• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم و مغفور!....نقش خیال…عرفان صدیقی

ڈاکٹر اسرار احمد بھی وہاں چلے گئے، جہاں ہم سب کو جانا ہے۔ احسان دانش نے کہا تھا۔
قبر کے چوکھٹے خالی ہیں انہیں مت بھولو
جانے کب کون سی تصویر سجادی جائے
لیکن ہم قبر کے چوکھٹوں کو بھولے رہتے ہیں۔ دنیا کے لوبھ لالچ اور دنیاداری کے دھندوں میں اس طرح الجھ کر رہ جاتے ہیں کہ کسی دوسرے جہان کا تصور ہی باقی نہیں رہتا۔ یہاں تک کہ کوچ کا نقارہ بن جاتا ہے، سب ٹھاٹھ باٹھ یہیں پڑا رہ جاتا ہے اور بنجارہ کسی ان دیکھی منزل کو نکل جاتا ہے۔ کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس دنیا کے موج میلوں میں بھی اس دنیا کو نہیں بھولتے اور ان کی تعداد تو آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے جو اپنی ساری زندگی کسی مقصد اولٰی کی نذر کردیتے اور اپنا سب کچھ کسی بڑے مشن میں لگا دیتے ہیں۔ ڈاکٹر اسرار احمد انہی میں سے ایک تھے۔ پوری عمر قرآنی تعلیمات کی ترویج و توسیع میں لگادی۔ جسم و جاں کی تمام تر توانائیوں اور فکر و دانش کی ساری صلاحیتوں کو ایک مستقیم راہ پہ مرکوز رکھتے ہوئے کمال بانکپن کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھا۔ میں نے ایسا عالمانہ جاہ و جلال کم لوگوں میں دیکھا ہے جو ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا حسن تھا۔ یہ انہی لوگوں کو عطا ہوتا ہے جن کا ایمان صورت فولاد پختہ ہوتا ہے، اور جن کی فکر ہر طرح کے ایچ پیچ سے پاک ہوتی ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد کی گفتگو ابہام سے قطعی مبریٰ ہوتی تھی اور وہ ایک ماہر استاد کی طرح اس طرح گتھیاں سلجھاتے چلے جاتے تھے کہ ان کی بات براہ راست دلوں میں گھر کر جاتی تھی۔ زمانہ طالب علمی کے چند برس چھوڑ دئیے جائیں تو کہا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر اسرار احمد نے کم و بیش ساٹھ برس انسانوں کی بستی میں اجالے بونے اور روشنیاں بانٹنے کا کام جاری رکھا۔ اللہ تعالٰی فروغ دین کے پیغمبرانہ مشن کے اس مشعل بردار کی قبر کو نور سے بھردے اور اسے وہ مقام عطا کرے جو اس نے اپنے بندگان خاص کے لئے مخصوص کر رکھا ہے۔ آمین۔
ڈاکٹر صاحب کا ایک بڑا امتیاز یہ تھا کہ وہ بہ یک وقت دینی اور دنیوی تعلیم سے آراستہ تھے۔ ہمارے ہاں کے علماء میں ایسی مثالیں بہت کم ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت ان کی عمر پندرہ برس کے لگ بھگ تھی جسے عنفوان شباب کہا جاتا ہے۔ تحریک آزادی کے دنوں میں وہ مسلم لیگ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا حصہ رہے۔ آج سے کوئی چھپن برس قبل 1954ء میں کنگ ایڈورڈ کالج لاہور سے ایم۔بی۔بی۔ایس کا امتحان پاس کیا۔ اس عہد کے بہت سے انقلابی نوجوانوں کی طرح اسرار احمد کو بھی سید مودودی کی فکر نے متاثر کیا۔ وہ اسلامی جمعیت طلبہ سے ہوتے ہوئے جماعت اسلامی تک جا پہنچے۔ درس قرآن کا سلسلہ انہوں نے زمانہ طالب علمی میں ہی شروع کردیا تھا۔ تحریر و تقریر کی تراش خراش اور ماحول کو بدل ڈالنے کے لئے نظام اسلام کی عملی تعبیر و تشکیل کی فکر کی نمو اسی دور میں ہوئی۔ مولانا مودودی کے فلسفہ فکر کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ لوگوں کی ذہنی و قلبی اصلاح کے ذریعے معاشرے کو اس طرح تیار کیا جائے کہ اسلامی نظام کے خدوخال سبزہ نوبہار کی طرح نمو پانے لگیں اور اسی سے اس انقلابی انقلاب کا شجر طیبہ پروان چڑھے جس کے ثمرات سے ریاست کا دامن بھر جائے۔ پچاس کی دہائی کے نصف آخر میں جماعت اسلامی ایک بڑے آشوب کا شکار ہوئی۔ ایک رائے یہ بنی کہ اصلاح احوال کے تمام تر عوامل کے ساتھ ساتھ انتخابی سیاست میں بھی حصہ لیا جائے اور مروجہ نظام کے ذریعے تبدیلی لانے کی کوشش کی جائے۔ دوسرا نقطہ نظر یہ تھا کہ جماعت کو پوری توجہ تبلیغ و اشاعت دین اور معاشرے کی ہمہ پہلو اصلاح پر مرکوز رکھنی چاہئے اور انتخابی سیاست کے جھمیلوں میں نہیں پڑنا چاہئے۔ 1957ء میں ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں یہ نزاع تقسیم کا سبب بن گیا۔ ایک حلقہ جماعت سے الگ ہوگیا۔ ڈاکٹر اسرار احمد بھی اس میں شامل تھے۔
جماعت سے الگ ہونے کے باوجود انہوں نے فروغ دین کا مشن نہ چھوڑا۔ ایم۔بی۔بی۔ایس کے کوئی گیارہ برس بعد انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم۔اے کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد کچھ ہی عرصہ بعد وہ عملاً میڈیکل شعبے سے الگ ہوگئے اور ساری توجہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے فروغ پر لگادی جو اب ان کا عشق و جنوں بن چکا تھا۔ 1972ء میں انہوں نے مرکزی انجمن خدام القرآن کے قیام کی راہ ہموار کی۔ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد تنظیم اسلامی کی بنیاد ڈالی جو اپنے اہداف و مقاصد کے حوالے سے اب ایک توانا تنظیم بن چکی ہے۔ کوئی بیس سال پہلے ڈاکٹر صاحب نے تحریک خلافت پاکستان قائم کی جو ان کے نزدیک امت مسلمہ کو درپیش مسائل کے حل کا وہ نسخہ ہے جس کے اجزائے ترکیبی نبی کریم کے قائم کردہ نظام سے پھوٹتے ہیں۔ ٹیلی ویژن پر ڈاکٹر صاحب کے خطبات نے ان کی مقبولیت کو بام عروج تک پہنچا دیا۔ الکتاب، الف لام میم، رسول کامل اور الہدیٰ وہ شہرہ آفاق پروگرام تھے جن میں ڈاکٹر صاحب کی علم و حکمت کے جوہر اور ان کی خطابت کا حسن کھل کر سامنے آئے۔ دینی اور دنیوی علوم سے شناسائی نے ان کی فکر کو وسعت دی اور ان کے اظہار کی صلاحیتوں کو دوچند کردیا۔ وہ بڑے اقبال شناس بھی تھے۔ علامہ کے اشعار کو اس خوبی سے استعمال کرتے کہ گفتگو کی دلکشی ہی نہیں معنی و مفہوم کی دل نشینی میں بھی کئی گنا اضافہ ہوجاتا۔ ان کی ساٹھ کے لگ بھگ کتب بڑے علمی سرمائے کا درجہ رکھتی ہیں اور مختلف موضوعات پر ان کے دل افروز لیکچرز آنے والے زمانوں میں بھی روشنی کے جادے تراشتے رہیں گے۔
یہ کالم میں سعودی عرب کے دارالخلافہ، ریاض میں بیٹھا لکھ رہا ہوں جہاں کوئی ایک برس بعد پچھلے تین دنوں سے وقفے وقفے سے بارش ہورہی ہے۔ اس وقت بھی آسمان بادلوں سے ڈھکا ہے۔ میں گھر سے اسلام آباد کے ہوائی اڈے جارہا تھا جب ڈاکٹر صاحب کے انتقال کی خبر ملی۔ دل بجھ ساگیا۔ سفر کے دوران میں سوچتا رہا کہ یہ کتنا بڑاخلا واقع ہو گیا ہے؟ کسی اور ڈاکٹر اسرار احمد کے لئے پاکستان کو کتنے زمانے لگیں گے؟ کس کے قلم میں ایسی دلکشی اور کس کی زبان میں اتنی اثر پذیری ہوگی؟ عربوں کا قول ہے۔ ”عالم کی موت ایک عالم (جہان) کی موت ہوتی ہے“۔ بلاشبہ ڈاکٹر اسرار احمد ایک شخص نہیں، علم و حکمت کا ایک جہان تھے۔ میں جب بھی ان سے ملا، مالا مال ہوگیا۔ لاہور میں ان سے دو ملاقاتیں دیر تک یاد رہیں گی۔ آخری ملاقات میں وہ خاصے کمزور لگے تھے۔ میری دلجوئی کے لئے دیر تک بیٹھے اور گفتگو کرتے رہے لیکن نقاہت عیاں تھی۔ مجھے اس وقت بھی محسوس ہوا تھا کہ آفتاب کنارے آلگا ہے۔ وہ مرد حق اپنا کام کرگیا۔ ان کے صاحبزادے حافظ عاکف سعید کو اب اپنے عظیم والد کی میراث سنبھالنی ہے جو کار آساں نہیں۔ اللہ انہیں ہمت و توفیق دے کہ وہ روشنیاں بونے اور اجالے بانٹنے کا مشن اپنے والد کے سے جذب و جنوں کے ساتھ جاری رکھ سکیں۔ آمین۔
تازہ ترین