو2016کا آغاز ہوا ہے اور60سے زائد افراد دہشت گردی کی زد میں آچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم کرے اور پاکستان کو بیرونی اور اندرونی دشمنوں سے بچائے جو اب پاکستان کی نئی نسل کو بہار دیکھنے سے پہلے ہی ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔