یہ درست ہے کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت کو دہشت گردی سمیت بجلی کا بحران، مہنگائی و بے روزگاری کے مسائل ورثے میں ملے ہیں، لیکن یہ بھی غلط نہیں ہے کہ اس حکومت نے تاحال ان مسائل کے حل کیلئے کوئی ایسی پیش رفت بھی نہیں کی ہے جس پر اظہار طمانیت کیا جا سکے۔ صدر زرداری بجا فرماتے ہیں کہ ان سے پانچ سال کا حساب دو سال میں طلب کرنا قرین انصاف نہیں، لیکن اگر ہم دہشت گردی کو مختلف النوع مسئلہ قرار دے کر اس سلسلے میں حکومت کی بعض مجبوریوں کو لائق اعتنا سمجھ لیں، تو بھی دوسرے محاذوں یعنی مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمے کے حوالے سے اب تک گزرنے والی حکومتی مدت میں نظر آنے والے اقدامات بھی نہیں اٹھائے جا سکے ہیں۔ بلاشبہ یہ امر مسلمہ ہے کہ جب تک دہشت گردی کی جڑیں اتار پھینکی نہیں جاتیں، اس وقت تک ملک میں سرمایہ کاری کے امکانات معدوم رہیں گے کہ ایک شورش زدہ ملک میں غیر ملکی سرمایہ کار کیا آئیں گے کہ ایسے عالم میں ملکی سرمایہ کار بھی بھاگ جاتے ہیں اور ظاہر ہے جب ملکی ترقی کا پہیہ جام رہے گا تو لا محالہ اس کے اثرات مہنگائی اور بے روزگاری کی صورت میں نمودار ہوں گے، لیکن پاکستان میں مہنگائی کے عفریت کے بعض عوامل ایسے ہیں، جو خود رو ہیں اور جن پر ایک ایسی حکومت باآسانی قابو پا سکتی ہے جسے اپنے طبقاتی حلیفوں سے کہیں زیادہ عوام کا مفاد عزیز ہو۔
اگر دہشت گردی یا کسی اور وجہ سے ایک پیداوار بند یا کم ہو جائے یا بیرونی یا اندرونی ناگزیر صورت حال کی وجہ سے اس کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہو جائے، تو اس شے کی قیمت بڑھنے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے، لیکن اگر ایک شے کی رسد و طلب میں توازن ہے اور بیرونی اخراجات میں بھی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا، لیکن اس کے باوجود اس کی قیمتیں عوام پر تازیانہ بن کر برس رہی ہیں، تو سمجھ لینا چاہیے کہ استحصالی عناصر اپنی طاقت کے بل بوتے پر بلا جواز محض زائد کمانے کی خاطر مہنگائی کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔ مثلاً پاکستان میں چینی کی کوئی کمی نہیں، پیداواری اخراجات بھی اس طرح نہیں بڑھے کہ اس کی قیمت 70 روپے فی کلو کے حساب سے بڑھانے کی مجبوری پیدا ہوگئی ہو، لیکن اس کے باوجود چینی کی مہنگائی ہے، جس سے استحصالی عناصر کے اس کھیل کے رموز واضح ہو جاتے ہیں، جس کے مطابق وہ ذخیرہ اندوزی کر کے قلت کا مصنوعی ناٹک رچا کر جب عوام کو مجبورمحض پالیتے ہیں، تو مطلوبہ شے مارکیٹ میں لا کر اس کی من مانی قیمت مقرر کرا دیتے ہیں۔ ہماری عدلیہ قابل افتخار اور آزاد ہے، لیکن یہ عناصر اس سے بھی زیادہ آزاد ہیں، جب ہی تو انہوں نے چینی کی 40 روپے فی کلو کی فروخت کے احکامات کی پوری آزادی کے ساتھ توہین کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کی۔
ایسا لگتا ہے پاکستان ایک ایسا ملک بن گیا ہے، جہاں چور، ڈاکو، دہشت گرد، ذخیرہ اندوز، ناجائز منافع خور الغرض بدی کے خصائل سے مالا مال ہر وہ شخص و گروہ آزاد ہے، جو زور اور زر سے لیس ہے۔ یہ طبقات جانتے ہیں کہ اس ملک میں ان سے باز پرس کرنے والا کوئی نہیں۔ دراصل اس ملک میں حزب اقتدار وحزب اختلاف دونوں میں بیٹھے دولت مند ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ باہمی بندر بانٹ کیلئے تو لڑتے رہتے ہیں، لیکن جونہی عوام کے کسی مسئلہ کا ان کی طبقاتی حیثیت سے ٹکراؤسامنے آتا ہے، تو یہ ایک ہو جاتے ہیں۔ مقام فکر ہے کہ سابق و موجودہ حکمران ملک کو قرض کے کوہ ہمالیہ کے نیچے داب چکے ہیں۔ بیرونی ساہوکاروں کی ایما پر آئے روز مختلف ٹیکسوں کے نام پر مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ دوسری طرف اندرون ملک بیٹھے منافع خور مہنگائی کی شدت میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں، لیکن نہ تو حزب اقتدار مہنگائی کم کرنے کی خاطر اقدامات اٹھانے کیلئے تیار ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ اور اس سے باہر حزب اختلاف کی جماعتیں مہنگائی کے خلاف افرادی قوت مجتمع کرنے کے کام میں مخلص ہیں۔ بظاہر ایک دوسرے کا نام برداشت نہ کرنے والے اراکین پارلیمنٹ اپنی تنخواہ و مراعات میں اضافے کیلئے تو جسم واحد بن جاتے ہیں، لیکن جب محنت کشوں کی تنخواہوں میں اضافے کی بات آجاتی ہے، تو یہ ملی بھگت سے سارا معاملہ پوائنٹ اسکورنگ کی نذر کر دیتے ہیں۔ اگرکبھی ان کی گاڑی کا چالان ہوجاتا ہے، تو یہ استحقاق مجروح ہونے کا واویلا مچا کر چلتے ایوان کو روک دیتے ہیں، لیکن جو ذخیرہ اندوز عوام کا استحقاق مجروح تو کیا پامال کرتے ہوئے ٹس سے مس نہیں ہو رہے، ان کے خلاف دو لفظ بولتے ہوئے جیسے ان کی زبان گنگ ہو جاتی ہے۔
اس سے بھی نامناسب طرزعمل ان مذہبی جماعتوں کا ہے، جو اپنے دیرینہ سابق حلیف امریکا کو اپنی ماضی کی وفاداری یاد دلانے کیلئے تو ہر مہینے ملین مارچ کر لیتے ہیں، لیکن ذخیرہ اندوزوں کیخلاف ان کا ملین مارچ نظر نہیں آتا۔ یہاں یہ نکتہ توجہ کا متقاضی ہے کہ جب پارلیمان کے اندر و باہر کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کو ووٹ سمیت ہر حمایت، مال مفت کی طرح مل جاتا ہے، تو پھر انہیں کیا پڑی ہے کہ وہ عوام کے غم میں خود کو دبلا کریں۔ یہ اس لیے بھی تو بے غم ہیں کہ انہوں نے عوام کو بحث و مباحثہ کے ایسے کام میں لگا رکھا ہے کہ اس سے عوام کبھی فارغ نہیں ہو سکیں گے۔ یہ عناصر کبھی ایک اور کبھی دوسرا ایشو مارکیٹ میں لاتے رہیں گے اور عوام ٹی وی و اخبارات میں ان پرجاری تبصروں و تجزیوں سے اپنا پیٹ بھرتے رہیں گے۔ کاش عوام اصل حقائق سمجھ جائیں کہ بظاہر ایک دوسرے کے دشمن نظر آنے والے سیاسی و مذہبی رہنما، سول و فوجی بیوروکریٹ اور ذخیرہ اندوز حقیقت میں ایک دوسرے کے کتنے قریب ہیں۔ کاش وہ میڈیا کے اس ”عظیم الشان“ آزادی کے دور میں یہ جان سکیں کہ کن کن جرنیلوں کے صاحبزادوں اور کن کن سیاستدانوں کی شوگر ملیں ہیں!!؟
وطن عزیز میں معاملہ ایک سوئس بینک کا ہو، توشاید ایک طرف ہو بھی جائے۔ یہاں تو قدم قدم پر سوئس بینک کھلے ہوئے ہیں، جن میں عوام کا سرمایہ لوٹ کا مال سمجھ کر دھڑا دھڑا جمع کیا جا رہا ہے۔ یہاں کا معاشی بحران بیرونی اثرات کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ خود ساختہ طبقاتی تضادات سے پیدا شدہ استحصالی مفادات کا نتیجہ ہے۔ یہ سرطان صرف عدم معاشی مساوات، لوٹ کھسوٹ، افسر شاہی اور رسہ گیر سیاست کے جراثیم سے پیدا ہوا ہے۔ یہاں اسمال انڈسٹری تو کیا ہیوی انڈسٹری اس وقت تک مثبت نتائج پیدا نہیں کر سکتی، جب تک استحصالی طبقے کا زور نہیں توڑا جاتا۔ یہ بات طے سمجھ لیں کہ یہاں مہنگائی سمیت تمام جرائم صرف اس وقت ختم ہوں گے کہ یا تو رسہ گیر سیاستداں ان چوروں ، ڈاکوؤں اور ذخیرہ اندوزوں کی سرپرستی کرنا چھوڑ دیں اور یا عوام اس بات کا ادراک کر لیں کہ وہ اشرف المخلوقات ہیں۔ جانوروں کے ایسے ریوڑ نہیں، جسے جب چاہے کوئی طالع آزما یا داغ دار سیاسی یا مذہبی رہنما ہانک کر لے جائے۔