اس میں کوئی شک نہیں کے شمالی وزیرستان ایک خطرناک علاقہ ہے اور یہ مقامی اور غیرملکی شدت پسندوں کی پناہ اور حمایت حاصل کرنے کیلئے اہم جگہ ہے۔ دنیا میں پاکستانی قبائلی علاقے جیسی کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں اتنے مختصر عرصے میں اتنی بڑی تعداد میں ڈرون میزائل حملے کیے گئے ہوں ۔ لاقانونیت کے حوالے سے یہ جگہ پہلے سے ہی بدنام تھی تاہم نام نہاد پنجابی طالبان کی جانب سے 26مارچ کو پاک فوج کے دو جاسوس اور برطانوی صحافی کے اغواء کے بعد یہاں لاقانونیت میں مزید اضافہ ہوا۔
ضرورت سے زیادہ اعتمادکے حامل دو سابق آئی ایس آئی افسران کرنل(ر) سلطان امیرطرار المعروف کرنل امام اور اسکوڈرن آفیسر(ر) خالد خواجہ شدت پسندوں کے گڑھ شمالی وزیرستان گئے جہاں کئی شدت پسندوں کے گروپ میں سے کسی ایک نے انہیں اغوا کرلیا۔
کسی نے انہیں یہ مشورہ نہیں دیا کہ وہ پاکستانی نژاد برطانوی صحافی اسد قریشی کی ڈاکومنٹری فلم کیلئے شمالی وزیرستان کا دورہ کریں ۔دو سابق رکن قومی اسمبلی، کوہاٹ سے مسلم لیگ ن کے جاوید ابراہیم پراچہ اور کرک سے جے یو آئی کے مولانا شاہ عبد العزیزوہ شخصیات تھیں جن سے ان افسران نے شمالی وزیرستان روانگی سے قبل ملاقات اور انٹرویو کئے اور دونوں نے انہیں آگے جانے سے منع ہی کیا۔پراچہ اور شاہ عبدالعزیز کے جنگجوؤں سے روابط رہے تھے اور جانتے تھے کہ کسی باہر کے بندے کا شمالی وزیرستان جانا کتنا خطرناک ہو سکتا ہے جہاں حکومت کی عملداری بہت ہی کم ہے۔کرنل امام اور خواجہ کا شمالی وزیرستان جانے کا ارادہ پکا تھا۔ انہیں لازمی طور پر یہ یقین ہو گا کہ ان کے ماضی کے جہادی اور طالبان گروپ کے روابط کی بنا پر جنگجو ان کے کیلئے خطر ہ نہیں ہیں ۔شمالی وزیرستان جانے سے قبل جس سے خواجہ رابطے میں تھے اس حوالے سے عثمان پنجابی کا نام سامنے آرہا ہے ۔یہ ایک پھندہ تھا اب کرنل امام اور خواجہ اپنے غلط اندازوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اب وقت بدل چکا ہے اور جنگجوؤں کی نئی نسل سامنے آ چکی ہے جوکہ پاکستان آرمی یا آئی ایس آئی کے حوالے سے کسی بھی رابطے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ اب وہ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساتھ دینے کی بنا پر پاکستانی ریاست اور فوج کے خلاف ہو گئے ہیں ۔اس کے علاوہ ان کے علم میں یہ بات بھی ہوگی کہ کرنل امام اور خواجہ کی ہمدردیاں افغان طالبان کے ساتھ ہیں جو کہ غیر ملکی فوج کے قبضے کے خلاف لڑ رہے ہیں اور ان کی ہمدردیاں مقامی طالبان کے ساتھ کم ہی ہیں جو کہ پاکستان کے پولیس والوں اور فوجیوں کو قتل کررہے ہیں اور شہروں میں بم دھماکے کر رہے ہیں جبکہ اطلاعات ہیں کہ خواجہ اس سے قبل بھی شمالی وزیرستان جا چکے ہیں لیکن وہ کیوں گئے یہ واضح نہیں ہے ،ان کا 20مارچ 2010ء کا دورہ یقینی طور پر صحافی قریشی کی معاونت کرنا تھا جو کہ جنگجوؤں پر ایک ڈاکومینٹری بنا رہا ہے ۔حقیقت میں خواجہ نے مجھ سمیت کئی لوگوں سے ممکنہ انٹرویو کیلئے رابطے کئے لیکن انہوں نے فیصلہ کیا کہ پہلے کوہاٹ، کرک اور جنوبی وزیرستان جایا جائے اور واپس اسلام آباد جاتے ہوئے پشاور میں رک کر انٹرویو کر لئے جائیں۔جیسا کہ خواجہ نے مجھے بتایا تھا کہ وہ چاہتے ہیں اس ڈاکومنٹری میں مقصدیت ہو کیونکہ اس سے قبل بنائی جانے والی ڈاکومنٹری میں صرف ایک موقف ہی دکھایا گیا ہے۔قریشی کیلئے زندگی کا یہ بہترین موقع رہا ہو گا کہ جنگجوؤں کی دنیا میں جانے کا موقع مل رہا ہے ۔صحافی اہم واقعات کے حوالے سے حقائق حاصل کرنے کے لئے خود کو خطرے میں ڈالتے ہیں اور اس معاملے میں قریشی کو کرنل امام اور خواجہ کے ساتھ بہت زیادہ ڈھارس ملی ہو گی۔
یہ یقینی طور پر خواجہ کا خیال تھا کہ شمالی وزیرستان جایا جائے اور انہوں نے کرنل امام کو اپنے ساتھ چلنے پر بھی آمادہ کیا ہو گا۔ یہاں اس امر کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ یہ جنگجوؤں اور فوج کے مابین مصالحت کیلئے گئے تھے اگرچہ ان کی دوسری ویڈیو ٹیپ میں خواجہ کو ان کے اغواء کاروں نے کہاکہ وہ بولیں کہ انہیں شمالی وزیرستان پاکستان آرمی کی جانب سے بھیجا گیا تھا تاکہ جنگجوؤں سے نبرد آزما دستوں کو محفوظ راستہ فراہم کیا جا سکے ۔
ایسا کسی طور بھی درست نہیں کیونکہ شمالی وزیرستان میں ابھی لڑائی اس اسٹیج پر نہیں پہنچی اور فوج اور مقامی جنگجوؤں کے قائد حافظ گل بہادر کے مابین کیا گیا امن معاہدہ ابھی قائم ہے ۔ دونوں جانب سے بہت کم جھڑپیں دیکھنے میں آتی ہیں اور حال ہی میں میرانشاہ دتہ خیل روڈ پر واقع کھٹے قلعے گاؤں کے قریب ہونے والے ایک واقعے کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ اس میں 8فوجی جاں بحق ہو ئے 2بچے بھی مارے گئے اور ساتھ ہی متعدد جنگجو بھی ہلاک ہوئے ۔ بہرحال دونوں جانب سے صورتحال کو قابوکرلیا گیا۔حقیقتاً فوج یا آئی ایس آئی کو جنگجوؤں سے رابطوں کیلئے خواجہ جیسے کسی باہر کے آدمی کی ضرورت نہیں ۔ یہ کام تو قبائلی سردار اور مذہبی رہنما زیادہ بہتر انداز میں کر سکتے ہیں جوکہ وہاں کے لوگوں کی زبان اورطور طریقوں سے بخوبی واقف ہیں ۔کئی مواقع پرقبائلی سردار اور مذہبی رہنما افغان طالبان کے ہمراہ دونوں فریقین کے مابین ثالثی کر چکے ہیں اور اس کے نتیجے میں سیز فائر، امن معاہدے اور قیدیوں کا تبادلہ بھی ہوا ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ خواجہ سے ویڈیو ٹیپ میں یہ بیان جبری طور پر دلوایا گیا۔ان سے آئی ایس آئی اور سی آئی اے کا ایجنٹ ہونا تسلیم کروایا گیا اور ان سے یہ بھی قبول کروایا گیا کہ انہوں نے لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز کو برقعے میں فرار کرا کر گرفتار کروایا۔ انہیں یہ کہنے پر بھی مجبور کیاگیاکہ مخصوص جہادی رہنما جیسے فضل الرحمن خلیل ،مسعود اظہر اور عبداللہ شاہ مظہر اور جہادی تنظیمیں جیش محمد ، جماعت المجاہدین ،لشکر طیبہ اور البدرآئی ایس آئی کی پراکسی (proxy)کے طور پر کام کر رہی ہیں اور انہیں پاکستان میں فنڈ جمع کرنے کی اجازت بھی ہے ۔اس سے واضح طور پر جہادی گروپوں کے مابین دراڑ کی عکاسی ہوتی ہے۔اس سے پتہ چلتاہے کہ فوج سے ناراض جہادی گروپ اغوا شدہ خواجہ سے ویڈیو میں آئی ایس آئی کے خلاف باتیں کروا کر غصے کا اظہار کر رہے ہیں ۔ایسا لگتاہے کہ پنجابی طالبان خواجہ کو ناپسند کرتے ہیں کیونکہ کرنل امام کی کوئی ویڈیو سامنے نہیں آئی جس میں آئی ایس آئی کے خلاف کوئی بات کہی گئی ہو۔
خواجہ، کرنل امام اور قریشی کی رہائی کے بدلے جنگجوؤں کی جانب سے کئے جانے والے مطالبات حیران کن ہیں۔ خو د کو ایشین ٹائیگر کہلانے والے پنجابی طالبان نے پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے قبضے میں موجود افغان طالبان رہنما عبدالغنی برادر،عبدالکبیر اور منصور داداللہ کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے ۔ اطلاعات ہیں کہ عبدالکبیر تو گرفتار ہی نہیں ہوا ہے۔ مزید برآں منصور داداللہ کو پاکستانی حکام نے بلوچستان میں ہونے و الی ایک جھڑپ میں زخمی حالت میں گرفتار کیا تھا اور وہ اب افغان تحریک کا حصہ بھی نہیں رہا کیونکہ اسے شک ہے کہ ہلمند میں نیٹو کے حملے میں ہلاک ہونے والے بھائی داد اللہ اخوند کی ہلاکت میں چند طالبان کمانڈر ملوث ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے ایسے رویّے کا اظہار نہیں ہوتا کہ وہ ریٹائرڈ فوجی افسران کرنل امام اور خواجہ کی رہائی کے بدلے برادر یامنصور داداللہ کو رہا کرے گی جبکہ برطانوی حکومت کی جانب سے بھی اپنے مغوی شہری قریشی کے حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے ۔نام نہاد ایشین ٹائیگرزگروپ یقینی طور پراس امر سے بخوبی واقف ہے اور نتیجتاً ایسا ممکن ہے کہ وہ ان افراد کی رہائی کے بدلے تاوان لینے پر آمادہ ہو جائیں۔
یہ واقعہ شمالی وزیرستان کی پیچیدہ صورتحال کی نشاندہی کرتا ہے، پنجابی طالبان اور کئی دوسرے گروپس مقامی جنگجوؤں کی مدد سے سرگرم ہوئے ہیں۔ حافظ گل بہادر چاہتے ہیں کہ غیر ملکی جنگجو شمالی وزیرستان سے نکل جائیں کیونکہ ان کی موجودگی سیکورٹی فورسز کو ان کے خلاف کارروائی کرنے پر مجبور کرسکتی ہے۔ وہ محسود جنگجوؤں کو علاقے سے نکالنے کیلئے بے یارو مدد گار ہیں جنہوں نے جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں شمالی وزیرستان میں اپنے اتحادیوں کی مدد سے یہاں ہجرت کی۔ شمالی وزیرستان میں پاک فوج پر امریکہ کی جانب سے بڑے پیمانے پر کارروائی کیلئے دباؤ ڈالا جارہا ہے تاکہ غیرملکی جنگجو خاص کر حقانی گروپ کو پڑوسی ملک افغانستان پر حملے کیلئے پاکستانی سرزمین استعمال کرنے سے روکا جاسکے ۔ پاک فوج کو اپنی سرزمین جنگجوؤں کی پناہ گاہ ثابت نہ کرنے کیلئے شمالی وزیرستان میں کچھ نہ کچھ اقدامات کرنا پڑیں گے۔فی الوقت ایسا ممکن نہیں کیونکہ ڈیڑھ لاکھ سیکورٹی اہلکارقبائلی علاقوں کے مختلف محاذوں پر جنگ لڑ رہے ہیں تاکہ سوات اور دیگر علاقوں میں استحکام ہوسکے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اورکزئی اور خیبرقبائل کو محفوظ رکھنے کیلئے سیکورٹی اہلکاروں اور وسائل کی کمی ہے۔ شمالی وزیرستان میں کارروائی کیلئے انتظار کرنا ہوگا اور اگر اس جنگ میں کامیابی حاصل کرلی گئی توبھی اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ عسکریت پسندی دوبارہ ان پرامن علاقوں میں حاوی نہیں ہو گی۔