• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہریت کاشعور و احساس،منظم معاشرے کی بنیاد.... سید آفتاب حسین

موجودہ دورمیں کسی بھی ریاست میں شہری یاعام معاشرتی نظام کی کامیابی وہاں کے شہریوں میں پائے جانے والے اس فکری جذبے اوراحساس پرانحصارکرتی ہے جس کے تحت وہ عملی طورپر نظم وضبط کامظاہرہ کرتے ہیں۔کوئی بھی ریاست اپنے معاشرے کودنیاکے منظم معاشروں کی صف میں اسی وقت شامل کرسکتی ہے جب عام لوگ معاشرتی زندگی کے عصری متقاضی اصولوں کی ضرورت اور اہمیت کوسمجھیں اوران پرعملدرآمد کریں ۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں عوامی شعورکوفروغ دینے کے مقصدکے تحت لوگوں کو مختلف ترغیبات فراہم کرتے ہوئے اس طرف ان کی توجہ دلائی جاتی ہے ۔ٹریفک قوانین سے آگاہی اوران پرعمل کرنے کیلئے ہفتہ ٹریفک منایا جاتا ہے۔ تعلیمی سطح پر اس شعبے کے حوالے سے اساتذہ کادن منایا جاتا ہے‘اسی طرح یوم ارض منانے کی ترغیب فراہم کرکے لوگوں کو بجلی کاغیرضروری استعمال کم کرنے پرآمادہ کیا جاتا ہے۔ معاشرتی شعور کی اہمیت اور افادیت کا دائرہ روزبروز وسیع ترہورہاہے۔شہری اپنے حقوق اورفرائض اسی صورت میں سمجھ سکتے اوران کی ادائیگی کرسکتے ہیں جب کہ وہ اس سلسلے میں مناسب اور ضروری سمجھ بوجھ رکھتے ہوں گے اسی طرح قانون کی بالادستی کے ضمن میں بھی افرادکاشعوری طرزعمل ایک انتہائی اہم محرک کی حیثیت رکھتاہے۔ کسی بھی ملک میں معمول کی عام سماجی زندگی میں نظم وضبط کی حالت کودیکھ کر وہاں کے لوگوں کی شعوری کیفیت کی ترقی یاتنزلی کابخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔عام افراد کی اخلاقی حالت اور ان کے رویوں کا دارومدار ان کے اس فکری جذبے اوراحساس پرہوتاہے جو ان کے شعورکی کوکھ میں پل بڑھ رہا ہوتا ہے ۔ موجودہ دورمیں مختلف ممالک کے معاشروں میں جوانتشار اور بدنظمی دیکھنے میں آتی ہے اس کی بنیادی وجہ لوگوں میں شعور اور احساس کی کمی یااس اہم عنصرکاموجود نہ ہونا ہے اور اس صورتحال کے نتیجے میں لوگ اپنے عام معاشرتی و اخلاقی فرائض کی ادائیگی سے صریحاً غفلت برتتے ہوئے نظرآتے ہیں ‘عام زندگی میں مشاہدہ کرنے پر ایسی بے شمار خامیاں اورکمزوریاں نظر آتی ہیں جوبظاہر معمولی اور چھوٹی لگتی ہیں لیکن اگربنظرغائر جائزہ لیاجائے تومعلوم ہوگا کہ ان بظاہرچھوٹی اورمعمولی باتوں کے کس قدرگہرے اورقابل ذکرمنفی نتائج اوراثرات عام شہری زندگی پرمرتب ہورہے ہیں یاہوسکتے ہیں۔مثلاً گاڑیوں کی غلط پارکنگ کامظاہرہ اکثروبیشتر دیکھنے میں آیاہے جونہ صرف قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ ساتھ ہی بعض صورتوں میں یہ صورتحال اخلاقیات کی نفی بھی کرتی ہے بلکہ اسی کے ساتھ یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ غلط پارکنگ کے نتیجے میں عام لوگوں کو کیامشکلات درپیش ہوسکتی ہیں اورکیاممکنہ حادثہ رونما ہوسکتاہے۔بین الاقوامی سطح پر مہذب اقوام کی فہرست میں شامل ہونے کیلئے معاشرتی شعور اورفکری جذبے کااجتماعی طورپرموجودہونابنیادی تقاضا ہے۔ایک ایسامعاشرہ جس میں افراد عام زندگی میں جس قدر زیادہ نظم وضبط کامظاہرہ کرتے نظرآئیں گے بین الاقوامی سطح پر اس قوم کو اسی قدرعزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اوردنیا کی مختلف اقوام میں وہ امتیازی مقام حاصل کرسکے گی۔معاشرے کی اخلاقی ترقی میں انسانی شعور بنیادکی حیثیت رکھتاہے۔اگر لوگ اجتماعی سطح پرعام زندگی میں عملی میدان میں بہتر اور مثبت طرزعمل اور رویوں کامظاہرہ نہ کریں تو یہ صورتحال مختلف قسم کی پیچیدگیاں پیداکرسکتی ہے۔
مغربی مفکرین سیاسیات کاکہناہے کہ ’ریاست زندگی کیلئے وجود میں آتی ہے اور زندگی کواچھا بنانے کیلئے ہمیشہ قائم رہتی ہے“۔ اگرچہ افراد کوضروریات وسہولیات زندگی فراہم کرنے نیزان کی جان ومال کے تحفظ کے ضمن میں ریاست کے اوپر بھارتی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں لیکن وہاں ریاست کے شہری بھی اہم فرائض اداکرنے کے پابند ہوتے ہیں اوران سب میں اہم اوربنیادی فریضہ ریاستی قوانین کااحترام اور ان پرعملدرآمد کرناہے ۔شہریوں کواپنارویہ اورطرز عمل ریاست کے بنائے گئے اصول وضوابط کے مطابق رکھنا ہوتا ہے ۔ یہ بہت ضروری ہے کہ عام شہری یا افراد قانون کی بالادستی کوقائم ودائم رکھیں لیکن یہ سب اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے کہ جب شہریوں میں قانون وضابطوں کی اہمیت اوران کی عملداری کاشعورواحساس پایاجائے ۔اگرشہری اجتماعی طورپراخلاقی ذمہ داریاں پوری کرتے رہیں تو عام سماجی زندگی میں موجود بے شمار مسائل اورلوگوں کی اکثرمشکلات کودورکیاجاسکتاہے۔فی زمانہ ریاستی ترقی اورجدید ریاست کے قیام کے ضمن میں یہ انتہائی اوربنیادی شرط ہے کہ ریاستی مفادکوذاتی مفادپرمقدم رکھاجائے ۔کسی بھی ریاست کے باشندوں کا وہاں کے شہری ہونے کے ناتے یہ اہم ترین فرض ہے کہ وہ کوئی بھی ایسا کام نہ کریں جس میں ان کاذاتی مفادتوموجود ہو لیکن اس کے نتیجے میں ریاست کے مفادکونقصان پہنچنے کاخدشہ ہو۔ شہری اگر ریاستی مفادکی اہمیت اوراس کے اثرات کوسمجھتے ہوں گے تو وہ ذاتی مفادکوملکی مفادکے مقابلے میں پس پشت ڈال دیں گے۔اجتماعی سطح پرشہریوں میں اس بات کی فکر اوراحساس موجودہوناچاہئے کہ ان کے کسی بھی طرزعمل سے ریاست میں انتشار یا بدنظمی پیدا نہ ہونے پائے ۔ شہریوں کایہی فکری احساس اورتعمیری طرزعمل ریاست کے اندر تعمیری اورمثبت ماحول پیداکرتاہے اوراس کے اثرات تمام ترشعبہ ہائے زندگی پربلواسطہ اوربلاواسطہ طورپرمرتب اورمحسوس ہوتے ہیں۔اچھے شہری اجتماعی وملکی مفادکے پیش نظرکام کرتے ہیں اورامور مملکت میں بہترخدمات انجام دیتے ہیں۔شہریت کاشعور شہریوں کے درمیان فکری ہم آہنگی پیدا کرتا اور برقرار رکھتا ہے۔اگر لوگ اپنے اخلاقی فرائض اوران کی اہمیت کوسمجھیں گے تو اس کے نتیجے میں عام سماجی زندگی کوپرامن اور بہتر سے بہتربنایا جاسکتا ہے۔ فردمعاشرے کی اکائی کی حیثیت رکھتاہے اورریاست کے نظام زندگی میں اس کاکرداربہت اہم ہوتاہے یہی وجہ ہے کہ معاشرتی زندگی کی کامیابی کاانحصار افرادکے مجموعی طرزفکر اورعمل پرہوتاہے اوران کے فکری احساس اورسوچ کے اثرات پور ی سماجی زندگی پرمرتب ہوتے ہیں چنانچہ کوئی بھی شہری اپنامخصوص کرداراس وقت تک مثبت اندازمیں ادا نہیں کرسکتا جب تک کہ اسے ان چیزوں کاادراک اوران کی اہمیت اور قدروقیمت کااحساس نہ ہو۔ایک اچھے شہری کی بنیادی خصوصیت یہی ہے کہ وہ ریاست کے معمولات میں اپناتعمیری کردار ادا کرتا رہے اور ریاستی مفادات کاخیرخواہ ہو۔
تازہ ترین