• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جسونت سنگھ اور ہندوستانی سیاست کا اصل چہرہ,,,,صبح بخیر…ڈاکٹر صفدر محمود

سیانے کہتے ہیں کہ جمہوریت نفرت کو دفن کرتی اور محبت کے جذبے کو فروغ دیتی ہے۔ یہ قوموں میں قوت ِ برداشت بڑھاتی اور اختلاف ِ رائے کو برداشت کرنے کاحوصلہ پیداکرتی ہے۔معاشرے میں ہم آہنگی پیداکرتی اوراحتساب کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ ہندوستان میں گزشتہ باسٹھ برسوں سے جمہوری عمل جاری و ساری ہے اور ہم اکثر اوقات اسے رشک کی نظر سے دیکھتے اور امریکی لیڈروں اوردانشوروں کو اسے دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کا اعزاز دیتے، سنتے اورپڑھتے ہیں لیکن ذرا غور کیجئے کہ ایک چھوٹے سے واقعے نے ہندوستانی جمہوریت کا بھانڈا پھوڑ دیاہے اورہندوستانی سیاست کا اصل چہرہ بے نقاب کر دیاہے۔ ذرا غورکیجئے کہ ہندوستان کی ایک بڑی سیاسی پارٹی جو ہندوستان کی حکمران بھی رہی ہے اور جس میں ہندوستان کے بڑے بڑے سیاستدان اور جمہوریت کے علمبردار شامل ہیں اپنے ایک معتبر سینئر لیڈر اورسابق وزیرخارجہ جسونت سنگھ سے قائداعظم محمد علی جناح کے چند تعریفی جملے برداشت نہ کرسکی اور واجپائی کی اس پارٹی بی جے پی نے اس جرم کی سزا کے طورپر نہ ہی صرف جسونت سنگھ کو پارٹی کی رکنیت سے محروم کر دیا ہے بلکہ جس صوبے میں ان کا بس چلتا ہے وہاں جسونت سنگھ کی کتاب پر پابندی بھی لگا دی ہے۔ آنسوؤں کی برسات پر قابو پاتے ہوئے جسونت سنگھ نے کہا کہ اسے اپنی کتاب کے خلاف پاکستان میں شدید ردعمل کا اندیشہ تھا جبکہ یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے اور میری پارٹی نے میری تین دہائیوں کی رفاقت پر کلہاڑا چلادیا ہے۔ نراد چودھری ہندوستان کا ایک بڑا لکھاری، ٹھیک ہی کہتا تھا کہ ذات پات، چھوت چھات، انسانی نفرت، برداشت کافقدان اور انتہاپسندی ہندو جبلت کاحصہ ہیں اس لئے ہندوستان میں جمہوریت نہ انسانی برابری اور معاشرتی ہم آہنگی پیدا کرسکی ہے اور نہ ہی برداشت کا مادہ پیداکرسکی ہے۔ جسونت سنگھ کا ایک قصور ”سنگھ“ ہونا تھااور دوسرا قصور قائداعظم کی عظمت کوہدیہ تبریک پیش کرنا تھاجوجمہوریت کے دعویدارہضم نہ کرسکے۔
جسونت سنگھ نے اپنی کتاب میں جو نقطہ نظر پیش کیا ہے وہ کوئی نئی بات اور ”عجوبہ“ نہ تھا۔ اس کاکہنا ہے کہ جناح نیشنلسٹ (قوم پرست) تھے۔ وہ تقسیم ہند نہیں چاہتے تھے لیکن کانگریسی قیادت نہرو، پٹیل وغیرہ کے رویئے نے انہیں تقسیم ہند اور قیام پاکستان پر مجبور کردیا۔ دوسرے الفاظ میں وہ تقسیم ہند کے لئے قائداعظم کو نہیں بلکہ کانگریسی قیادت کو مورد الزام ٹھہراتاہے۔ اس سے مجھے یاد آیا کہ ہمارے محسن سرسیداحمد خان بار بار اپنی تقریروں میں کہتے تھے کہ ہندوستان میں جمہوریت اور انتخابات اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکیں گے کیونکہ ہندوستانی معاشرہ ذات پات، اونچ نیچ، برادری ازم اور علاقہ پرستی کا شکار ہے۔ دوسری بات یہ کہ جسونت سنگھ نے جس طرح قائداعظم کو نیشنلسٹ قرار دے کر تقسیم ہند کی ذمہ داری کانگریسی سیاست وقیادت پر ڈالی ہے یہ ہرگز کوئی نئی بات نہیں تھی جس پر شدید ردعمل کااظہار کیاجاتا کیونکہ بین ہی یہی نقطہ نظر مولانا آزاد کا تھا جس کا اظہار انہوں نے اپنی کتاب ”انڈیا ونز فریڈم“ میں کیا ہے لیکن اس کے باوجود مولانا آزاد ہندوستانی کابینہ کے رکن رہے۔ اس سے زیادہ کھل کر اور زوردار انداز میں یہی بات ایچ ایم سیروائی نے لکھی ہے۔
سیروائی صاحب ہندوستانی مہاراشٹر میں تقریباً 17 برس تک ایڈووکیٹ جنرل رہے۔ میں نے ان کی کتاب کااردومیں ترجمہ ”تقسیم ہند… افسانہ و حقیقت“ کے عنوان سے کیا ہے اور یہ کتاب پڑھنے کے لائق ہے۔ اسی طرح ڈاکٹراشتیاق حسین قریشی سے لے کر ڈاکٹر عبدالحمید سے ہوتے ہوئے ڈاکٹرخالد بن سعید اور ڈاکٹرکے کے عزیز تک پاکستانی مورخین نے تحریکِ آزادی کے بارے میں اپنا اپنانقطہ نظر پیش کیاہے جو ہندوستانی مورخین سے مختلف اور بعض اوقات متضاد ہے البتہ ڈاکٹر عائشہ جلال کانقطہ نظرہندوستانی نقطہ نظرکے قریب ہے لیکن ان تمام مکاتب فکر پرپاکستان میں کبھی واویلا نہیں ہوا کیونکہ ہرمحقق کو اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کی مکمل آزادی ہے اور اسی فکری آزادی میں معاشرے کی ترقی و تعمیر کا راز پوشیدہ ہے۔ پاکستا ن میں ایسے دانشوروں کی کمی نہیں جو سیکولر ازم کی آڑ میں اکھنڈ بھارت کا راگ الاپتے اورروشن خیالی کے پردے میں پاکستان کی بنیادوں پروارکرتے رہتے ہیں اور کچھ حضرات تو بانی ٴ پاکستان کے خلاف بھی ادھار کھائے بیٹھے ہیں اور ان کی ذات پر پتھر برسانے سے باز نہیں آتے لیکن ان سے اختلاف ِ رائے سے زیادہ کبھی کسی نے ان کے خلاف کچھ نہیں کیا۔ خان ولی خان پاکستان کے نامور لیڈر تھے۔ انہوں نے خاندانی سیاست کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک ایسی کتاب لکھی جس میں قائداعظم کو انگریزوں کاایجنٹ قرار دیا لیکن ان کے خلاف ملکی سطح پر کوئی شدید ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا البتہ محترم صلاح الدین (Had there been no Jinnah) سمیت کئی حضرات نے ولی خان کا نہایت مدلل جواب دیااور تحقیق کی روشنی میں ان شعبوں کی نشاندہی کی جہاں جہاں خان صاحب نے تاریخ کو مسخ کیاہے۔ یہ ایک علمی بحث ہے اور بس…
کہنے کامقصد یہ تھاکہ جسونت سنگھ کا اصل قصور یہ نہیں کہ اس نے قائداعظم کوقوم پرست قرار دے کرتقسیم ہند کی ذمہ داری کانگریسی سیاست پرڈال دی کیونکہ یہ بات جسونت سنگھ سے قبل مولانا آزاد، سیروائی سمیت ہندوستان کے کئی لکھاری اورسیاستدان کہہ چکے ہیں جبکہ ہم یہ سمجھتے ہیں اورتحقیق سے ثابت کرتے ہیں کہ1940 کے بعد قیام پاکستان ہی قائداعظم کی منزل تھی اوروہ اس سے کم کسی مقام پر رکنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ یہی بات ڈاکٹر سکندر حیات نے اپنی تازہ تصنیف میں ثابت کی ہے۔ جسونت کااصل قصور یہ ہے کہ اس نے قائداعظم کی تعریف کی، ان کی عظمت، محنت، خلوص، کرداراور ذہانت کی داد دی اور انہیں سیلف میڈ ہونے کارول ماڈل قرار دیاجبکہ ان کے مقابلے میں گاندھی ایک دیوان کے بیٹے اور نہروسونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئے تھے۔ جسونت سنگھ قائداعظم کی بصیرت، ذہانت اور کمٹمنٹ کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے لکھتاہے کہ جناح نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور اندھیرے سے اجالا پیدا کردیا۔گاندھی، نہرو، پٹیل وغیرہ سے جناح کو بڑا لیڈر کہنا ہی اصل میں جسونت سنگھ کا ایسا جرم تھاجس کی بی جے پی کی کتاب میں کوئی معافی نہیں۔ یہی نفرت، برداشت کافقدان، ذات پات اور مذہبی جنونیت ہندوستانی سیاست کی جبلت کا ناگزیر حصہ ہیں اورہم مختلف صورتوں میں اس کے مظاہرے دیکھتے رہتے ہیں اوراپنے نام نہاد سیکولر حضرات کے من گھڑت دلائل سنتے رہتے ہیں۔ ماشاء اللہ ہمارے کئی دانشور یہ کہتے ہیں کہ قائداعظم کابینہ مشن پلان قبول کرکے پاکستان سے تائب ہوگئے تھے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے کابینہ مشن اس خیال کے ساتھ قبول کیا تھا کہ وہ بالآخرپوراپنجاب اور پورا بنگال حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ جسونت سنگھ نے اپنی کتاب میں پٹیل کا خاصا ذکر کیاہے اور بقول وی پی مینن (صفحہ 386) پٹیل نے کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں 14جون1947کو تین جون کے فارمولے کی حمایت کرتے ہوئے کہاتھاکہ ”اگر کانگریسی قیادت نے کابینہ مشن پلان قبول کرلیا ہوتا تو سارا ہندوستان پاکستان کی راہ پر چل پڑتا۔ (Whole of India would have gone the Pakistan way) شکر کرو انہوں نے 80/75 فیصد ہندوستان لے لیا“ پٹیل کانگریس کا اہم لیڈر اورہندوستان کا نائب وزیراعظم تھا۔ وہ کابینہ مشن پلان کی باریکیوں کوبہتر سمجھتا تھا یا ہمارے نونہال دانشور؟؟؟
تازہ ترین