• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئی ”دریافت “۔ متنوع مضامین....نیشنل لینگویجز یونیورسٹی اسلام آباد کو مبارکباد....نقارخانے میں…جمیل الدین عالی....وفاقی اردو یونیورسٹی۔گزشتہ سے پیوستہ

گزشتہ کالم میں وفاقی اردو یونیورسٹی کی ترقی و ترویج کا حال بیان کیا تھا آج کلیہ فنون و قانون کا احوال معاضر ہے۔
اس سلسلے میں اصل بات یہ ہے کہ اردو یونیورسٹی کی اساس وہ اردو کالج ہے جو 1949ء میں بابائے اُردو نے قائم کیا اور اسے یونیورسٹی بنانے کی خواہش دل میں لئے 1961ء میں جہان فانی سے کوچ کر گئے مگر اپنے پیچھے ایسے لوگ چھوڑ گئے جو اردو یونیورسٹی کے قیام کے لئے پرخلوص کوششیں کرتے رہے اور بالآخر نومبر 2002ء میں اردو یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ اور اردو آرٹس کالج کو یونیورسٹی کا کلیہ عبدالحق کہا گیا آج کل جس کے سربراہ اردو یونیورسٹی کے قیام کی کوششیں کرنے والے اہم کارکن ڈاکٹر حسن وقار گل ہیں۔
عبدالحق کیمپس کلیہ فنون و قانون وفاقی اردو یونیورسٹی کا اہم کلیہ ہے جس میں سترہ تدریسی شعبے ہیں جو رئیس کلیہ فنون قانون پروفیسر ڈاکٹر حسن وقار گل کی سربراہی میں نہایت فعال ہیں۔ یونیورسٹی کے قیام سے قبل کالج کے دور میں وہاں صرف دو پی ایچ ڈی اساتذہ تھے اب وہاں سو سے زائد استاد ہیں جن میں اٹھائیس پی ایچ ڈی اساتذہ ہیں اور اس سے زائد اساتذہ پی ایچ ڈی کی سند کے لئے تحقیقی عمل میں مصروف عمل ہیں۔ خود ڈاکٹر حسن وقار گل نے اپنی نگرانی میں کئی پی ایچ ڈی کروائے ہیں اور علیٰ تعلیمی کمیشن کے مطابق ایم فل/ پی ایچ ڈی کا نصاب بھی تیارکیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے اردو یونیورسٹی کے گلشن اقبال کیمپس میں قائم ہونے والے مشفق خواجہ ٹرسٹ کے تحت مشفق خواجہ یادگاری کتب خانہ اور اسلام آباد میں اسکول آف اکنامکس کے انسٹی ٹیوٹس (قوانین) یونیورسٹی کی جانب سے ڈاکٹر حسن وقار گل کی سربراہی میں تیار کئے گئے ہیں جبکہ ڈاکٹر حسن وقار گل کی خصوصی معاونت اردو یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ میں انجمن ترقی اردو کے نمائندے پروفیسر انیس زیدی نے کی ہے کلیہ فنون میں ایک بہت بڑے کتب خانے کی عمارت تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ نئے اساتذہ کا تقرر کیا جارہا ہے شعبہ اردو میں ایم فل/پی ایچ ڈی پروگرام کے تحت جامعہ کراچی کے ایک لائق صدر شعبہ اردو پروفیسر ڈاکٹر یونس حسنی اور شعبہ ابلاغ عامہ میں پروفیسر سیمی نغمانہ کو بذریعہ سلیکشن بورڈ کیا گیا ہے ۔ شعبہ قانون کو ترقی دینے کے لئے شیخ الجامعہ نے ایک پی ایچ ڈی کو ایک سال کے (کنٹریکٹ) معاہدہ پر صدر شعبہ قانون مقرر کیا ہے اور امید ہے کہ شعبہ قانون میں (HEC) اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے معیار کو برقرار رکھتے ہوئے مزید ایسے اساتذہ کا تقرر کیا جائے گا جو قانون کی اردو میں تدریس کی مہارت رکھتے ہوں کہ اردو یونیورسٹی کا طرہ امتیاز اردو میں تدریس ہے اردو یونیورسٹی کے عبدالحق کیمپس فنون کے کئی شعبوں میں ایم فل/پی ایچ ڈی کی تدریس کی جارہی ہے۔ اور شام میں ایم بی اے کی تدریس شروع کردی گئی ہے۔
ڈاکٹر رضیہ حامد
محترمہ ڈاکٹر رضیہ حامد صاحبہ کے اعزاز میں انجمن ترقی اردو میں تقریب پذیرائی
بھوپال سے تشریف لائی اور ادیبہ محترمہ ڈاکٹر رضیہ حامد کے اعزاز میں انجمن ترقی اردو نے محبان بھوپال کے اشتراک سے ایک تقریب کاانعقاد کیا جس میں ان کی کتاب ”نواب سلطان جہاں بیگم“ کی رونمائی کی گئی تقریب کی نظامت انجمن کے نائب معتمد اعزازی جناب حسن ظہیر نے کی اور ابتدائیہ محبان بھوپال فورم کی چیئرپرسن محترمہ شگفتہ فرحت نے پڑھا۔ تقریب میں صدر انجمن جناب آفتاب احمد خان نے فرمایا کہ کتاب زندہ روایات کی امین ہوتی ہے۔ اس سے محبت اور یگانگت کی خوشبو پھیلتی ہے۔ رضیہ حامد کی کتاب ان کی محنت، ریاضت اور لگن کی پیداوار ہے جس کے وسیلے سے بھوپال کی اس عظیم کردار کی طرز حکمرانی ، سیاسی و معاشی حکمت عملی اور علم و ادب کے لئے ان کی خدمات پر روشنی پڑتی ہے۔ انہوں نے رضیہ حامد کی مساعی کو سراہا۔ ممتاز شاعر، دانشور اور انجمن کے اعزازی معتمد جناب جمیل الدین عالی نے ڈاکٹر رضیہ حامد کی انجمن میں آمد کا شکریہ ادا کیا اور کتاب کے اہم مندرجات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان کے نقطہ نظر کے مطابق کتاب گہرائی نظر کی شاہکار ہے اس لئے کہ ڈاکٹر رضیہ حامد نے اسے کے موادکی دستیابی کے لئے خاصی محنت کی ہے۔ سینئر ادیب جناب محمد احمد سبزواری نے جو کہ خود بھوپال سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کی بھوپال کی سیاسی، انتظامی، علمی اور ثقافتی تاریخ پر گہری نظر ہے انتہائی دلچسپ انداز سے ماضی سے لے کر موجودہ تاریخ کا احوال بیان کیا۔ انہوں نے نہ صرف نواب سلطان جہاں بیگم کی عظیم خدمات کا تذکرہ کیا بلکہ اس ریاست کے دوسرے یادگار کرداروں کی زندگیوں اور کارناموں کو سلسلہ وار بیان کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ اس ریاست کی اجتماعی سیاسی بصیرت کا کمال ہے کہ اپنی شرائط ہی پر انڈین یونین میں شمولیت اختیار کی جس کی اہمیت کا اندازہ زوال دکن کے تناظر میں ہوتا ہے۔ جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کے پروفیسر جناب ڈاکٹر یونس حسنی نے کہا کہ وہ میٹرک سے لے کر پی ایچ ڈی کرنے تک بھوپال ہی میں رہے اور اپنی آنکھوں سے اس کے حکمرانوں کی سیاسی، انتظامی، علمی معاشی حکمت عملیوں اور مختلف میدانوں میں ان کی کامیابیوں کا مشاہدہ کیا۔ نواب سلطان جہاں بیگم کے بغیر بھوپال کی تاریخ نامکمل ہے۔ اس عظیم شخصیت کے کارناموں کو ڈاکٹر رضیہ حامد نے بخوبی بیان کرکے ہماری آگاہی میں اضافہ کیا ہے۔ بعدازاں انہوں نے ڈاکٹر رضیہ حامد کو اس کتاب کے تحریر کرنے پر مبارک باد دی۔ پروفیسر شاہدہ حسن نے کتاب کے مختلف ابواب کو زیربحث لاتے ہوئے نہ صرف اس کی ادبی اور اسلوبیاتی خصوصیات کی تعریف کی بلکہ اس کے مواد پر اپنے مخصوص انداز سے روشنی ڈالتے ہوئے عالمی سطح پر بھوپال کی حکمراں خواتین کے تدبر، سیاست ، سفارت کاری علم و ادب کے میدانوں میں ان کی سرگرمیوں اور کامیابیوں کا بھرپور جائزہ پیش کیا اور ثابت کیا کہ خواتین اپنی ذات میں بے کراں صلاحیتوں کی حامل ہوتی ہیں۔ جن سے عالمی تاریخ بھری پڑی ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر رضیہ حامد کی کتاب کے حوالے سے تعریف کی کہ بھوپال کی اس عظیم کردار، خدمات اور سیاست بھوپال سے قارئین کو واقفیت حاصل ہوئی۔
ایڈیشنل آئی جی سندھ انوسٹی گیشن جناب ظفر احمد فاروقی نے کتاب کی اشاعت پر ڈاکٹر رضیہ حامد کو مبارک باد دی اور اس کے ایک اہم باب کو موضوع بحث بناتے ہوئے اس کے مندرجات پر روشنی ڈالی اور کتاب کی افادیت کو واضح کیا۔
کتاب کی مصنفہ ڈاکٹر رضیہ حامد نے اپنی کتاب کی ترتیب و تخلیق کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنی اس مساعی کا تذکرہ کیا جس کا تعلق اس کے لئے مواد کے حصول کے لئے تھا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے کوشش کی ہے کہ نواب سلطان جہاں بیگم کی شخصیت و کردار کا کوئی گوشہ تشنہ نہ رہ جائے۔ انہوں نے نواب صاحبہ کی شخصیت کو عبقری شخصیت قرار دیا۔
”دریافت“ نیشنل لینگویجزLanguages یونیورسٹی آف اسلام آباد کا جریدہ ہے
اس مرتبہ چھ سو پندرہ صفحات پر مشتمل جریدہ کیا ہے کتابوں کی کتاب ہے۔ مدیر … ریٹائرڈ بریگیڈیئر ڈاکٹر عزیز احمد خاں ہیں، مجلس ادارت ڈاکٹر رشید امجد اور ڈاکٹر عابد سیال پر مشتمل ہے۔ (کوئی پاکستان کے جنوب یعنی سندھ وغیرہ کا نہیں مگر اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا (اب اپنی جگہ ادب ہے۔)
اب پاکستان میں اتنے ضخیم اور اتنے اچھے جریدے آنے … بہت کم ہوگئے ہیں، میں تو محترمین پر مشتمل مجلس مشاورت کے آسمائے گرامی بتائے دیتا ہوں، اسی سے اندازہ ہوجائے گا کہ ادارہ سے متعلق کیسے کیسے فاضل وماغوں نے اس کی ترتیب میں حصہ لیا ہے۔
(1) ڈاکٹر ابو الکلام قاسمی شعبہ اردو … مسلم یونیورسٹی (2) ڈاکٹر محمد فخرالحسن نوری شعبہ اردو یونیورسٹی اورینٹیل کالج لاہور (3) ڈاکٹر بیگ احساس شعبہ اردو، … اردو یونیورسٹی حیدرآباد (بھارت) (4) ڈاکٹر حسین صغیرا فراہم شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (بھارت) (5) سویا مانے یاسر شعبہ ایریا اسٹڈیز (ساوٴھ ایشیا) روسا کا یونیورسٹی جاپان (6) ڈاکٹر محمد کیو مرثی صدر شعبہ اردو تہران یونیورسٹی ایران (7) ڈاکٹر محمد آفتاب احمد، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز سے اسلام آباد،ڈاکٹر گوہر نوشاہی نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد، پروفیسر رفیق بیگ، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد ای میل شعبہ اردو۔
مضامین علمی اورفکری ہیں، ایسے کہ آج کے زمانے میں کم لکھے جاتے ہیں اور کم کم چھپتے ہیں، مرمت چند مثالیں دیتا ہوں۔
”تحقیق میں سرقے کی عالمی مثالیں“از ڈاکٹر معین الدین عقیل (یہ کبھی مجھ سے خاصے خفار ہے ہیں قصور کسی کا بھی ہو خدا کرے اب مہربان ہوں۔ فاضل آدمی ہیں)
”خلاصتہ الزائد سلسلہ حیثیت کا ایک اہم مجموعہ ملفوظات“از ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر“
”متن سیاق اور تناظر“از ڈاکٹر خالد عباس نیر
”فارسی اردو … میں عربی عبارات کی تصحیح کا مسئلہ “از ڈاکٹر عارف نوشاہی۔
”قرآن مجید کا کے کامل سرائیکی تراجم کا تقا بلی جائزہ“از مقبول حسن گیلانی ڈاکٹر انوار محمد، ڈاکٹر نور الدین جامی
”اصطلات سازی، ضرورت اور اہمیت“ڈاکٹر محمد اشرف کمال وغیرہ۔اس کے اگلے حصے میں ”شعری ونثری تراجم، فن،مسائل اورامکانات“ از رابعہ سرفراز، ”ترجمے کی اہمیت“ بشریٰ پروین ”ترجمے کے بارے میں مختلف نظریے“ خالد اقبال، اس سے اگلے حصے میں قیام پاکستان کے بعدسندھی بولنے والے ادیب اور اردو“از ڈاکٹر یوسف خٹک۔ تحریک پاکستان عوامی شعور کی بیداری اور مقامی اخبارات از ڈاکٹر شاہد حسن رضوی۔ بال بلبل، بازوئے شاہین اور بے کام زمانے از ڈاکٹر عامر، اصلاحات اقبال کا تحقیقی جائزہ اگلے حصے میں تو قوائد اردو بابا کاہن سنگھ اردو انگریزی اور عربی زبان کی اصوات ایک تقابل۔ اس سے ان کے حصے میں نعتیہ غزل میں ہیتی تجربات از ڈاکٹر افضال احمد انور، ڈاڈا ازم سرئیلزم اور اردو شاعری میں اثرات ا زسید شاہ سعید احمد، ”فارسی میں مختصر افسانے کا آغاز اور ڈاکٹر محمد کیومرثی، اردو افسانہ نگاری کے فروغ میں ادبی مجلہ سیپ کا کردار، از ڈاکٹر محمد ممتاز خاں کلیانی، آصف جہانگیر،”دشت سوس میں منظر نگاری از ڈاکٹر نسیم مظہر، اردو پیروڈی اور اردوھ پنچ ایک تحقیق مطالعہ“ ازفرحانہ منصور وغیرہ اور اس سے اگلے حصے میں ”حسن کوزہ گھر اور راشد کی یقین داراننگی از ڈاکٹر نوازش علی، مارکسی فلسفہ اور فیض احمدفیض کی شاعری از ڈاکٹر پروین سلیم احمد کی شاعری میں تلخی دوراں“ از یاسمین سلطانہ، فرائڈ ایک مطالعہ از ڈاکٹر صفیہ عباد وغیرہ وغیرہ…
جیسا کہ پہلے عرض کردیا یہ نام بطور مثال ہیں، تمام مضامین کے عنوانات اور ان کے مصنفین نام نہیں دے جاسکے کہ یہ سلسلہ بہت طوالت طلب تھا۔
نمونے کے ان عنوانات سے ہی ظاہر ہوگا کہ جن میں کتنے بڑے اور وسیع المعانی مضامین کا احاطہ کیا گیا مگرفنون تسلیم شدہ طور پر کامل نہیں کیا گیا ایک طرح خلاصہ اور مثالی ہے، مگر میرا خیال ہے کہ یہ شوق مطالعہ رکھنے والوں کے لیے ایک بڑی نعمت سے بھی کم نہیں، وہ اپنے مطلب کی بہت سی باتیں تلاش کرسکتے ہیں، میں سمجھتا ہوں ”دریافت“ کا یہ شمارہ اردو زبان کو ایک بڑا تحفہ ہے اور ظاہر ہے کہ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد سب اردو دوستوں کی طرف سے نہایت مخلصانہ اور مداہانہ مبارکباد کی مستحق ہے۔


تازہ ترین