• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ملک، ہمارے خطے اور عالمی طاقتوں کے دار الحکومتوں میں ایسے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن پر عقل بھی حیران ہے اور انسانیت بھی ماتم کناں ہے۔ برما کے مسلمانوں پر جو قیامت ٹوٹی ہوئی ہے وہ اکیسویں صدی کا بہت بڑا المیہ ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستان اُمت ِمسلمہ کو درپیش سانحات پر سب سے پہلے آواز بلند کرتا اور عملی قدم اُٹھاتا تھا۔ بدقسمتی سے اس کی قیادت اس عظیم فریضے سے دستبردار ہو گئی ہے اور اپنے اندر ہی گم ہوتی جا رہی ہے، البتہ بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین جناب ملک ریاض نے ایک لاکھ برمی مسلمانوں کے لیے زمین اور گھر فراہم کرنے کے علاوہ ایک ارب روپے کی پیشکش کی ہے اور اپنی سیاسی اور عسکری قیادت سے اپیل کی ہے کہ وہ اسلامی حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوری طور پر عملی اقدامات کی منصوبہ بندی کرے۔ برما کی پٹی اراکان میں صدیوں سے مسلمان آباد ہیں جن کا ان دنوں قتلِ عام جاری ہے اور اب وہ دس بارہ لاکھ رہ گئے ہیں جو اپنی جانیں بچانے کے لیے کشتیوں میں ملائیشیا جاتے ہوئے خلیج بنگال میں ڈوب جاتے ہیں اور ایک لاکھ کے قریب بنگلہ دیش کی سرحد پر کھلے آسمان کے نیچے پڑے ہیں اور بنگلہ دیشی حکومت انہیں اپنی آغوش میں پناہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ ترکی کے صدر جناب اردوان نے ڈھاکہ سے انہیں پناہ دینے کی درخواست اور اُن کے اخراجات برداشت کرنے کی پیشکش کی ہے۔ اس پیشکش میں مسلم اُمہ کے دوسرے ممالک بھی شریک ہو کر اقوامِ متحدہ پر برما کے مسلمانوں کی نسل کشی بند کرانے کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ سعودی عرب نے سلامتی کونسل سے رجوع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اس وقت سب سے بڑی ضرورت برمی مسلمانوں کی جان و آبرو کے تحفظ اور انہیں ہر نوع کی امداد فراہم کرنے کی ہے۔
عقل اس امر پر بھی حیرت زدہ ہے کہ چین کے شہر شیامن میں برکس سربراہ کانفرنس کا ایک ایسا اعلامیہ کیونکر جاری ہوا جو پاکستان کے مسائل میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ چین کانفرنس کا میزبان تھا جو ماضی میں بھارت کو اس تنظیم کے ذریعے پاکستان پر سفارتی دباؤ ڈالنے سے روکتا رہا۔ برکس میں چین، روس، بھارت، برازیل اور جنوبی افریقہ پر مشتمل بڑی معیشتیں شامل ہیں۔ شیامن اعلامیے میں ہر قیمت پر تشدد اور دہشت گردی روکنے کا عزم کیا گیا ہے۔ بھارت کی کوشش تھی کہ دہشت گردی پھیلانے والے ممالک میں پاکستان کو بھی شامل کر لیا جائے، مگر چین کی شدید مزاحمت پر پاکستان کے بجائے تحریکِ طالبان پاکستان ان تنظیموں میں شامل کر لی گئی جو دہشت گردی کی ذمہ دار ہیں۔ ان میں لشکرِ طیبہ، جیشِ محمد، حقانی نیٹ ورک، داعش اور القاعدہ وغیرہ کے نام لیے گئے ہیں۔ ہمارے وزیرِ دفاع جناب خرم دستگیر نے برکس سربراہ کانفرنس کا اعلامیہ مسترد کر دیا ہے، کیونکہ پاکستان نے دہشت گردی کو شکست دے کر اپنی رِٹ ہر خطے اور علاقے پر قائم کر لی ہے جبکہ افغانستان کا چالیس فی صد علاقہ افغان طالبان کے قبضے میں ہے جہاں سے دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمارے خیال میں پاکستان کو اعلامیہ مسترد کرنے کے علاوہ معاملے کی سنگینی محسوس کرتے ہوئے اپنے اندر سے تشدد کے تمام راستے بند کرنا ہوں گے۔ یہ گہری تشویش اور بہت بڑے خطرے کی بات ہے کہ جو پیغام پچھلے ماہ واشنگٹن سے آیا تھا، اسی سے ملتا جلتا پیغام ایک دوست ملک میں منعقدہ سربراہ کانفرنس سے آیا ہے۔
ہمارے ملک میں عقل کو ورطۂ حیرت میں ڈالنے والے واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں۔ پاناما پیپر لیکس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے پانچ فاضل جج صاحبان نے وزیراعظم نوازشریف کو آئینی دفعہ 62کی رُو سے ایک ایسے نکتے پر نااہل قرار دے دیا جس کا ذکر آئینی درخواست میں ہی نہیں تھا۔ یہ مقدمہ چار ماہ چلتا رہا اور جج صاحبان دورانِ سماعت ریمارکس بھی دیتے رہے اور آئینی دفعات بھی زیرِ بحث آتی رہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بنچ کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنا فیصلہ سب سے پہلے تحریر کیا اور وہ آئینی دفعات 62اور 63کے نفاذ کے بارے میں خاصے پُرجوش معلوم ہوتے تھے۔
قوم روزنامہ ’ڈان‘ کی شکر گزار ہے کہ اس نے گزشتہ جمعہ کی اشاعت میں بیرسٹر آصف سعید کھوسہ کا وہ مضمون ری پروڈیوس کیا ہے جو آئینی دفعات 62اور 63کے بارے میں لاء ڈائریکٹری میں 1988ء میں چھپا تھا۔ وہ مضمون نہایت فکر انگیز اور مضبوط دلائل سے آراستہ ہے۔ اُن کے تجزیے کے مطابق ان دونوں دفعات میں انتہائی مبہم، غیر واضح اور ناقابلِ مشاہدہ اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں جو شہریوں کے ذہنوں میں انتشار پیدا کرتی ہیں اور وکلا اور عدالتوں کے لیے بھیانک خواب اور ایک آئینی معمے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کے استدلال کے بنیادی نکات یہ ہیں۔ (1) ایک تحریری دستور میں ہر بات قطعیت کے ساتھ درج کی جاتی ہے۔ (2) اہلیت اور عدم اہلیت کے لیے دو الگ الگ دفعات غیر ضروری اور ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ (3) اس آئینی شق میں ’اچھے کردار‘ کی شرط عائد کی ہے، مگر یہ واضح نہیں کیا گیا کہ ’اچھے کردار‘ میں کیا کچھ شامل ہے۔ ایک شخص کے نزدیک کسی کا کیریکٹر اچھا اور دوسرے کے نزدیک بہت برا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ریٹرننگ آفیسر کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کے وقت کسی کے اچھے کردار کی تحقیق نہیں کر سکے گا۔ ایک امیدوار کی انتخابات میں کامیابی اس امر کی دلیل ہے کہ اس کے ووٹر اس کے کردار سے مطمئن ہیں۔ (4)اسی طرح دستور ’اسلامی احکام‘ کا پابند رہنے کے الفاظ استعمال کرتا ہے۔اسلام کے کسی بھی مسلک میں ’اسلامی احکام‘ کی جامع فہرست نہیں دی گئی ہے۔ بعض اوقات مقامی رسم و رواج بھی ’اسلامی احکام‘ میں شامل کر لیے جاتے ہیں۔ آئین کے اندر ان دفعات کو شامل کر کے ایک ایسا راستہ منتخب کیا گیا ہے جس پر فرشتے بھی چلتے ہوئے شاید خوف محسوس کریں۔ (5)’فرائض کی ادائیگی‘ اور ’گناہِ کبیرہ سے اجتناب‘ بھی اسی زمرے میں آتے ہیں جن کے لیے کوئی پیمانہ مقرر نہیں کیا گیا۔ اس کے بغیر ان کا اطلاق یقیناً قانون کی عدالت میں ناممکن ہے۔ ریٹرننگ آفیسر ’اسلام کے خاطر خواہ علم‘ کا تعین کرنے کے لیے دعائے قنوت سنانے کے لیے کہتے تھے۔(6) اسی طرح ’گناہِ کبیرہ سے اجتناب‘ کے بارے میں علما کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں۔ بعض کے نزدیک گناہِ کبیرہ وہ ہیں جن پر حد نافذ کی جاتی ہے جبکہ بعض مذہبی اسکالر جھوٹی گواہی کو بھی گناہِ کبیرہ میں شامل کرتے ہیں۔ (7)دستور میں اہلیت کے لیے ’ذہین‘، ’راست باز‘ اور ’متقی‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ان صفات کا تعلق انسان کی ذہنی کیفیت اور اخلاقی توانائی کے ساتھ ہے جس کا اندازہ ایک فرد کی پوری زندگی کا احاطہ کیے بغیر نہیں لگایا جا سکتا۔ (8) ’صادق‘ اور ’امین‘ کے اوصاف کا واضح طور پر حوالہ حضرت محمد ﷺ کی ذاتِ مبارکہ سے ہے۔ آئین میں یہ ترامیم غالباً اسی مقصد کے لیے کی گئی ہیں کہ وہی پارسا لوگ اسمبلیوں میں منتخب ہو کر آئیں جو حضرت محمد ﷺ کے معیار کے مطابق ہوں۔
بیرسٹر آصف سعید کھوسہ نے ان دونوں دفعات کو قانون کی نظر میں ناقابلِ نفاذ قرار دیتے ہوئے ان میں مناسب ترامیم کی تجویز دی تھی۔ ان کی اس بصیرت افروز تحریر کو پڑھنے کے بعد عقلِ سلیم یہ سوال کرتی ہے کہ انہوں نے وزیراعظم نوازشریف کو انہی دفعات کے تحت نااہل قرار دینے سے پہلے ان تمام پیمانوں سے کیوں کام نہیں لیا جن کا ذکر اُن کے مضمون میں بڑی صراحت سے موجود ہے۔ وہ یہ احتیاط آسانی سے برت سکتے تھے کہ اس بنچ میں شامل ہونے سے اجتناب کرتے جس میں دفعات 62اور 63کے حوالے سے رِٹ پٹیشن داخل کی گئی تھی یا وہ پانچ رکنی بنچ کو ان دفعات کی ایک ایسی تشریح کرنے پر قائل کر لیتے جس سے یہ دفعات غیر مؤثر ہو جاتیں اور آئین مبہم، غیر واضح، باہمی متصادم اور ناقابلِ نفاذ شقوں سے پاک ہو جاتا۔

تازہ ترین