عا لمی یوم آبادی منانے والی اس دنیا کا رقبہ51کروڑ ایک لاکھ مربع کلو میٹر ہے مگر آبادی بڑھ گئی ہے دنیا کی آبادی نو سو سال پہلے صرف 31کروڑ تھی جو 1900میں ایک ارب 68کروڑ ہو ئی اور آج دنیا کی آبادی تقریبا ساڑھے سات ارب ہے۔ صرف ڈیڑھ دو صدی قبل دنیا کی کل آبادی اور سا لانہ اضافے کی شرح یوں بھی کم تھی کہ شرح اموات اورشرح پیدائش میں توازن تھا جنگوں، قحط، وبائی امراض سیلابوں، زلزلوں میں ایک ساتھ کسی علاقے میں کروڑوں افراد ہلاک ہو جاتے تھے اب انسان نے ان مسائل پر کافی حد تک قابو پالیا ہے1960میں ہمارے ہاں اوسطاً عمر صرف چالیس سال اور ترقی یافتہ ملکوں میں ساٹھ سال تھی اب ہمارے ہاں اوسطاً عمر چونسٹھ سال اور ترقی یافتہ ممالک میں85 سال ہوگئی ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں پندرہ سال بعد اوسطاً عمر سو سال ہوگی۔ ان کےپنشنروں کو پنشن کا مسئلہ ہوگا مگر ان کی آبادی اسی سطح پر ٹھہر ی رہے گی۔ ہمارے ہاں پہلی مردم شماری1951 میں ہوئی جب بھارت سے مہاجرین کی آمد رک گئی اور ملک میں سٹیزن ایکٹ نافذ ہوا۔ پہلی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی ساڑھے سات کروڑ سے کچھ زیادہ تھی جس میں مشرقی پاکستان حالیہ بنگلہ دیش رقبہ 147570 مربع کلومیٹر کی آبادی 4کروڑ20لاکھ اور آج کے پاکستان رقبہ 796095م ربع کلو میٹرکی آبادی3 کروڑ70 لاکھ تھی 1951میں برطانیہ جس کارقبہ244110مربع کلومیٹر اوراس کی آبادی تین کروڑ86لاکھ تھی جو اب پونے چھ کروڑ ہے اور اضافی آبادی میں لاکھوں تارکین وطن ہیں آبادی مسئلہ ہے لیکن دلچسپ صورتحال ہمارے خطے کی ہے جس میں چین دنیا میں آبادی کے لحاظ سے پہلے بھارت دوسرے اور پاکستان چھٹے نمبر پر ہے تعریف کی بات یہ ہے کہ تینوں ممالک ایٹمی قوتیں بھی ہیں اور جہاں تک تعلق آبادی کے مسئلے کا ہے تو اسے پہلے1798 میں برطانیہ کے تھامس مالتھس نے نہ صرف محسوس کیا بلکہ آبادی کا قانون بھی دیا اور بتایا کہ ایک مقررہ مدت کے دوران آبادی میں اضافہ علم ہندسہ کے اصول سے ہوتا ہے جیسے16,8,4,2,1 جبکہ اسی دوران خوراک کی رسد میں اضافہ حسابی طریقے سے ہوتا ہے جیسے 6,5,4,3,2,1اور اسی بنیاد پر آبادی کی منصوبہ بندی کا تصور سامنے آیا اور دوسری عالمی جنگ کے بعد ترقی یافتہ ممالک نے دو پردو کے اصول کو اپنایا یعنی ایک جوڑا دو بچے اور یوں ان ملکوں کی آبادیاں ستر سال سے منجمد ہیں چین نے اپنی آزادی کے بعد1980 تک پاپولیشن پلانگ پر توجہ نہ دی لیکن پھر ان کو احساس ہوا کہ اس طرح تو ملک ترقی نہیں کرسکے گا اور پھر ترقی یافتہ ملکوں سے ترقی کی دوڑ میں تھوڑی مدت میں مقا بلہ کرنے کے لئے چین میں فی جوڑا ایک بچہ کا سخت قانون نافذ ہوا اور چین نے آبادی کے بڑھنے کی رفتار بہت کم کرکے ترقی کی رفتار کو بڑھا دیا اور اب وہاں بعض علاقوں میں فی جوڑا دو بچےکا رحجان ہے۔ اس وقت چین کی ترقی کی رفتار تیز اور پائیدار ہے ایٹمی قوت چین کے ہمسائے بھارت اور پاکستان بھی ایٹمی قوتیں ہیں مگر ان دنوں ملکوںمیں ایٹمی ہتھیاروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ خوفناک صورتحال آبادیوں کے بم کی ہے چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پہلا اور9596961مربع کلو میٹر رقبے کے اعتبار سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک بھارت جو چین سے سات کروڑ کم آبادی یعنی ایک ارب31کروڑ کے لحاظ سے دوسرا اور3287263مربع کلو میٹر رقبے کے اعتبار سے دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے ستر مختلف قوموں قومیتوں ثقا فتوں اور کئی لسانی ،مذہبی گروہوں کی بنیاد پر سماجی و معاشرتی مسائل کا شکار ہے جو سب سے بڑی پارلیمانی جمہوریت کے ساتھ اگرچہ اس وقت کسی بڑے بحران میں مبتلا تو نہیں مگر حالیہ داخلی انتہا پسندی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ جارحانہ عزائم کی وجہ سے نازک مراحل سے گزر رہا ہے اور جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان اپنی بیس کروڑ آبادی کی بنیاد پر اس وقت دنیا کا چھٹا اور 796095 مربع کلو میٹر رقبے کے لحا ظ سے دنیا کا 33 واں ملک ہے اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی یہاں اہم سماجی سیاسی اقتصادی مسئلہ ہے پاکستان مہاجر میزبان ممالک میں ریکارڈ کے مطابق 25لاکھ مہاجرین کی بنیاد پر دنیا کا دوسرا ملک ہے لیکن حقیقت میں یہ تعداد کہیں زیاد ہے اسی طرح ریکارڈ پر تارکین کی آبادی 40لاکھ پر 14واں ملک ہے جب کہ تارکین وطن کی تعداد بھی اس سے زیادہ ہے اور حالیہ مردم شماری کے اعداد شمارکے سامنے آنے کے بعد بھی بہت سے مسائل کا سامناہوسکتا ہے 1956سے 1970 تک ون یونٹ کی بنیاد پر سیاسی مسائل یہ تھے کہ مشرقی پاکستان رقبے میں کم اور آبادی میں زیادہ تھا ،ان کا شکوہ تھا کہ برابری کے اصول کی وجہ سے ان سے حکومت یا اقتدار کا حق چھینا جارہا ہے آج بلوچستان کے اعتبار سے ملک کے 43% رقبے کے صوبے کی آبادی ملک کی کل آبادی کا6% ہے اور اب ملک کی تعمیر وترقی میں اس صوبے کا حصہ کہیں زیادہ اہم ہے اور اسی بنیادوزیراعظم صوبائی وزیراعلیٰ سمیت سب یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل بلوچستان سے وابستہ ہے لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ بلوچستان کو ہمیشہ سے صوبائی بجٹ سازی میں شدید مالیاتی مسائل اور خسارے کا سامنا رہا ہے جو 2017-18 کے تین کھرب28ارب روپے کے بجٹ میں52ارب روپے خسارے کی صورت میں ہے 2015 میں آٹھواں قومی مالیاتی ایوارڈ آنا تھا جو نہ آسکا ،اور مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں واضح رہے کہ1990تک بلوچستان کو محاصل کی تقسیم میں سے صرف 3.86% ملتا تھا پھر یہ 5.30% ہوا 2010میں اٹھارویں آئینی ترمیم اور ساتویں مالیاتی ایوارڈ کے بعد جب آبادی کے ساتھ ساتھ رقبے اور پسماندگی کو بھی محاصل کی تقسیم کے فارمولے میں شامل کیا گیا تو بلوچستان کا تناسب 9.09% ہو گیا مگر اس وقت سیکورٹی، شاہراہوں کی تعمیر اور دیکھ بھال اور بڑھتی ہوئی آبادی جیسے مسائل آمدنی کے مقابلے میں بڑھ گئے ہیں یوں ان تمام مسائل کا حل جمہوری حسن کے ساتھ حقائق اور تحقیق کی بنیاد پر نکالنا پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے۔ آج کم آبادی اور وسیع رقبے کے صوبے کی بنیاد پر بھی ملک کو مسائل کا سامنا ہے اور بڑھتی ہوئی شہری آبادی کے لحاظ سے بشمول ڈھائی کروڑ آبادی کے شہر کراچی سمیت ملک کے دس بڑے شہروں کی بنیادپر مستقبل قریب میں خصوصاً حالیہ مردم شماری کی رپورٹ آنے اور2018کے عام انتخابات کے موقع پر سیاسی لسانی اقتصادی سماجی مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ بہتر ہے کہ سیاسی قائدین پارلیمنٹ میں بیٹھیں اور ان متوقع مسائل کا حل پہلے ہی سے ڈھونڈلیں اور یہ جان لیں کہ ایٹمی قوت کے حامل پاکستان کو آبادی کے بم سے بہت زیادہ خطرات ہیں کیونکہ یہ ٹائم بم ہے جس کی ٹک ٹک اب واضح طور پر سنائی دے رہی ہے۔