• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل پاکستان سمیت دنیا بھر میں رمضان کے مبارک مہینے میں مسلمان مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ روزے رکھ رہے ہیں، مذہبی تعلیمات کی بنا پرکھانے پینے سے اجتناب، کوئی خاص کام کرنے یا برائیوں سے خود کو اپنی مرضی سے روکے رکھنے کا نام روزہ ہے جسے عربی میں صوم، سنسکرت میں برت یا ورت اور انگریزی میں فاسٹنگ بھی کہا جاتا ہے۔ ویسے تو مجھے مختلف ٹی وی چینلز پر حالاتِ حاضرہ اور سیاسی صورتحال پر ٹاک شوز پر باقاعدگی سے مدعوکیا جاتا ہے لیکن گزشتہ دنوں ایک ٹی وی چینل پر رمضان المبارک کی خصوصی افطار ٹرانسمیشن میں شرکت کا موقع ملا جہاں میں نے روزوں کی اہمیت کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا، میرے لئے یہ ایک نہایت غیرمتوقع صورتحال تھی جب میری اس بات پر کہ رمضان المبارک نیکیوں کا درس دیتا ہے اور نیک کام کرنے والے پر خداوندِ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے ،رمضان ٹرانسمیشن کی خاتون میزبان اور سابق فلم اسٹار کی جانب سے وقفے کے دوران یہ جواب دیا گیا کہ خداکی رحمت کیلئے ضروری ہے کہ اسلام قبول کیا جائے۔میںنے آدابِ مہمانی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے خاموش رہنا مناسب سمجھا لیکن دِل میںضرور سوچا کہ اگر واقعی خاتون میزبان کی بات درست ہے تو سورج کبھی ہم سب پر یکساں نہ چمکتا، بادل بارانِ رحمت برساتے ہوئے گھروں کا تعین کرتے کہ کونسے مسلمان گھر پر بارش برسانی ہے اور کس غیرمسلم کومحروم رکھنا ہے، کاروباری اور دیگر معاملات میں غیرمسلموں کوخدا کبھی ترقی و خوشحالی عطا نہ فرماتا، قدرتی آفات سرحدیں دیکھا کرتیں کہ یہاں سے آگے غیرمسلم ممالک کی حدود میں تباہی مچانی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں لگ بھگ سات ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں ، اسلئے خداوند تعالیٰ کو پکارے جانے والے نام مختلف زبانوں میں مختلف تو ہوسکتے ہیںلیکن میرا یقین ہے کہ خداوند تعالیٰ کی خدمت انسانیت کے حوالے سے تعلیمات مختلف نہیں ہوسکتیں۔ اسلام میں خدا کو تما م زمینوں اور آسمانوں کا رب قرار دیا گیا ہے جسکا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ وہ کسی خاص مذہب ہی کے ماننے والے کا نہیں بلکہ پوری کائنات اور مخلوق پر مہربان ہے۔قران پاک میں جابجا انسانوں کے ساتھ اچھے سلوک کی تلقین کی گئی ہے، پیغمبرِ اسلام ﷺکے واقعات گواہ ہیں کہ کیسے انہوں نے مخالفین کی بدسلوکی کے باوجود انکے حق میں دعائے خیر کی، کچرا پھینکنے والی بوڑھی عورت کی بیماری میں عیادت کی ۔ رمضان کا بابرکت مہینہ بھی یہی تعلیمات دیتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو برائیوں سے دور رکھتے ہوئے نیک کاموں میں مصروف کرلے، درگزر سے کام لیتے ہوئے ایک دوسرے کا خیال رکھے، روزہ رکھنے کا قطعی مقصد بھوکا پیاسا رہنا نہیں بلکہ ان اعلیٰ اوصاف کو اپنے اندر پروان چڑھانا ہے جو سال کے باقی مہینے عادت بن سکیں۔اگر کوئی رمضان میں روزہ رکھ کر بھی جھوٹ ، گالم گلوچ،رشوت خوری، ذخیرہ اندوزی،فراڈ، چوری ڈکیتی اور دیگر سماجی برائیوں سے باز نہ آسکے تومیں سمجھتا ہوں کہ اس نے بلاوجہ فاقہ کشی کرکے اپنے سیاہ اعمال کی وجہ سے بے سکونی میں مزید اضافہ کیا۔یہاں میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اسلام میں اگر رمضان المبارک کا مہینہ روزوں کیلئے مخصوص ہے تودیگر مذاہب میں بھی کسی نہ کسی شکل میں روزوں کا تصور پایا جاتا ہے۔ہندودھرم دنیا کا قدیم ترین مذہب ہے جس کی تاریخ چار ہزار سال پرانی ہے ، ہندو دھرم میں ایکادیشی، ستیا نارائین اورناوارتری جیسے مذہبی تہواروں کے موقع پر دن کو روزہ اور رات کو عبادت کی جاتی ہے، برہمن پر ہندی مہینے کی ہر گیارہ تاریخ کو روزہ رکھنا فرض ہے، ہندی مہینے کارتک کے ہر سوموار کو بھی روزہ رکھا جاتا ہے، ہندو جوگی اور سنیاسی چلہ کشی کرتے وقت روزہ رکھتے ہیں،ہندو یاتری مقدس مقامات کی یاترہ کے وقت روزے کی حالت میں ہوتے ہیں، ہندومت میں گناہوں سے کفارے اور منت، نذر ، شکرانے کے روزے عام ہیں جبکہ ہندو خواتین اپنے شوہروں کی عمر درازی کیلئے بھی روزہ رکھتی ہیں۔ بائبل کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے چالیس دن اور چالیس رات روزے رکھے تھے، عیسائیت میں خاص تاکید کی گئی ہے کہ روزہ خوشدلی کے ساتھ رکھا جائے اور چہرہ اداس نہ بنایا جائے ۔ توریت کی روایات بتاتی ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر چالیس دن روزے کی حالت میں عبادت کرتے رہے، فرعون سے حصول آزادی کی یاد میں یوم کپورپر روزہ مذہبی جوش و جذبے سے رکھا جاتا ہے۔بْدھ مت کی تعلیمات کے مطابق خوشگوار زندگی گزارنے کے طریقہ کار میں روزہ رکھنا بھی شامل ہے ، بدھ بھکشو کئی دنوں تک روزہ رکھتے ہیں جبکہ عام پیروکاروں کوہرماہ چارروزے رکھ کرگناہوں کااعتراف اورتوبہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے، گوتم بْدھ کی برسی کی مناسبت سے پانچ دن کے روزے رکھے جاتے ہیں۔جین مت میں روزے کی سخت شرائط کے مطابق چالیس چالیس دن تک کا روزہ ہوتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ تمام مذاہب میں روزے رکھنے کا بنیادی مقصدصبر و تحمل، برداشت، درگزر، تزکیہ نفس اور خیالات کی یکسوئی قائم رکھتے ہوئے معاشرے کے پِسے ہوئے طبقات کی مشکلات کا احساس کرنا ہے تاکہ ایک پرامن انسانی معاشرے کا قیام ممکن بنایا جاسکے، دوسری طرف جدید میڈیکل سائنس کی مختلف ریسرچ رپورٹس کے مطابق روزے رکھنے سے ذیابطیس، وزن میں اضافہ اور دیگر مہلک بیماریوں پر قابو پایاجاسکتا ہے۔ ہمیں روزے کی اصل تعلیمات کو سمجھ کر سال کے باقی مہینے بھی اظہارِ غصہ اور بدسلوکی سے پرہیز کی عادت ڈالنی چاہئے لیکن ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے رمضان کے مہینے میںٹریفک حادثات اور لڑائی جھگڑے کے واقعات کی شرح مزید بڑھ جاتی ہے جس پر کہا جاتا ہے کہ فلاں کو روزہ لگ رہا ہے، اپنی نادانی میں ناپسندیدہ واقعات کی وجہ روزے جیسی مقدس ترین عبادت کو قرار دینے کے رحجان کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں مذہبی فرائض کی ادائیگی میں دکھاوا اور ریاکاری بھی تیزی سے فروغ پارہی ہے، میں تمام روزہ داروں سے اپیل کرنا چاہوں گا کہ وہ مہنگی ترین افطار پارٹیوں میں شرکت یا فیس بک پر تصاویر پوسٹ کرنے کی بجائے اپنے آس پاس غریب مستحق اور سفید پوش لوگوںکی سحر و افطار آسان بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔اسی طرح پاکستان میں رمضان کے مہینے میں جہاں مساجد اور بازار میں گہماگہمی بڑھ جاتی ہے وہیںسرکاری ملازمین دفتروں میں دیر سے آتے ہیں لیکن جلدی واپس گھر چلے جاتے ہیں اوردیگر کاروبارِ زندگی ٹھپ ہوکر رہ جاتا ہے، روزہ رکھنے کا یہ مقصد قطعی نہیں سمجھنا چاہئے کہ روزمرہ کے کام اور سرکاری امور کی انجام دہی سے غفلت برتنے کی آزادی مل گئی ہے۔اسی طرح ہرسال وطن عزیز میں رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کا معاملہ بھی عدم برداشت کا باعث بنتا جارہا ہے، ویسے تو چاندپر مبنی ہندی، چینی ، مصری و دیگر قمری کلینڈر پہلے ہی سے مرتب کرلئےجاتے ہیں لیکن اسلام میں رمضان کے آغاز اور اختتام کیلئے چاندکا دیکھنا ضروری ہے، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حساس ترین مذہبی ذمہ داری کیلئے سرکاری طور پرقائم رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کو تسلیم کیاجانا قومی یکجہتی اور مذہبی ہم آہنگی کیلئے ناگزیر ہے۔میں اپنے اس کالم کے توسط سے وطن عزیز میں بسنے والے تمام مذاہب کے ماننے والوں سے گزارش کرتا ہوں کہ رمضان کے مقدس مہینے میں مانگی گئی دعاؤں کی قبولیت کا زیادہ یقین ہوتا ہے،ہم سب خداوندِ تعالیٰ سے اپنے پیارے ملک پاکستان کی ترقی و سربلندی، امن و استحکام ،سرسبز و شادابی کیلئے خصوصی طور پر دعاگو ہوجائیں۔ یوں تو ہر عبادت کا مقصد خالق و مخلوق کے مابین روحانی تعلق قائم کرنا ہے لیکن میں اپنے ذاتی تجربے سے کہتا چاہوں گا کہ نیکیوں سے بھرپور اور گناہوں سے پاک روزہ رکھنے سے نہ صرف خدا کو خوش کیاجاسکتا ہے بلکہ چہرہ بھی تروتازہ، ہشاش بشاش اور چمکتا دمکتا رہتا ہے، بلاشبہ ماہِ رمضان میںانسان، چرند پرند سمیت تمام مخلوقِ خدا سے محبت، اعلیٰ اخلاق،خوفِ خدا، برداشت، غصے کو پی جانے،بھائی چارے،درگزر، مذہبی ہم آہنگی، امن و امان، سچائی، ایمانداری، رزقِ حلال اورغریبوں کا خاص خیال رکھتے ہوئے خا لصتاً خدا کی رضا کیلئے خوشدلی سے رکھے گئے روزوں ہی کی بدولت معاشرے پر مثبت اثرات مرتب کئے جاسکتے ہیں۔

 

.

تازہ ترین