• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ روزانہ اخبار میں سیاسی کالم تو پڑھتے ہی ہوں گے۔ آئیے آج سیاست سے ذرا ہٹ کر کچھ بات کرتے ہیں۔ 1913ء میں دادا صاحب پھالکے نے ہندوستان کی پہلی خاموش فلم بنائی جس کا نام تھا راجہ ہریش چند ۔جبکہ ہندوستان میں پہلی ٹاکی یعنی بولتی فلم ،عالم آرا 1931ء میں بنی۔عالم آرا کی مقبولیت کے بعد 1931ء میں ارد شیر ایرانی نے ہندوستان کی پہلی رنگین فلم کشن کنہیا بنائی۔ 1955ء سے 1965ء کے بلیک اینڈ وائٹ سنہرے فلمی دور میں دلیپ کمار، بلراج ساہنی، راج کپور، دیو آنند اور گرو دت اور اس کے بعد جیتندر، ششی کپور، امیتابھ بچن ، راجیش کھنہ ششی کپور، شمی کپور، ونود کھنہ اور اداکاراؤں میں نرگس، نمی، مدھوبالا، وحیدہ رحمن اور میناکماری جیسی ہستیوں نے شہرت پائی۔ موسیقی کی دنیا میں انل بسواس سے لے کر غلام محمد اور نوشاد سے لے کر شنکر جے کشن، کلیان جی آنند جی، لکشمی کانت پیارے لال اور روی، خیام جے دیو سے لے کر روشن اور اسماعیل دربار سے لے کر اے آر رحمن اور گلوکاری میں محمد رفیع، لتا منگیشکر، آشا بھونسلے ،طلعت محمود ،کشور کمار، مکیش اور پھر الکا یگنیک اور ادت نارائن کا نام شہرت کی بلندیوں پہ چمکا۔ برصغیر کی فلموں میں موسیقی یعنی گانوں کو کیوں ضروری سمجھا جاتا ہے؟ اس کا رواج ہندوؤں کے کتھک اور بھارت ناٹیئم نے ڈالا جس میں دیوتاؤں کی پوجا میں ناچ بڑی اہمیت رکھتا ہے اور جس میں ناچ کے ذریعے ناچنے والی یا والا اپنے تاثرات اجاگر کرتا ہے۔ اس کے بعد لکھنو کی وہ ناچنے والیاں جو اس وقت کے نامور شاعروں کا کلام ناچ گانے کے ذریعے پیش کیا کرتی تھیں انہوں نے بھی فلم کے ناچ گانے میں بڑا کردار ادا کیا اور پھر اُس کے بعد فلم میں ڈائیلاگ کی یکسانیت کو توڑنے کے لئے گانے ڈالے جاتے رہے۔ہندوستانی اور پاکستانی فلموں میں کہانی کو آگے بڑھانے کے لئے بہت سے گانے لکھے گئے جن کی بہت ہی دل آویز دھنیں بھی مرتب کی گئیں۔ پاکستانی فلم انارکلی میں میڈم نورجہاں کا گایا ہوا گانا، کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں، اور ہندوستانی فلم دیوداس کے گانے، مار ڈالا اور ہمیشہ تم کو چاہا، وغیرہ کے گانے اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ آج کل کی فلموں میں گانے صرف انٹرٹینمنٹ کے لئے ڈالے جاتے ہیں۔ ان میں نہ تو قابل توجہ بول ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کی ویسی دھنیں جو کبھی ہندوستانی فلموں کی پہچان ہوا کرتی تھیں۔ البتہ ان میں سے چند فلمیں ایسی بھی دیکھنے کو ملیں جن میں اچھی شاعری کے ساتھ ساتھ دل موہ لینے والی دھنیں بھی ہیں۔ اچھی شاعری سب سے پہلے ساحر لدھیانوی کی طرف سے ملی جس کی مثال، یہ رات یہ چاندنی پھر کہاں، من رے تو کاہے نہ دھیر دھرے،تم اپنے رنج و غم ، مایوس تو ہوں وعدے سے تیرے،کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے،جسے تو قبول کر لے وغیرہ سے دی جاسکتی ہے۔ ساحر لدھیانوی کے بعد شکیل بدایونی، حسرت جے پوری، مجروح سلطان پوری،شیلندر اور موجودہ دور میں جاوید اختر اور گلزار نے ہندوستانی فلمی شاعری کو ایک ادبی مقام دیا۔ جاوید اختر اور گلزار کی فلمی شاعری میں یہ فرق ہے کہ جاوید اختر کی شاعری فلمی سچویشن میں رسی بسی دکھائی دیتی ہے جبکہ گلزار کی شاعری میں ایسے انوکھے الفاظ ملیں گے جنہیں ہم روزمرہ کی زندگی میں نظر انداز کر جاتے ہیں اور وہ فلمی گیتوں میں یوں ابھر کر سامنے آتے ہیں کہ سننے والا عش عش کر اٹھتا ہے۔حال کی فلموں میں دیوداس کی مثال جسے سنجے لیلہ ھنسالی نے ڈائریکٹ کیا اور جس میں اسماعیل دربار نے موسیقی دی ہے، ایک ایسی فلم ہے جو میرے نزدیک ایک مکمل فلم کہلائے جانے کی مستحق ہے۔ اس فلم کی سینماٹو گرافی، عظیم الشان سیٹ، بھرپور اداکاری، سمیر اور بدر کی شاعری تو ہے سو ہے پر اس کی دلکش موسیقی اس فلم کی اصل زینت ہے۔اس فلم کا ہر گانا نہ صرف فلم کی سچویشن کو سپورٹ کرتا ہے بلکہ کہانی کو ایسے آگے بڑھاتا ہے کہ انسان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔مثال کے طور پہ ایک گانا جس کے بول ہیں، مار ڈالا اس کی ایک بہترین مثال ثابت ہوتا ہے۔ ڈائریکٹر نے گانے کے ایک ایک بول کو ایسی عمدگی سے فلمایا ہے کہ دیکھنے والے کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔میرے نزدیک کورس کا وہ گانا جس میں ہیرو یا ہیروئن کے ساتھ بہت سے ناچنے والے بھی ہوں کو فلمانا انتہائی ذہانت کا کام ہے۔ آپ اس گانے کو ایک بار پھر سے دیکھئے۔مادھوری ڈکشت نے ایک ایک بول پہ ایسا ایکسپریشن اور موومنٹ دی ہے جو نہ صرف سچویشن کو سپورٹ کرتی ہے بلکہ ایک ایک بول کو نمایاں بھی کرتی ہے۔ اس گانے میں مادھوری کا بھاری بھرکم لباس میں کلاسیکل ڈانس کرنا ان کی مہارت کا اعلیٰ ثبوت بھی ہے اور ڈائریکٹر کی ذہانت بھی۔ آپ پہلے اس گانے میں مادھوری کو غور سے دیکھئے اور پھر یہی گانا دوبارہ پلے کر کے اس میں مادھوری کے پیچھے ناچنے والی لڑکیوں کی موومنٹ اور سٹیپس نوٹ کیجئے۔یہ کس کی ہے آہٹ یہ کس کا ہے سایہ، اس بول پہ پہلے مادھوری کی ’آہٹ اور سایہ‘ پہ موومنٹ ملاحظہ کیجئے۔پھر’ ہوئی دل میں دستک، یہاں کون آیا‘ پہ موومنٹ دیکھئے۔اس کے بعد ’ہم پہ یہ کس نے ہرا رنگ ڈالا‘ کی موومنٹ دیکھئے اور پھر’خوشی نے ہماری ہمیں مار ڈالا‘ ملاحظہ کیجئے اور اس کے بعد پورا گانا اسی طرح دیکھئے۔آپ کو ایسا لگے گا جیسے کوریو گرافر نے اس گانے میں پی ایچ ڈی کر لی ہو۔ عام طور پہ وہ گانا جس میں سازندے بھی منظر میں دکھائے جانے ہوں وہ بڑے بھونڈے انداز میں فلمائے جاتے ہیں یعنی گانے میں ساز کچھ ہوتے ہیں اور دکھائے کچھ جاتے ہیں، اسی طرح فلمی سازندے بھی اصلی والے نہیں لگتے۔مگر اس گانے میں آپ دیکھیں گے کہ کہیں دور پیچھے بیٹھے جو سازندے ساز بجا رہے ہیں وہ بھی کوریو گرافر یا ڈائریکٹر کی نظر سے اوجھل نہیں ہیں بلکہ طبلے کے سم پہ پورے بھی اترتے ہیں۔تو جناب فلمی موسیقی اور ڈانس کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے مگر ہم یہیں بس کرتے ہیں۔ ہم آخر میں اتنا ضرور کہیں گے کہ فلم کی کامیابی میں نہ صرف ڈائریکٹر بلکہ اس کی پوری ٹیم کا اتنا ہی ہاتھ ہوتا ہے جتنا کہ ایک فلم کو مقبول کرنے میں ہونا چاہئے۔کاش ہماری حکومتیں بھی ٹیم ورک کی اس کامیابی کے اس فارمولے کو سمجھ سکیں۔

تازہ ترین