• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیوروکریسی کی کارکردگی اور مراعات کا ریکارڈ بھی تو عام کیا جائے

افسر شاہی کا مفہوم سرکاری بادشاہت کے سِوا کچھ اور نہیں لیا جا سکتا۔ حکومتیں آمد و جامد کی گردان کی دَست بند ہیں، مگر حکمرانوں کے حقہ بان یا سرکاری بادشاہ مسندِ اقتدار کے اصل مختارِ کُل ہیں۔ دادا سے لے کر اَب پوتا تک بھی ان کی موروثی راج سیوا کے قلعے پاکستان کے بے بَس شُودری عوام کیلئے آج بھی براہمن سماج کے اُتم مندروں کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کی سرشت کے مطابق سرکاری افسران عوام کی خدمت کیلئے نہیں بلکہ حکومتی اُمور کی معاونت کیلئے ہیں مگر ہر عام پاکستانی بھی اب یہ راز بخوبی سمجھتا ہے کہ سرکاری درباریوں کی یہ معاونت کسی ’’پَرجائی کارِ خیر‘‘ یا ’’اجتماعی ریاستی بھلائی‘‘ کیلئے نہیں بلکہ حکمرانوں کی ذاتی لوٹ مار اور قانونی جرائم کیلئے مخصوص ہے۔ اسی معاونت اور خدمت ہی کا صلہ ہے کہ ملک کے 80فیصد اعلانیہ اور غیر اعلانیہ محاصل ہر جائز و ناجائز طریقے سے سرکاری ملازمین ہڑپ کر جاتے ہیں۔ بہ ایں ہمہ مراعات و نوازشات اور تعیشات کی مَد میں ملکی ’’خزانے کی بالائی‘‘ بھی اسی طبقے کا مقدر بنتی ہے۔ پاکستان میں سب سے منافع بخش کاروبار سرکاری ملازمتیں ہیں جو عیش و آرام کی خلدینہ زندگی اور قارون کے خزانے سَر کرنے کا سنہری موقع بن چکی ہیں۔ جس ملک میں 70فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے لڑھک چکی ہو اور لوگ فاقہ مستیوں سے تنگ آکر اپنے بچے ذبح کرنے پر مجبور ہوں‘جہاں علاج اور تعلیم سے محروم انسانوں کے ریوڑ کھلے آسمان کے نیچے آہ و بَکا کر رہے ہوں، وہاں بااختیار تو کُجا، ایک ادنیٰ سرکاری ملازم کے بیوی بچے بھی وسیع و عریض بنگلوں میں پُرتعیش زندگی گزارتے ہوں، مہنگی ترین لگژری گاڑیوں میں نویلی شاہراہوں اور موٹر ویز پر فراٹے بھرتے ہوں اور موسمِ گرما کی تعطیلات گزارنے سوئٹزر لینڈ، ویانا اور مارشل آئی لینڈ جاتے ہوں، شاپنگ بھی لندن، امریکہ اور دبئی سے کم کسی ملک سے نہ کرتے ہوں، اس ملک میں انسانی معاشرے کا حلیہ کتنا خوفناک ہو گا، اس کا اندازہ صرف پاکستان ہی کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ بیوی بچوں کے پُرتعیش لائف اسٹائل کی خاطر اعلیٰ ترین سرکاری افسر ملکِ خداداد کے لاوارث وسائل کو جس بے دردی سے لوٹ رہے ہیں، اس کا نظارہ کر کے کسی بھیڑیے کی روح بھی لرز جاتی ہے۔ 20,21اور 22گریڈ کے بے تحاشا افسران کے دو سے چار بچے لندن، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی مہنگی ترین جامعات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن کے ایک ایک سمسٹر کی فیس 50ہزار ڈالر سے لے کر ایک لاکھ ڈالرز تک ہے جبکہ ان کے افسر والد یا والدہ اُنیسویں، بیسویں گریڈ کے ملازم کے طور پر ماہانہ ڈیڑھ دو لاکھ روپے تنخواہ وصول کر رہے ہوتے ہیں۔ ان ڈیڑھ دو لاکھ میں ان کے گھر کے 10لاکھ کے اخراجات بھی ہیں اور سالانہ 5سے 10کروڑ بچوں پر بھی خرچ ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 19سے لے کر 22گریڈ تک کے 80فیصد اعلیٰ افسران اسی کیٹگری میں شمار ہوتے ہیں۔ سرکاری افسران کی چاندی سب سے زیادہ گنجان آباد پاکستان میں ہے جہاں حکومت نے سرکاری اداروں کے متوازی سینکڑوں کمپنیاں اور اتھارٹیاں بنا رکھی ہیں جن میں تعینات ’’خاص افسران‘‘ صرف تنخواہوں کی مَد میں 10سے 50لاکھ روپے ماہانہ بٹور رہے ہیں، جبکہ مراعات شامل کرکے بات کروڑوں تک جا پہنچتی ہے۔ جن خودمختار سرکاری اداروں کے اعلیٰ افسران کروڑوں روپے وصول کر رہے ہیں وہ اربوں کے نقصان میں چل رہے ہیں۔ حکمرانوں کی طرف سے بیورو کریسی کو نوازنے کی تاریخ نئی نہیں ہے۔ بیورو کریسی کی سیاست زدگی کی اصل کہانی بینظیر اور نواز شریف کی آمد کے ساتھ شروع ہوئی۔ زرداری عہد میں وفاق کیساتھ ساتھ صوبائی بیورو کریسی کا ایک الگ باب وا ہوا۔ انتخابات پر اثر انداز ہونے کا سلسلہ اَب وفاق کے ہاتھ سے نکل کر صوبائی حکومتوں کے ہاتھ میں جا چکا ہے مگر وفاقی بیورو کریسی کی اس ضمن میں صوبائی بیورو کریسی سے آج بھی سپیریئر ہے۔ سول بیورو کریسی کو اخیرلے درجے تک سیاست زدہ کرنے میں سیاستدان اپنا ثانی نہیں رکھتے، کسی بھی سیاسی جماعت نے آج تک کوئی بھی الیکشن سرکاری مشینری کو استعمال میں لائے بغیر نہیں جیتا۔ پنجاب کی افسر شاہی تنخواہوں، مراعات اور دیگر نوازشات میں تمام صوبوں سے آگے ہے، اس کے باوجود اس کی کارکردگی پنجاب کے عوام اور اداروں کو ٹکے کا فائدہ نہیں پہنچا رہی، خادمِ اعلیٰ پنجاب اپنی افسر شاہی کو منہ مانگی مراعات دینے کے باوجود اس کی کار گزاری اور اداروں کی فعالیت سے قطعی مطمئن نہیں ہیں۔ پنجاب پولیس کے اعلیٰ افسران کی من مانی اور قانون شکنی کا یہ عالم ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی غریب عوام کا خون چُوسنے سے باز نہیں آتے۔ گزشتہ ایک سال سے آئی جی آفس کی جانب سے صوبے بھر کے سی سی پی اوز سمیت ڈی پی اوز اور ڈسپلن، اسٹیبلشمنٹ، ایڈمن، ٹیلی سمیت متعلقہ شعبوں کو متعدد بار باور کرایا گیا کہ محکمہ پولیس سے ریٹائر ہونے والے سابق پولیس افسران سے ان کے زیر استعمال سرکاری گاڑیاں، ملازمین اور سرکاری رہائش گاہیں خالی کرانے کیلئے چٹھیاں بھجوائی جائیں تاکہ ان کی جگہ ترقی پانے والے نئے پولیس افسران کیلئے گاڑیاں، رہائش گاہیں اور خادمین دستیاب ہو سکیں مگر سرکاری مراسلے بھجوائے جانے کے باوجود ریٹائر ہونے والے کئی سابق آئی جیز، ایڈیشنل آئی جیز اور ڈی آئی جیز ’’ذاتی تعلقات‘‘ کے سبب محکمہ پولیس کی سرکاری گاڑیوں، پروٹوکول اور اپنی حفاظت کیلئے پولیس کانسٹیبلوں، خانساموں، مالیوں اور سرکاری رہائش گاہوں کو آج بھی اپنے استعمال میں لا رہے ہیں اور ان رہائشگاہوں کے یوٹیلٹی بلز کے علاوہ زیر استعمال سرکاری گاڑیوں کا پٹرول بھی سرکاری خزانے سے حاصل کیا جا رہا ہے۔ دہشت گردی، قتل و غارت، ڈکیتی،چوری، اغوا برائے تاوان سمیت دیگر جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں میں پولیس کی ناکامی کی بڑی وجہ افسران کا بروقت ڈیوٹیوں پر نہ پہنچنا اور نفری اور وسائل کی کمی کو قرار دیا گیا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ سیاسی سفارش اور اثر و رسوخ رکھنے والے ریٹائرڈ افسران نے سرکاری نفری اور وسائل سمیت سرکاری رہائش گاہوں پر براجمان ہو کر شہریوں کیلئے مسائل پیدا کرنے کیساتھ ساتھ ملکی خزانے پر بھی بوجھ ڈال رکھا ہے۔ جن ملازمین کو اپنی آپریشنل ڈیوٹیوں سے ہٹا کر ان ریٹائرڈ پولیس افسران کے ساتھ لگایا گیا ہے وہ ان کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ذاتی ملازم کے طور پر ان کے گھریلو کام بھی کرتے ہیں، اس صورتحال کے باعث محکمہ پولیس کو جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارکردگی دکھانے میں شدید دشواری کا سامنا ہے۔ پیشہ ورانہ عدم استعداد کی وجہ سے پولیس نے جرائم کو کنٹرول کرنے کا ایک آسان حل یہ تلاش کر لیا ہے کہ سنگین مقدمات کا اندراج ہی نہ کیا جائے جبکہ پولیس افسران موجودہ حالات میں اپنے فرائض کو ایمانداری سے سرانجام دینے کے بجائے خود خوفزدہ نظر آتے ہیں۔ موجودہ حالات میں پنجاب کا کوئی ایک تھانہ بھی ایسا نہیں ہے جہاں نفری پوری ہو یا مقررہ تعداد میں گاڑیاں یا اسلحہ موجود ہو۔ مقامی تھانوں کے ایس ایچ او صاحبان کا ایک ہی رونا ہے کہ ان کے پاس پٹرولنگ کے لئے گاڑیاں کم ہیں، اگر گاڑیاں ہیں تو پٹرول موجود نہیں، اور اگر یہ دونوں چیزیں ہیں تو نفری کم ہے۔ خادمِ اعلیٰ صاحب کو ان ریٹائرڈ پولیس افسران کی ضرور خبر لینی چاہئے جن کے بیوی بچے سرکاری رہائشوں، گاڑیوں اور خادموں کو بیت المال کی عنایات سمجھتے ہیں۔ صرف پولیس ہی نہیں بیورو کریسی کے تمام طاقتور گروپوں کے ریٹائر افسران جی او آر اور دیگر سرکاری رہائش گاہیں خالی کرنے میں سالوں لگا دیتے ہیں اور دیگر کئی طرح کے ٹیکے قومی خزانے کو لگانے کیساتھ ساتھ ذاتی رہائشوں کیلئے ’’خاص رعایتی پلاٹ‘‘ بھی حاصل کر لیتے ہیں۔
اگر ریٹائرڈ افسران کے یہ تیور ہیں تو قیاس کریں کہ حاضر سروس بیورو کریٹ غریب عوام کو ہر بجٹ پر کتنے میں پڑتے ہوں گے؟ آج کل رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت کئی باشعور شہری مختلف سرکاری محکموں سے مطالبہ کرنے لگ پڑے ہیں کہ وہ اپنے اداروں کی کارکردگی اور ملازمین کا بائیو ڈیٹا اور نوکری کا ریکارڈ اپنی ویب سائٹس پر ظاہر کریں تاکہ معلومات تک رسائی ممکن ہو اور عوام کو معلوم ہو سکے کہ ایک نادار ملک کی افسر شاہی قومی خزانے پر کس بیدردی سے چاند ماری کر رہی ہے اور اس کے تبادل میں ملک و قوم کو اس کا کیا فائدہ ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں معلومات تک رسائی کے قانون کا خود پر اطلاق کرتے ہوئے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے اپنی تنخواہ اور مراعات کی معلومات عوامی سطح پر ظاہر کرنے اور پنجاب ٹرانسپیرنسی اور ’’قانونِ حق معلومات‘‘ کے تحت عدالت کے لئے ایک پبلک انفارمیشن افسر تعینات کرنے کا فیصلہ قابلِ تعریف ہے۔ ہائی کورٹ لاہور نے ایک مراسلے کے ذریعے پنجاب انفارمیشن کمیشن کو بھی چیف جسٹس کی تنخواہ اور مراعات سے متعلق آگاہ کر دیا ہے۔ اگرچہ تنخواہ اور مراعات خفیہ معاملہ نہیں ہے تاہم اس سے قبل کسی جج کی طرف سے اپنی تنخواہ اور مراعات منظرِ عام پر لانے کی یہ پہلی نظیر ہے۔ پاکستان کے سیاسی نظام، بیورو کریسی اور اداروں کو بھی اسی نقشِ قدم پر چلنے کی ضرورت ہے۔ اس اصول کا مقصد صاف اور سیدھا یہ ہے کہ ریاست کی جانب سے دی جانے والی تنخواہیں، مراعات اور اضافہ جات عوام کا پیسہ ہے جسے عوامی سطح پر ظاہر بھی ہونا چاہئے مگر انتہائی افسوس کی بات ہے کہ دہائیوں سے اس اصول کو تمام اداروں کی جانب سے فراموش کیا جاتا رہا ہے اور تنخواہوں اور مراعات کی قانونی حیثیت پر ہونے والی بحث کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کی پاسداری کے بعد پنجاب حکومت کے کئی اداروں کے خلاف معلومات پبلک نہ کرنے پر عدالتوں میں درخواستیں دائر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ پنجاب میں تعینات ایس اینڈ جی اے ڈی کے تمام پی اے ایس اور پی ایم ایس افسران سے متعلق پنجاب ٹرانسپرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013کے تحت بھی ایک درخواست دائر کی گئی ہے جس میں لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں پی اے ایس اور پراونشل مینجمنٹ سروس کے افسران کی کل تعداد، اُن کی طرف سے بھیجے گئے اخراجات کے کلیم، محکمہ وار تعیناتی کا دورانیہ، بیرونِ ملک زیرِ تعلیم بیوی یا شوہر کی تفصیل، بیوی یا شوہر کی شہریت کی تفصیل، شوہر یا بیوی کی کسی ایلیٹ کلب وغیرہ کی رُکنیت کی تفصیل، سرکاری رہائش گاہوں کی تفصیل، بیرونِ ملک علاج کی سہولتوں کی تفصیل سمیت مختلف معلومات شامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ تقریباً ایک ماہ قبل خادمِ اعلیٰ کی ہدایت پر سروسز وِنگ کی طرف سے پنجاب کے مختلف محکموں میں تعینات پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے 740افسروں کو دو روز کے اندر اندر ذاتی معلومات فراہم کرنے کیلئے کہا گیا تھا مگر تاحال سیکشن آفیسر سروسز کے مکتوب کو کسی بھی افسر نے قابلِ اعتنا نہیں جانا۔ پی اے ایس افسران کی تفصیلات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے پاس بھی موجود ہیں مگر پنجاب حکومت نے افسران کو ذاتی طور پر ’’انڈیویجوئل کیریئر پلاننگ چارٹ‘‘ کا فارم اس لئے جاری کیا ہے تاکہ بے وجہ تاخیر کے بغیر افسران کا ڈیٹا ڈیجیٹلائز کیا جا سکے۔ پنجاب حکومت کے اس فیصلے سے ڈی ایم جی افسران نے اسلام آباد کے در و دیوار متزلزل کرنا شروع کر دیئے ہیں، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بے شمار وفاقی افسران نے محکمانہ ملی بھگت اور حکومتی رسوخ پر ایسے ایسے عجیب و غریب مراعاتی پیکیج لے رکھے ہیں جو اُن کی اہلیت سے میل نہیں کھاتے اور انہیں یہ خوف ہے کہ ان کی معلومات منظرِ عام پر آنے سے وہ اپنے ادارے اور عوامی نظروں میں بے لباس ہو جائیں گے، جس کی پاداش میں انہیں احتسابی عمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، تاہم پنجاب کے باشعور عوام کو کامل یقین ہے کہ پنجاب سرکار نہ صرف پی اے ایس اور پی ایم ایس بلکہ جملہ بیورو کریسی کی ہمہ نوع معلومات بشمول مراعات آن لائن کرنے میں کسی لیت و لعل میں نہیں پڑے گی۔ (جاری ہے)



.
تازہ ترین